انسانی معاشروں میں جیل خانوں کا تصور بہت قدیم ہے۔ گنہگاروں اور بے گناہوں کو عرصہ دراز سے قید خانوںمیں ڈالاجارہا ہے۔قرآن مجیدمیںحضرت یوسف ؑ کی دعا کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کے مکر سے بچنے کے لئے جیل جانے کی دعا مانگی جس کو اللہ نے قبول کر لیا۔جیل میں حضرت یوسف ؑ کی ملاقات دو قیدیوں سے ہوئی‘ جن کو حضرت یوسف ؑ نے اللہ کی تو حید کی دعوت دی اور ان کو ان کے خوابوں کی تعبیر سے بھی آگاہ کیا۔حضرت یوسفؑ کئی برس جیل میں رہنے کے بعد بادشاہ وقت کے خواب کی صحیح تعبیربتا کر جیل سے رہا ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ابتدائی طور پر خزانوں کانگران اور بعد ازاںپورے مصر کا حاکم بنا دیا۔
حضرت یوسف ؑ کی قید کے واقعے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے سورۃالشعراء میں فرعون اور حضرت موسیٰ ؑکے مکالمے کا ذکر کیاہے۔ سورہ مذکورہ کی آیت نمبر29میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ فرعون نے حضرت موسی ؑ کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے اس کی جھوٹی خدائی کو تسلیم نہ کیا تو وہ آپ کو قیدخانے میں ڈال دے گا۔
گویا ‘جیلوں میں صرف مجرموں کو ہی نہیں ڈالاگیا بلکہ اللہ کے بر گزیدہ بندوں‘ یہاں تک کہ اللہ کے رسولوں کو بھی قید کیا گیا یا ان کو قید کر نے کی دھمکی دی گئی۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال کی آیت نمبر 30 میں اپنے آخری نبی حضرت محمد الرسول اللہ ﷺکے بارے میں کافروں کے ناپاک عزائم کا ذکر کیا ہے کہ کافر آپؐ کے خلاف تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ ﷺکو قید،شہید یا جلاوطن کر دیں۔وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ تعالیٰ سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کی چالوںکو ناکام بنادیا اور نبی کریمﷺ کو اپنی غیبی نصرت اور تائید کے ساتھ بحفاظت مدینہ منورہ منتقل فرما دیا اور بعد ازاں وہاں پر آپ ؐ کی حکومت قائم کر دی۔
نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں غزوہ بدرکے موقعے پر کئی جنگی قیدی گرفتار ہوئے جن کو بعد ازاں مسلمانوں کو تعلیم دینے کی وجہ سے آزاد کر دیا گیا۔حاتم طائی کی بیٹی بھی ایک موقع پر گرفتار ہو کر مسلمانوں کی تحویل میں آئیں۔نبی کریم ﷺ نے ان کو بحفاظت واپس ان کے اہل خانہ تک پہنچا دیاجس کی وجہ سے حاتم طائی کے فرزندحضرت عدی ؓنے اسلام قبول کر لیا۔اسی طرح آپ ﷺ کے عہد مبارک میں یمامہ کے گورنرحضرت نر ثمامہؓ بھی گرفتار ہوکر آئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کو اسلام کی دعوت دی جس کو انہوں نے وقتی طور پر قبول نہ کیااور نبی کریم ﷺ کے ساتھ معاندانہ رویے کا اظہار کیا ۔نبی کریم ﷺ نے اس بے ادبی پر خفا ہونے کی بجائے ان کو آزاد کر دیاجس پر آپ نے اسلام قبول کر لیا۔نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں قیدیوں سے حسن سلوک کا درس دیتی ہے ۔
اسلام میں غلامی کی بھی‘ جو قید ہی کی ایک معاشرتی شکل ہے‘ حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور بہت سے گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ غلام کی آزادی کی شکل میں مقرر کیا گیا ہے تا کہ معاشرے میں رفتہ رفتہ غلامی کی شرح کم سے کم ہو جائے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے مصارف زکوٰۃمیں غلاموںکی آزادی کوبھی شامل کیا ہے ۔بخاری شریف میں روایت مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کو دہرے اجر کا مستحق قرار دیا ہے جو اپنی لونڈی کی اچھی تعلیم و تربیت کے بعد اس کو آزاد کر کے اس کے ساتھ نکاح کر لیتا ہے ۔
بہت سے مسلمان حکمرانوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور اقتدار کے نشے میں اندھے ہو کر بہت سے بے گناہوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا۔حضرت امام احمد بن حنبلؒاور امام ابن تیمیہؒجیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر بھی اعلائے کلمۃاللہ کا فریضہ سرانجام دیتے رہے اورآنے والی نسلوں کے لیے استقامت اور حق پرستی کی عظیم یادیں چھو ڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس کے برعکس بہت سے مسلمان حکمرانوں نے مختلف ادوار میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا بھی اہتمام کیااور اس سلوک کی وجہ سے بہت سے غیر مسلم مسلمان ہو گئے۔افغانستان میں طالبان کے عہد حکومت میں معروف برطانوی صحافی یوان ریڈلی طالبان کی تحویل میں رہیںاور ان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئیں۔اس وقت وہ انگلستان میں اسلام کی نشرواشاعت اور فروغ کے لیے نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں اور جہاں جہاں مسلمانوں کے بنیادی حقوق چھینے جا رہے ہیں‘ ان کی بحالی کے لئے مصروف عمل ہیں۔
