پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 10تما م شہریوں کی شخصی آزادی کا ضامن ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے بعد 24 گھنٹے کے اندراندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ آرٹیکل ہرشخص کو اپنے قانونی دفاع کا مکمل حق دیتا ہے ۔کوئی بھی تحقیقاتی ادارہ کسی شخص کو قید یا حبس بے جا میں نہیں رکھ سکتا۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والا خواہ کتنا ہی بااثرکیوں نہ ہو قانون کی نظر میں مجرم ہے ۔
سابق جنرل پرویز مشرف کے دور میں کبھی کبھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہے، بہت سے شہریوں کو ایف آئی آر کے اندراج کے بغیر اُٹھاکرغائب کردیاگیا،انہیں قانونی چارہ جوئی کا حق بھی نہ ملا ۔ان لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے باربار عدالتوں کے دروازے پردستک دی ، ججوں نے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن تعمیل نہ کی گئی ۔ سابق چیف جسٹس اس معاملے میں بہت فعال تھے۔ انہوں نے حساس اداروں کو وارننگ دی کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے لاپتہ افرادکو عدالتوں میں پیش کریں ۔ ان کا سخت رویہ دیکھتے ہوئے وزیر دفاع اورحساس اداروں نے یقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افرادکو جلد عدالتوں میں پیش کردیا جائے گا لیکن چند افراد کوہی پیش کیا گیا مگراس حوالے سے ٹھوس کارروائی نہ کی گئی ۔ چیف جسٹس اپنی سروس کی مدت مکمل کرکے چلے گئے لیکن حالات جوں کے توں رہے ۔
میاں محمد نواز شریف اقتدار میں آنے سے پہلے لاپتہ افراد کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے رہے ، لاپتہ افراد کے لواحقین کو امیدکی کرن نظر آئی کہ میاں صاحب برسراقتدار آکر ان کے دکھوں کامداوا کریںگے اور ریاستی اختیارات کے علاوہ اپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پرمحبوس لوگوں کی رہائی کا بندوبست کریں گے، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ میاں صاحب نے آئین کے آرٹیکل 10کو غیر موثر بنانے کے لیے صدر پاکستان جناب ممنون حسین صاحب کے ذریعے تحفظ پاکستان آرڈیننس جاری کروایا جس کے مطابق اگر حساس ادارے کسی شخص کو شک کی بنیاد پر اپنی تحویل میں لیتے ہیں تو ان کے لیے 90 دن تک اس شخص کو عدالتوں میں پیش کرنا ضروری نہیں ہوگا۔ اس آرڈیننس کے تحت محبوس یا لاپتہ شخص کو اس مدت کے دوران قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا ۔گویا لاپتہ شہریوں سے اپنے دفاع کے لیے قانونی چارہ جوئی کا حق بھی واپس لے لیا گیا۔
میاں صاحب خود بھی حالات کے مدوجزرکی زد میں رہ چکے ہیں۔ کئی سال تک جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے وزیر اعظم سے بجا طور پر اس بات کی توقع کی جاتی تھی کہ وہ لاپتہ اور محبوس شہریوں کے مسئلے پر دردمندی کا مظاہر ہ کریں گے لیکن انہوں نے نہ جانے کس سیاسی مصلحت کے اداروںکو وہ اختیارات تفویض کردیے جوانہیں صرف مارشل لاء کے دورمیں ہی حاصل ہو سکتے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کے بانی رہنما جناب ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ایوب خان کی کابینہ میں رہے اور وہیں سے اپنے سیاسی سفرکا آغازکیا لیکن بعد ازاں شہری آزادیوں کے علمبر دار بن گئے اور فوج سے اس حد تک دوری ہوئی کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں محمد نواز شریف صاحب نے بھی سیاسی سفرکا آغاز جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ کیا، بعد میں جمہوریت کے نقیب بنے اور فوج کو پاکستان کی سیاست سے علیحدہ کرنے کی جدوجہد کے دوران جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوکر پہلے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گئے اورپھر طویل جلاوطنی کاٹنے پر مجبور ہوئے ۔
