والدین کی محبت فطری چیزہے اورکوئی بھی حقیقت شناس انسان اپنے والدین کے احسانات کو فراموش نہیں کر سکتا ۔ میرے والدین کے بھی مجھ پر بہت احسانات ہیں جن کابدلہ میںکبھی نہیں چکا سکتا ۔
اگرچہ والدگرامی کے انتقال کو ایک عرصہ بیت چکا ہے لیکن ان کی باتیں اور یادیں آج بھی میرے لیے سرمایہ حیات ہیں۔ان کے انتقال کے بعد خوشی یا دکھ کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے ان کی کمی محسوس نہ کی ہو ۔ میری عمر ان کے انتقال کے وقت صرف 15برس تھی، پھر بھی میرے سامنے ان کی زندگی کے بہت سے گوشے بڑی وضاحت سے موجود ہیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب آپ مجھے کریسنٹ ماڈل سکول کی نرسری میں داخل کروانے گئے تواس وقت بالکل نوجوان تھے اور آپ کی جاذبِ نظر شخصیت پورے سکول کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔
میری عمرکے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کے مذہبی اور سیاسی تعارف میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا ۔جب میں نویں جماعت میں پہنچا توآپ سیاسی اور مذہبی حوالے سے ایک ممتاز قومی شخصیت بن چکے تھے۔ آپ کے جلسے،اجتماعات،اخباری بیانات اور سرگرمیاں ملک کے اہم سیاسی و سماجی حلقوںمیں زیر بحث رہتے تھے ۔
میرے میٹرک کے بورڈکے امتحانات ہو رہے تھے جب آپ کے جلسے میں بم کا دھماکہ ہوا۔زخمی ہونے سے قبل وہ میرے تعلیمی کیریئرکے بارے میں بہت متفکر تھے اورامتحان دینے سے قبل وہ مجھے دعائیںپڑھا کرامتحان دلوانے بھیجا کرتے تھے۔ جس رات آپ کے جلسے میں بم کا دھماکہ ہوا اس سے اگلی صبح بھی میرا امتحان تھا، ساری رات عجیب تلخی اوراداسی میںگزری ۔اگلی صبح امتحان سے فارغ ہوکر میو ہسپتال پہنچا،آپ کو زخمی دیکھ کر بے ساختہ میرے آنسو رواں ہوگئے۔آپ نے بڑی سنجیدگی سے مجھ سے میرے امتحان کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا کہ پرچہ صحیح ہوگیا ہے ،اس پرآپ نے طمانیت کا اظہارکیا۔ آپ اس وقت بڑے حوصلے میں تھے اور جو شخص بھی عیادت کے لیے آتا آپ اس سے دعا کا مطالبہ کرتے ۔
آپ کے حوصلے کو دیکھ کر مجھے تسلی ہوئی ۔ جب آپ کو علاج کی غرض سے سعودی عرب لے جانے کی پیشکش کی گئی تو ہم سب اہل خانہ مطمئن تھے کہ اب آپ چند دنوں کے بعد بھلے چنگے ہوکر واپس آجائیں گے ، لیکن کاتب تقدیرکوکچھ اور ہی منظور تھا۔ سعودی عرب پہنچنے کے چندگھنٹے بعد ہی آپ کی طبیعت میںنقاہت پیدا ہونا شروع ہوگئی اور 30مارچ کی صبح کو آپ دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ کے جسد خاکی کو ریاض کی جامع الکبیر میں لایاگیا اوروہاں آپ کاجنازہ پڑھاگیا۔اس کے بعدآپ کو ہیلی کاپٹرکے ذریعے مدینہ منورہ لایاگیا اور مسجدنبوی میں جنازے کی ادائیگی کے بعدآپ کو مدینہ کے تاریخی قبرستان جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔
آپ کے انتقال کے بعد ہم بھی ہنگامی طور پر ریاض اور پھر مدینہ منورہ پہنچے۔آنکھیں نم تھیں،دل بوجھل تھا،اعصاب شکستہ تھے، جو سوچا بھی نہیں تھا وہی وقوع پذیر ہوکر رہا۔ مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلرعبداللہ صالح العبیدکے ہمراہ جنت البقیع قبرستان میں آپ کی قبر پر پہنچا۔ آپ کے درجات کی بلندی کے لیے دعا مانگی اور واپس روانہ ہوگیا ۔ میرے عملی امتحانات ہونا ابھی باقی تھے، پاکستان پہنچ کران میں شامل ہوا۔ اساتذہ، رشتہ دار، دوست احباب،ملک بھرکے سیاسی و دینی رہنما اورکارکنوںکی بڑی تعداد تعزیت کے لیے ہمارے گھر آتی رہی۔ہر شخص کو علامہ شہیدکی جواں عمری میں شہادت پر بہت زیادہ رنج تھا اور لوگ ان کی بلندی درجات اور ہمارے صبرکے لیے دعاگو تھے۔
