اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات میں قسم ہا قسم کی مخلوقات آباد ہیں جن میں سے عقل رکھنے والی تین ہیں ۔فرشتے نور سے بنائے گئے ،جنات کو آگ سے پیدا کیا گیاجبکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کھنکتی مٹی سے پیدا کیا۔ فرشتے معصوم ہیں اور ان میں اللہ کی نافرمانی کا داعیہ موجود نہیں ۔قرآن مجید کی سورۃ الحجر میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کوانسانوں سے پہلے پیدا کیا‘ سورہ انعام کی آیت نمبر 128میں فرمایا کہ جنات کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہے لیکن ان کی معاشرتی سرگرمیاں عمومی اعتبار سے انسانوںسے جدا ہیں۔لیکن انسانوں اور جنات میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سراپا شر ہیں اور جن کا مقصد انسانوں کو اذیت اور تکلیف دینا ہوتا ہے۔ وہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کس طرح انسانوں پر غلبہ پایا جا سکے۔ یہ جنات منفی خیالات اور وسوسوں کو انسانوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں اور انسانوں کوگناہوںپر اکساتے ہیں۔ اگر انسان ان جنات کے وسوسے قبول کرکے گناہ پر آمادہ ہوجائے توشیطانی اثرات میں بتدریج اضافہ ہو تا رہتا ہے اور اگر انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ کو طلب کرے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا رہے تو ان کے حملوں میں کمی واقع ہوجاتی ہے؛ تاہم وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیںکہ کب کوئی انسان کسی اخلاقی اور روحانی کمزوری کا شکار ہو اور وہ اس پر حملہ کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر 27میں فرمایا کہ شیطان، جو خود ایک جن ہے، اور اس کا قبیلہ ہمیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے ہم انہیں دیکھنے سے قاصر ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو شیطانی حملوں سے بچنے کی بہت سی دعائیں بتائی ہیں۔ ان دعائوں کو گھر داخل ہوتے وقت ،کھانا کھاتے وقت‘ سفر کا آغاز کرتے ہوئے ،اپنے بستر پر جاتے ہوئے پڑھنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ کے ذکر کی برکت سے انسان شیطانی اثرات سے محفوظ ہوجاتاہے۔ شیطان صفت جنات گندگی اورنجاست پسند ہوتے ہیں۔ عام طور ناپاک مقامات پر سکونت اختیار کرتے ہیں۔ اسی لیے حضرت رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو بیت الخلاء میں جاتے ہوئے یہ دعاپڑھنے کی تلقین فرمائی ہے: اللّٰھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث یعنی ''اے اللہ میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں خبیث جن اور جننیوں سے‘‘۔
نیک لوگ اپنے تقویٰ اور طہارت کی وجہ سے شیطانی اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ بکثرت گناہ کرنے کی وجہ سے انسان شیطانی اثرات کی زد میں آجاتاہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ زُخرف کی آیت نمبر 36میں ارشاد کیا‘ جو شخص اللہ کے ذکر سے دوری اختیار کرتا ہے تو اللہ ایک شیطان کو اس کا ہم نشیں مقرر کر دیتے ہیں۔ شیطانی اثرات کئی مرتبہ انسان کے لیے سخت تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں جو کہ درحقیقت انسانوں کی اپنی بداعمالیوں کی سزا کی ایک قسم ہے ۔ اگر انسان اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ سے رجوع کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل اور دماغ پر سکینت کا نزول فرما دیتے ہیں ۔
بعض کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی صورت میں انسان پر شیطان اس حد تک حاوی ہو جاتاہے کہ انسان خبط یا پاگل پن کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 275میں بیان کیا ہے کہ سود کھانے والے اپنی کیفیت کے اعتبار سے اس شخص کی مانند ہیں‘ جسے شیطان نے چھو کر خبطی کر دیا ہو۔اس خبط کا علاج توبہ کیے بغیر نہیں ہو سکتا لیکن لوگوں کی اکثریت سیدھے راستے پر آنے کی بجائے منفی راستے پر چل نکلتی ہے۔کئی مرتبہ سنگین نوعیت کے روحانی اور نفسیاتی امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے لوگ اپنی جمع پونجی لٹانے پربھی تیار ہوجاتے ہیں۔ پریشانی اور اضطراب سے دوچار ہو جانے والے یہ لوگ اتنے بد حواس ہو جاتے ہیں کہ جدھر اُنہیں امید کی کرن دکھائی دیتی ہے‘ چل پڑتے ہیں۔ ان لوگوں کی نفسیاتی کمزوریوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بعض مکار اور فریبی لوگ انہیں گمراہ کر کے ان کا مال بٹورنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ چالاک اور عیار لوگ سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے کھسوٹنے کے لیے عام طور پر روحانی عاملین کا روپ دھارتے ہیں۔ یہ جعلی عاملین انتہائی سنگدل اور بے رحم ہو تے ہیںاور اپنے شکار کی حالت زار پرذرہ برابر ترس نہیں کرتے۔ دین اور شریعت کے راستے سے ہٹے ہوئے یہ لوگ پریشان حال لوگوں کو قرآن وسنت کی شاہراہ پر چلانے کی بجائے مال بٹورنے والے راستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کے اعصاب اور دل دماغ پر اس حد تک مسلط ہو جاتے ہیں کہ ان کے مال کو ہڑپ کرنے کے علاوہ کئی مرتبہ ان کی عزت اور آبر و کو پامال کرنے سے بھی نہیں چوکتے ۔
کئی عورتیں سسرال کی بدسلوکی ، شوہر کی سختی اور بے اولادی کو جنات اور جادو سے تعبیر کرتے ہوئے خفیہ طور پر ان عاملوں سے تعلق پیدا کرلیتی ہیں۔ ان کی چرب زبانی سے مسحور ہو کر ان پر اپنا تن من دھن قربان کر بیٹھتی ہیں۔ جعلی عاملین کے لیے ایسی عورتیں سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہوتیں۔ وہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر دولت کو کھینچنے کے ساتھ ساتھ انہیں ہوس کا نشانہ بنانے سے بھی نہیںچوکتے ۔
جنات کے اثرات بد کے ساتھ ساتھ جادو بھی ایک حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں جادو گری کے آغاز کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح اسے بطور آزمائش دنیا میں اتارا گیا ۔اللہ نے بتلایا کہ جادو نفع بخش نہیںبلکہ نقصان دہ علم ہے اور اس کے ذریعے شوہر اور بیوی میں تفرقہ پیدا کیا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے والے جادوگروں کا بھی ذکر کیا کہ کس طرح وہ عوام کے جم غفیر کے سامنے موسیٰ علیہ السلام سے شکست کھا کر اسلام قبول کرلیتے ہیں۔
حضرت محمد رسول اللہﷺ پربھی جادو کا وار کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو وحی کے ذریعے جادوگروںکے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا اور ان پر سورہ فلق اورسورۃ الناس کا نزول فرمایا ۔آپ ﷺ جادوگر کے مرکز تک پہنچ گئے اور جن اشیاء پر جادو کیا گیا تھا ان کو اپنے قبضے میں لے کر ان پر سورہ فلق اورسورۃ الناس کی تلاوت کی تواللہ نے جادو کے اثرات بد کو ختم فرما دیا ۔
نبی کریم ﷺ نے جادو اور جنات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی امت کی مکمل رہنمائی کی ۔آپ ﷺ کی بتائی ہوئی تدابیر میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1۔سورہ بقرہ کی تلاوت : جس گھر میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جادوگر سورہ بقرہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔2۔سورہ فلق اور سورۃ الناس کی تلاوت :ہر نماز کے بعد اور سونے سے پہلے سورہ فلق اورسورۃ الناس کی تلاوت کر لینے سے انسان جادو اور شیاطین کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔3۔آیۃُ الکرسی: آیۃُالکرسی کی تلاوت کرنے سے انسان شیاطین اور چوروںکے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے۔4۔تعوذ:قرآن مجید کی تلاوت سے قبل تعوذ یعنی (آعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم) پڑھ لینے سے انسان شیطانی اثرات سے بچ جاتا ہے ۔5۔ذکر الٰہی :کثرت سے ذکر الٰہی کرنے والا انسان اللہ کی حفاظت کے حصار میں آجاتا ہے خاص طور صبح شام 100دفعہ (لا الہ الااللّٰہ وحدہ‘ لاشریک لہ‘ لہ الملک ولہ الحمدوھوعلٰی کل شی ئٍ قدیر) کی تلاوت سے انسان شیطانی اثرات سے بچ جاتا ہے ۔
قرآن وسنت کی عظیم تعلیمات اور رہنمائی کی موجودگی میں انسان کی بہت بڑی نادانی اور حماقت ہوگی کہ انسان جنات اور جادوکے اثرات سے بچنے کے لیے جعلی عاملین سے رجوع کرے اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹنے کی بجائے دنیا وآخرت کی تباہی کا سامان جمع کرلے ۔