تاریخ پاکستان کا یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ ہر دور میں مجرموں کے ساتھ ساتھ نمایاں سیاسی و مذہبی رہنما بھی قیدوبندکی صعوبتوںکو برداشت کرنے پر مجبور رہے ہیں۔تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی ﷺ کے دوران بہت بڑی تعداد میںمذہبی رہنماؤں اور کارکنان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔ تحریک نظام مصطفی ﷺ کے دوران والد مرحو م ؒ بھی کوٹ لکھپت جیل میں رہے۔ اس وقت میری عمر پانچ برس کے لگ بھگ تھی اور میں اپنی والدہ کی ہمراہی میں ان سے ملاقات کے لئے گیا۔کم سنی کے باوجود اس ملاقات کے نقوش تاحال میرے دماغ پر ثبت ہیں۔ اسی جیل خانے میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں مخدوم جاوید ہاشمی صاحب بھی قید رہے ۔ مخدوم صاحب سے ملاقات کے لئے گاہے بگاہے میں کو ٹ لکھپت جیل جاتا رہا۔ ایک ملاقات میں خواجہ سعد رفیق صاحب بھی میر ے ہمراہ تھے۔ان لمحوں میں مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کے حوصلے بلند تھے مگر جیل کی مخدوش حالت دیکھ کر میں وحشت کا شکار ہو گیا۔پنجاب کے جیل خانوں کی کیفیت کے بارے میں آغا شورش کاشمیری مرحوم ؒ نے''پس دیوار زنداں‘‘کے نام سے ایک یادگار کتاب لکھی ہے جس کے مطالعے سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
مہذب معاشروں میںجیل کا مقصد صرف مجرم کو سزا دینا نہیں ہوتا بلکہ اس کی اخلاقی تربیت کااہتمام کرنا بھی ہوتا ہے لیکن مشاہدے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کے جیل خانوں میں مجرموں کو صرف ذہنی و جسمانی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی اخلاقی تربیت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی ۔ ایام اسیری میں بہت سے قیدی جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ دیگر قیدیوں کی ایک بڑی تعداد منشیات کی عادی بن جاتی ہے ۔
حال ہی میں پنجاب کی جیلوںمیںہونے والی منشیات فروشی کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ میں ایک رٹ دائر کی گئی ۔اس رٹ کا نوٹس لیتے ہوئے فاضل جج نے سیکر ٹری ایکسائز سے رپورٹ طلب کی جنہوںنے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پنجاب حکومت جیلوں میں نشے کے عادی قیدیوں کی بحالی کے لئے اقدامات کر رہی ہے اور اس حوالے سے لاہور اور راولپنڈی میں بحالی کے مراکز قائم کئے جاچکے ہیں۔عدالت نے تحقیق کی بنیاد پر اس رپورٹ کو مسترد کر دیا۔فاضل جج نے اس موقعہ پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دنیا اوپر کی طرف جا رہی ہے جبکہ پاکستان نیچے جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کے طرز عمل کی وجہ سے ملک تنزلی کی طرف جارہا ہے ۔پاکستان کو صحیح طریقے سے نہیں چلایا جا رہا۔ بڑے لوگوں کے بچے تو باہر پڑھتے ہیں مگر ہمارے بچوں نے تو یہیں رہناہے۔ انہوں نے اضافہ کیا کہ معاشرے میں نشے کی لعنت میںاضافہ ہورہا ہے، جیلیں منشیات فروشی کا گڑھ بن چکی ہیں اور حکومت اس کام کو روکنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کر رہی ۔انہوں نے تنبیہ کی کہ اگر اس کیس میں مناسب پیش رفت نہ ہوئی تو ضرورت پڑنے پر وزیر اعلیٰ کو بھی نوٹس جاری کیا جاسکتا ہے ۔عدالت نے آئندہ تاریخ پر جامع رپورٹ پیش نہ کرنے کی صورت میں سیکرٹری ایکسائز کو معطل کرنے کی وارننگ جاری کر دی ہے ۔
عدالت کا یہ طرز عمل یقینا قابل ستائش ہے۔ اگر قیدیوں کی اصلاح کے لئے مناسب انتظامات نہیں کئے جائیں گے تو ان کی قید کامقصدہی فوت ہو جائے گا۔ ماضی میں اس طرح کی مثالیں عام ملتی ہیں کہ بہت سے قیدی اپنی سزا کاٹنے کے بعد عادی مجرم بن گئے اوراس کی حالیہ مثال مردہ خور بھائیوں کی ہے جو سزاکاٹنے کے فوراً بعداسی جرم میں دوبارہ ملوث ہو گئے تھے۔جرائم کی روک تھام کے لئے جہاں مجرموں کو سزا دینا ضروری ہے وہیں پران میں احساس ندامت بیدار کر کے ان کو جرم سے باز رکھنا بھی ضروری ہے اوریہ جبھی ممکن ہے جب ہماری جیلوں میں قیدیوں کی تربیت کا معقول بندو بست کیا جائے گا۔