اجرام سماویہ کے بارے میں مختلف دور کا انسان مختلف تصورات اور عقائدکا حامل رہاہے ۔لوگوں کی بڑی تعداد سورج ، چانداور ستاروںکو انسانی زندگی میںبنیادی اورامتیازی حیثیت دیتی آئی ہے ۔ قدیم آسٹریلیائی تہذیب میںسورج کو روحانی عقیدت سے دیکھا جاتا تھا اور سورج کی روح کو''یہی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس وقت کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ''مقدس باپ‘‘ اور ''یہی‘‘ کے درمیان خصوصی قربت پائی جاتی ہے ۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مقدس باپ کی بنائی ہوئی دنیا کی بقا اور نشوونما کے لئے روشنی اور حرارت کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو کہــ ''یہی‘‘ کے ذریعے حاصل ہو تی ہے ۔ اسی طرح افریقہ کے لوگ بھی دو اہم جڑواں دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔یہ لوگ آسمان، سورج اور طاقت کو '' لیزا‘‘ کے نام سے موسوم کرتے تھے جبکہ زمین ،چاند اورزرخیزی کو ''ماہو‘‘ کانام دیتے تھے ۔ ان کے نزدیک ''لیزا‘‘ نر دیوتا جبکہ ''ماہو‘‘ مادہ دیوی تھی اور ان کاباہم گہرا تعلق تھا۔ قدیم چین کے لوگ سورج کو ''یانگ‘‘ کے نام سے پکارتے اور اس کو آگ کا بنا ہوا قرار دیتے جب کہ چاند کو ''ین‘‘ قرار دیتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ حقیقت میں سورج ایک نہیں بلکہ دس ہیں جوکہ یکے بعد دیگرے آسمان پر نمودار ہوتے ہیں ۔قدیم مصری تہذیب میں سورج کو خدا کا مظہر قرار دیا جاتااور اس کو ''را‘‘ کہا جاتا۔ اس کا مکمل نام ''را آتم کیپری‘‘ تھا۔درحقیقت نصف النہار کا سورج ''را ‘‘ جبکہ ''آتم‘‘ ڈوبتا ہوا سورج اور ''کیپری‘‘ چڑھتا ہوا سورج تھا، چو نکہ سورج کی سب سے زیادہ روشنی دوپہر کو ہوتی ہے اس لئے اس کو عمومی اعتبار سے ''را‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ سورج نے سب سے پہلے دیو مالائی جوڑے ''شواور تیفنوت‘‘ کو جنم دیاجوکہ زمین اورآسمان کے والدین تھے ۔ ان کے مطابق انسان سورج کے آنسوؤں سے پیدا ہوااس لئے زمین اور آسمان کی ذمہ داری تھی کہ ''را‘‘ کے آنسوؤں سے پیدا ہونیوالے انسان کی نشوونمامیں کردار ادا کریں ۔
قدیم یونان میں سورج کو ''اپالو‘‘ دیوتاسمجھاجاتاتھااور اس کے ساتھ ساتھ اس کو موسیقی ،شاعری اورشفاء کادیوتا بھی تصور کیا جاتا تھا۔جاپانی اپنی زمین کو ''نپون یا نی ہون‘‘ کہتے تھے۔ جس کا مطلب ہے سورج کی اساس۔ ان کے جھنڈے میں نظر آنے والا سرخ دائرہ‘ سورج کی عکاسی کرتا ہے ۔ ان کے نزدیک سورج ''اماتریسو‘‘ نامی مادہ دیوی ہے ۔قدیم پولینشیائی تہدیب میں سورج کو انتہائی تقدس دیا جاتا تھا اوراس کو ''مایی‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اور یہ گمان کرتے تھے کہ نیوزی لینڈ اور گردو نواح کے جزیرے مایی نے بنائے ہیں ۔ بعض جزیروں میں سورج کو دو مقدس دیوتاؤں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔قدیم رومی تہذیب پر یونانی دیوتا اپالوکا تصور چھایاہوا تھا۔ لوگ اس کو روشنی، موسیقی اور شفا کادیوتا سمجھتے تھے۔ اسی طرح رومیوں کی ایک جماعت اس کو ''متھرا‘‘ کے نام سے جانتی تھی۔
قدیم سمیری تہذیب میں سورج کی پوجا کی جاتی تھی۔ تین ہزار قبل مسیح سے لے کر چودہ سو قبل مسیح تک سمیری تہذیب کے باشندوں کے بارے میں گمان کیا جاتا تھاکہ وہ سورج کی پوجاکرنے والا پہلا گروہ تھا ۔ان کے نزدیک سورج صف اول کے دیوتاؤں میں نہیں بلکہ صف دوم کے دیوتاؤں میں شامل تھا۔ ہندو تہذیب میں سورج کو ''سوریا‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ اس کی شبیہہ بناتے ہیں کہ سوریا ایک بگھی پر سوار ہے جسے سات گھوڑے یا سات سروں والا ایک گھوڑا کھینچ رہا ہے۔ ''سوریا‘‘ دیوتا کو ''سری کرشنا‘‘ کے کائناتی وجودکی ایک آنکھ تصور کیا جاتا ہے اسی طرح آتش پرستوں کے خدا کی جھلک کوآگ اور سورج میں تلاش کیا جاتا رہا۔