ان کے انتقال کے بعد جب کبھی میں تنہا ہوتا، یادوں میں کھوجاتا ۔کبھی مجھے ان کے ساتھ کیے گئے بین الاقوامی سفر اورکبھی ان کے ہمراہ کیے گئے جلسے یاد آجاتے۔ میں نے 1982ء میں آپ کے ہمراہ حج کاسفرکیا تھا۔اس سفرکے دوران جب ہم مزدلفہ، منٰی اور عرفات پہنچے تو آپ مجھے باربارکہتے رہے کہ یہ ہماری بہت بڑی خوش نصیبی اور سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مقدس سفرکا موقع عنایت فرمایا۔وقوف عرفات کے دوران آپ نے انتہائی رقت سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں ۔ مجھے آج بھی ان کی آنکھوں سے رواں آنسواوررقت کی حالت میں رندھا ہوا لہجہ یاد ہے۔آپ کے ہمراہ مجھے مسجد نبوی شریف کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ میں نے آپ کواس موقع پر نبی آخرالزماں ﷺ کی عقیدت میں ڈوبے ہوئے دیکھا۔آپ کی آنکھیں نبی کریمﷺکی محبت میں نم تھیں اور آپ مدینہ منورہ میں گزرے ہوئے طالب علمی کے ایام کوبھی یاد فرماتے رہے۔
میں جب بھی ان کے ساتھ جلسوں میں جاتا عجیب سی روحانی اور جذباتی کیفیت سے دوچارہوجاتا۔آپ کے جلسے اور تقاریرانسان میں جذبہ جہادکو بیدارکرتیں، آپ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی قربانیوں کا ایسا نقشہ کھینچتے کہ ہرسامع کی یہی خواہش ہوتی کہ اگراس کو موقع مل جائے تو وہ اللہ کے راستے میں اپنی جان نچھا ورکردے۔ان کی رفاقت میں گزرے ہوئے چند برسوں نے میر ے اندر مذہب کی محبت کوانتہائی گہراکردیا او ر میری بھی خواہش ہوتی کہ میں بھی آپ کی طرح لوگوں میں اسلامی نظام کی محبت اور عقیدت کو بیدارکروں ۔ میں نے آپ کی زندگی میں چند تقاریرکیںجن کو سن کر آپ بہت خوش ہوئے۔گو آپ کی زندگی میں ،میں کم عمری کی وجہ سے وارث منبر و محراب نہ تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج جب میں منبر و محراب سے وابستہ ہوں تو کئی مرتبہ سوچتا ہوںکہ یہ سب کچھ آپ ہی کی تربیت اوردعاؤں کا ثمر ہے کہ اللہ نے اس دور پرآشوب میں مجھے دین کی محبت عطا فرمائی ہے۔ باباشہیدکو مطالعہ سے بہت دلچسپی تھی اور آپ ساری زندگی تحقیق اور تصنیف سے وابستہ رہے۔آپ کی ذاتی لائبریری میںمذہب، تاریخ اور سماج سے متعلق مضامین پر ہزاروںکتابیں موجود تھیں۔ آپ دن کا بڑا حصہ مطالعہ میں بسر کیاکرتے تھے۔ میں بھی کئی مرتبہ آپ کی لائبریری میں داخل ہوجاتا اور وہاں پر موجود سیرۃ النبی ﷺاور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سوانح حیات سے متعلق کتابوں کے مطالعے میں مصروف ہو جاتا۔میں ان کتابوں میں موجود واقعات کو بڑی دلچسپی سے پڑھتا اورکئی مرتبہ ان واقعات کی تشریح کے لیے بابا شہید سے رہنمائی بھی لیتا۔آپ میرے سوالات کا بہت اطمینان سے جواب دیتے اورکسی بھی موقع پر عجلت یا تلخی کا مظاہرہ نہ کرتے۔ آپ ہمیشہ ہمیں ارکان اسلام کی بجا آوری کی تلقین کرتے رہے اور جب بھی موقع ملتا ہمیں اللہ اور رسول ﷺسے محبت کا درس دیتے رہے ۔کئی مرتبہ جب آپ ہمیں نصیحت کرتے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے جو آپ کے خلوص اور دردمندی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
آپ کی طبیعت میں جہاں بہت زیادہ رقت تھی وہیں پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو جوش اور زندہ دلی کی صفات سے بھی نوازا تھا۔ جب دوست احباب کی مجلس میں ہوتے تومرکز محفل ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی پرکشش شخصیت عطا فرمائی تھی کہ جو ایک مرتبہ آپ سے مل لیتا عرصہ دراز تک آپ کویادکرتارہتا۔آج آپ کو رخصت ہوئے ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج بھی میںجس مجلس میں بیٹھتا ہوں لوگوں کو ان کا ذکر کرتے ہوئے پاتا ہوں۔اپنے بیگانے سبھی ان کی خطابت ، شعلہ نوائی ،جرأت اور بیباکی اور علم کی وسعت کے قائل نظر آتے ہیں۔لوگوں کو ہم سے توقع ہے کہ ہم بھی حضرت شہیدکی طرح حق گوئی اور راست بازی کے راستے پرگامزن رہیں گے۔ اگرچہ اس راستے پرچلنا بہت مشکل ہے لیکن دنیا اورآخرت کی سربلندی کا راستہ یہی ہے کہ انسان جس بات کو حق سمجھے اس پرڈٹا رہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت شہیدکی حسنات کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی انہی کی طرح ہمیشہ حق اورسچائی کے راستے پر پوری طاقت اور ہمت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین !