پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور اہم معاملات پر پاکستان کے مختلف طبقات کی آرا ء میں سنگین نو عیت کا اختلاف پایا جا رہا ہے ۔کسی بھی اہم معاملے پر معاشرے میں ایک سے زائد آرا ء کا پایا جانا ایک عام بات ہے لیکن اگراختلاف اس حد تک بڑھ جائے کہ ایک طبقہ دوسرے طبقے کی رائے سننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتو یقینا یہ امر باعث تشویش ہوتا ہے۔بعض اہم امور جن پر فی الوقت قوم کی رائے میں شدید نوعیت کا اختلاف پایا جا رہا ہے ،درج ذیل ہیں۔
-1پاکستان کی بنیاد: پاکستان کی بنیاد کے حوالے سے پاکستان کے لبرل اور مذہبی طبقات میں شدید نوعیت کا اختلاف پایا جاتا ہے۔پاکستان کے مذہبی طبقات پاکستان کو نظر یاتی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیںجبکہ لبرل طبقات اسے ایک قومی ریاست قرار دیتے ہیں۔دونوں طبقات اپنے اپنے مؤقف کی حمایت میں دلائل دیتے ہیں۔اہل مذہب کے نزدیک پاکستان کے قیام کے وقت نعرہ لگایا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ، جبکہ پاکستان کے آزاد خیال طبقات کے نزدیک اس کے قیام کا بنیادی مقصدبرصغیر کے مسلمانوں کو سیاسی حقوق دلوانا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو فقط سیاسی حقوق کے حصول کے لیے نہیں بنایا گیا۔یہ کام تو متحدہ ہندوستان میں رہتے ہوئے بھی ہو سکتا تھا ۔کم ازکم جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں پر بآسانی مسلمان صوبائی حکومتیں بن سکتی تھیں اور مرکزی پارلیمان میں بھی مسلمانوں کی بھر پور نمائندگی ہو سکتی تھی۔ پاکستان کے قیام کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت مسلمانوں اور ہندوئوں کا ایک وطن میںاکٹھے رہنا محال ہو چکا تھا۔ایک ایسے خطے کا حصول ان کی ضرورت بن چکا تھا،جہاں پر وہ اپنے نظریات کے مطابق حکومت کر سکیں اور اپنے معاشرے کو اسلام کے اصولوں کے تحت تشکیل دے سکیں۔اسی نظریے کا پر چار بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح اور مصور پاکستان علامہ محمد اقبال مختلف مقامات پر کرتے رہے۔ پاکستان کی بنیاد کے حوالے سے پایا جانے والا اختلاف پاکستان کی ترقی کے راستے میں حائل ہے اور وہ توانائی جو تعمیر وطن کے لیے استعمال ہونی چاہیے‘ اس کا ایک بڑا حصہ ایک دوسرے کی مخالفت میں صرف ہو رہا ہے۔اس اختلاف کا اثر پاکستان کے آئین کی تشریحات میں بھی نظر آتا ہے۔گو قرار داد مقاصد اور 1973ء کا آئین کتاب و سنت کی بالا دستی کی ضمانت دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود قانونی ماہرین کا ایک بڑا طبقہ آئین کی سیکولر تشریح پر زور دیتا ہے اور کتاب و سنت کی بالادستی کی ضمانت دینے والی شقوں کودیگر شقوں کے مساوی اور ہم وزن قرار دے کر آئین کی سیکولر انداز میں تشریح کرنا چاہتا ہے۔اس طبقے کا یہ طرز عمل مذہبی طبقات کے جذبات کو انگیخت کرتا ہے؛ چنانچہ بعض مذہبی جماعتیںاور گروہ آئین کی مختلف شقوں کا حوالہ دے کر آئین کی مذہبی حیثیت کو اجاگر کرتے ہیں جبکہ دیگر طبقات آئین سے بھی بد گمان ہو جاتے ہیں اور اس آئینی ڈھانچے کی کلی تبدیلی کی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
-2طالبان سے مذاکرات کا مسئلہ: طالبان سے مذاکرات کے مسئلے پر بھی مختلف طبقات کی رائے میں شدید نوعیت کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ایک بڑے دینی طبقے کی رائے کے مطابق قبائلی خلفشار اور انتشار کی ذمے داری جنرل پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنے دورحکومت میں امریکہ کو اڈے فراہم کیے‘ جن کو استعمال کرتے ہوئے جہاں امریکہ نے افغانستان پر حملے کیے، وہیں پر افغان طالبان کی حمایت کرنے پر قبائلی علاقوں میں بھی ڈرون حملے کیے۔ان حملوں کی روک تھام کے لیے پاکستانی حکومت ٹھوس اقدامات نہ کر سکی؛ چنانچہ قبائلی جنگجوئوں نے بھی پاکستان کی حکومت اور اداروں کو امریکہ کا حلیف قرار دے کر انتقامی اور باغیانہ سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ مذہبی طبقات کی رائے کے مطابق جب تک ریاست پاکستان اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنائے گی اُس وقت تک ان سے تابعداری کا تقاضا بھی نہیں کر سکتی۔اس کے برعکس ایک طبقہ اُن جماعتوں اور افراد پر مشتمل ہے جو کسی بھی طورپر طالبان سے مذاکرات کے حامی نہیں ہیں۔ان کے مطابق ہر قیمت پر ان جنگجوئوں کے خلاف آپریشن ہونا چاہیے۔ مذاکرات کا حامی طبقہ فوجی آپریشن کے مہلک نتائج سے سبق سیکھنے کی تلقین کرتا ہے اوراس حوالے سے سابق مشرقی پاکستان کی مثال دیتا ہے کہ فوجی کارروائیوں کے باوجود پاکستان اپنے مشرقی بازو سے محروم ہو گیا تھا۔مذاکرات کے حامی پاکستان کی بقا مذاکرات میں سمجھتے ہیں جبکہ مذاکرات کے مخالفین آپریشن کے علاوہ کسی حل کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔دونوں طبقات ایک دوسرے کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ایک گروہ دوسرے کو امریکی ایجنٹ جبکہ دوسرا طبقہ پہلے کو غدّار ِ وطن کہنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔اس اختلاف کی وجہ سے حکومت بھی گومگوکا شکار رہتی ہے اور کبھی ایک طبقے کی رائے کو قبول کرتی ہے تو کبھی دوسرے کو ترجیح دیتی ہے۔قومی نا اتفاقی کی وجہ سے کسی ٹھوس لائحہ عمل کو تشکیل دینا کافی مشکل ہو چکا ہے۔
-3تحفظ پاکستان بل کا مسئلہ: جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بہت سے پاکستانیوں کو غیر ملکی اداروں کے حوالے کر دیا گیا اور بہت سے پاکستانی لا پتہ بھی ہو گئے۔لا پتہ افراد کے لواحقین نے ان افراد کی بازیابی کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا ۔اعلیٰ عدالتوں کے اصراراور سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے سخت رویے کے باوجود لاپتہ افراد بازیاب نہ ہو سکے اور صرف چند افراد کو ہی عدالتوں میں پیش کیا گیا۔مسلم لیگ اور اس کے سربراہ نے سابق ادوار میںان لاپتہ افراد کے حوالے سے غم و غصے کا اظہار کیا مگر برسرِاقتدار آنے کے بعد کسی بھی شخص کو صرف شک کی بنیاد پر 90روز تک حراست میں رکھنے کے بل کو قومی اسمبلی سے منظور کروالیا۔اس بل پر مسلم لیگ کے علاوہ پاکستان کی تقریباً تمام جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔اس مسئلے پر قومی ہم آہنگی کا زبردست فقدان پایا جا رہا ہے اور اس بل کو پاکستان میں عوامی حکومتوں کے خاتمے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
-4آزادی صحافت کا مسئلہ: برصغیر پاک و ہند میں آزاد صحافت کے فروغ کیلئے مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خان اور مولانا ابوالکلام آزاد نے زبردست جدوجہد کی اور کئی مرتبہ ان کو پسِ دیوار زنداںبھی جانا پڑا۔قیام پاکستان کے بعد بھی صحافیوں اور حکومتوں کے درمیان کشمکش جاری رہی‘ جس کے نتیجے میں کئی صحافیوں کو قید کیا گیا،جبکہ بہت سے صحافی اپنی زندگی کی بازی بھی ہار گئے۔اکیسویںصدی کاآغاز صحافت میں انقلاب کا نقطۂ عروج ثابت ہوا اور برقی صحافت نے قلمی صحافت کو ایک نئے سانچے میں ڈھال دیا ۔صحافی جہاں حکومتوں کی بد عنوانیوں کو بے نقاب کرتے رہے‘ وہیں پر ان کی تنقید کا دائرہ پھیلتے پھیلتے حساس اداروں تک جا پہنچا۔صحافیوں پر ایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا کہ وہ اپنے اثرور سوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتوں اور اداروں کو بلیک میل کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔صحافی آزادی کی بات کرتے رہے جبکہ ادارے ان کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کی آوازبلندکرتے رہے۔ اس وقت ملک میں آزادی اور ذمہ داری کے درمیان توازن بر قرار رکھنے کے حوالے سے شدید اختلاف دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔ایک طبقہ صحافتی آزادی کا ہم نوا جبکہ دوسرا طبقہ ذمہ داری کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔اس اختلاف رائے کی وجہ سے حکومت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کشمکش کے منفی نتائج قوم کے سامنے ہوں گے۔
-5ڈیڑھ ارب ڈالر کا مسئلہ: حکومت پاکستان کو حال ہی میں سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد دی ہے۔ اگرچہ سعودی عرب نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے وقت لگنے والی مالی پابندیوں کے بعدبھی تقریباً 2ارب ڈالر کی امداد دی تھی اوراسی طرح بالاکوٹ میں آنے والے زلزلے کے وقت بھی پاکستان کوکروڑوں ڈالر دئیے لیکن بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے اس امداد کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور سعودی عرب کے ماضی کے تعاون کو نظر انداز کرکے اس کی امداد پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور قوم کی رائے اس حوالے سے واضح طور پر تقسیم نظر آتی ہے۔
اہم قومی امور پر پائے جانے والے شدید نوعیت کے اختلافات کی وجہ جہالت، تعصبات، پارٹی بازی اور مفادات ہیں۔ جب تک ہماری قوم، حکومت اور ادارے انصاف،میرٹ، بقائے باہمی اور قومی مفادات کو اپنی اولین ترجیح قرار نہیں دیں گے‘ اس وقت تک ہم اہم قومی امور میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ اتفاق رائے جہاں پاکستان کی بقاء کیلئے ضروری ہے‘ وہیں تعمیر ِوطن کیلئے بھی ناگزیر ہے۔