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹوکو عدالتوں سے ریلیف مل سکا نہ میاں محمد نواز شریف آئینی اور قانونی جنگ جیتنے میں کامیاب ہو سکے۔اتار چڑھاؤ سے گزرنے کے بعد بڑے سیاسی رہنماؤں کے لیے حالات کے جبر کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ عوام کو توقع ہوتی ہے کہ ہمارے قائدین اور سیاسی رہنما ملک میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے، لیکن معاملات اکثر اس کے برعکس رہتے ہیں۔ نجانے اقتدارکی کرسی میںکون سی ایسی بات ہے کہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی ہر جماعت اور اس کے رہنمااقتدار میں آتے ہی اپنے وعدوں اور عزائم کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں ۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس کو باقاعدہ قانون کا حصہ بنانے کے لیے 7 اپریل 2014ء کوپاکستان کی قومی اسمبلی میں تحفظ پاکستان بل پیش کیا گیا۔ اسمبلی میں چونکہ مسلم لیگ(ن)کی اکثریت ہے اس لیے یہ بل اپوزیشن کے زبردست احتجاج اور تحفظات کے باوجود قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا ۔آئین کا حصہ بننے کے لیے اس کی سینٹ سے توثیق ہونا باقی ہے ۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے تہیہ کیا ہے کہ اسے سینٹ سے منظور نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اگراپوزیشن جماعتیںناکام رہیں اور یہ بل آئین کا حصہ بن گیا تو یہ مسلم لیگ نون کی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ کارنامہ تصورکیا جائے گا۔سب سے زیادہ افسوس ن لیگ کے ووٹروں کو ہو گا لیکن اس کا نقصان پورے ملک کو ہو گا۔ حکومت کو اس طرح کے اقدامات سے پہلے عوام کی رائے جاننی چاہیے تھی۔ دانشوروں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کا نقطہ نظر معلوم کرنا چاہیے تھا اور اس کے بعد جو بھی رائے بنتی‘ اس پر عمل کیا جاتا۔ نہ جانے حکومت کو جلدی کس بات کی تھی کہ اتنی عجلت میں یہ کام کیا گیا جس کا نقصان صرف عوام کو نہیں بلکہ حکومت کو بھی ہو گا کیونکہ اس اقدام سے حکومت کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ایک طرف تو ہمارے سیاسی رہنما فوج کو ملکی امور سے علیحدہ رکھنے کی بات کرتے ہیں، جمہوریت کی سربلندی اور عدالتوںاورشہریوں کی آزادی کے نعرے لگاتے ہیں مگر دوسری طرف آئین کی بنیادی روح اور اسلام اور جمہوریت کے بنیادی تقاضوں کے خلاف قانون سازی بھی کرتے ہیں۔ تحفظ پاکستان قانون کے تحت ملک میں متوازی عدالتی نظام قائم ہو گا۔ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے ملک بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی جو دہشت گردی میں ملوث مجرموںکو سزائیں دیںگی۔ اس قانون کے تحت مخصو ص حالات میں پولیس مشکو ک افراد پرگولی بھی چلا سکے گی۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی پولیس کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں ہے، آئے روز پولیس تشدد کی رپورٹس موصول ہوتی ہیں جن پراعلیٰ عدالتیں نوٹس بھی لیتی رہتی ہیں، کئی پولیس افسران کو معطل بھی کیا جا چکا ہے ۔ حال ہی میں مظفر گڑھ میں ایک طالبہ کی آبروریزی کا سانحہ پیش آیا تو خود میاں شہباز شریف صاحب نے غیر ذمہ داری کے مرتکب پولیس افسران کو معطل کر دیا تھا لیکن تحفظ پاکستان قانون کے تحت عدالتیں پولیس کا احتساب نہیں کر سکیں گی ۔
تحفظ پاکستان قانون بالواسطہ طور پر ملک کے موجودہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ عدالتی نظام عام طور پر مارشل لاء کے دور میںمعطل رہتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوگا کہ سول حکومت کی موجودگی میں بھی عدالتیں بے اختیار ہونے کی وجہ سے خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گی۔11 اپریل کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے بیانات میں اس قانون کوکڑی تنقیدکا نشانہ بنایا، 12اپریل کوپاکستان کے تمام اخبارات میں چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ بیان جلی سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا کہ ملکی تحفظ کی آڑ میں شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششیں نہ کی جائیں ۔مسلم لیگ (ن) کے لیے یہ مقام فکر ہے کہ وہ ملک میں ادارو ں کی خود مختاری اور شخصی آزادی کی علمبر دار جماعت کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے یا ملک میں افرا تفری پیدا کرکے ایسی قانون سازی کرنا چاہتی ہے جس کے منفی اثرات سے مستقبل میں اس کے اپنے رہنمابھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے ۔