قرآن مجید سمیت تمام الہامی کتابوں میں اجرام سماویہ کی پوجا کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ گو کہ بائبل میں تحریف ہو چکی ہے لیکن آج بھی بائبل میں سورج ،چاند اور ستاروں کی پوجا کی مذمت موجود ہے ۔ قرآن مجید کا موقف اس سلسلے میں بالکل واضح ہے۔ قرآن مجید نے سورج ،چاند اور ستاروںکو اللہ تعالی کی مخلوق قرار دیااور ان کے اثرات کو انسانی زندگی پر قبول نہیں کیا ۔قدیم سمیری لوگ سورج ،چاند اور ستاروں کی پوجاکرتے تھے، حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے باطل عقیدے کی حقیقت کوتحقیق اوردلیل سے واضح فرما دیا۔ پہلے آپ ؑ نے رات کی تاریکی میں روشن ستارے کو دیکھا،جب وہ صبح طلوع ہوتے ہی ڈوب گیا تو آپ نے واضح طور پر کہا کہ میری محبت ڈوب جانے والوں کے ساتھ نہیں ہے ،اسی طرح جب چاند بھی صبح کی آغوش میں اتر گیا تو آپ نے اپنے پرور دگار سے رہنمائی طلب کی ۔ اجرام سماویہ میں سب سے زیادہ نمایاں صرف سورج ہی باقی رہ گیا تھا۔ جب سورج بھی دن گزرنے کے بعد شام کے دھندلکوں میں کھو گیا تو آپؑ نے اپنی قوم کو مخاطب ہو کر کہا کہ میںتمہارے شرک سے بری ہوںاور اپنے چہرے کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہوں جس نے آسمان و زمین کو بنایا ہے ۔ اللہ تعالی نے سورۃ حٰم السجدۃ کی آیت نمبر 37 میں ارشاد فرمایاہے کہ ''اس کی نشانیوں میں سے دن،رات،سورج اور چاندہیں اور نہ سجدہ کرو سورج اور چاند کو بلکہ سجدہ کرو اس اللہ کوجس نے سورج اور چاند کو بنایا ہے‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو ہمیشہ ستارہ پرستی سے بچنے کی تلقین کی اور سورج اور چاند کو گھڑی کے کیلنڈر کے طور پر استعمال کیالیکن یہ مقام افسوس ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادغفلت اورنادانی کی وجہ سے آج بھی اپنے مستقبل کی پلاننگ سورج اور ستاروں کی روشنی میں کرتی ہے۔
سورج عام طور پر روشن رہتا ہے لیکن کئی مرتبہ چاند سورج کے گرد گھومتے ہوئے جب سورج اور زمین کے درمیان آجاتاہے تو اس کی روشنی بالکل ماند پڑجاتی ہے ۔اسی طرح جب زمین گھومتی ہوئی سورج اور چاند کے درمیان آجاتی ہے توچاند کی روشنی ماند پڑجاتی۔اس کیفیت کو سورج گرہن اور چاند گرہن کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ 29اپریل کو جہاں دنیا کے مختلف ممالک میں سورج گرہن تھا وہیں پر پاکستان میں بھی مکمل سورج گرہن تھا۔جس طرح سورج اور چاند کی پوجا کا اسلام میں کوئی تصور موجود نہیں، اسی طرح زمین پر ہونے والے کسی حادثے یا بڑے واقعے کا سورج گرہن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
بخاری شریف میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں سورج گرہن ہواتو بعض لوگوںنے اس کا تعلق حضرت ابراہیم ؑ کی وفات کے ساتھ جوڑا۔ نبی کریمﷺ نے اس موقع پر ان کا شبہ دور کرتے ہوئے فرمایا ''سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ ان کو کسی کی زندگی یا وفات سے گرہن نہیں لگتا۔اس لئے جب سورج گرہن لگے تو اللہ کی عبادت کیا کروجب تک گرہن ختم نہ ہو جائے‘‘ بخاری شریف میں ہی روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں سورج گرہن لگا تو آپؐ نے ایک شخص کواعلان کے لئے کہا کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے۔ آپﷺنے دو رکعت نمازکی چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ امامت فرمائی ۔اسی طرح حضرت عائشہؓ ہی نے فرمایا کہ آپﷺ نے اس نماز میں باآواز بلند تلاوت کی اور سمع اللہ لمن حمدہ کے بعدآپ ﷺ نے دوبارہ بالجہر تلاوت فرمائی ۔
یقینا نبی کریم ﷺ کی زندگی ہم سب مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔جہاں پر سورج گرہن کی وجہ سے بد اعتقادی پیدا نہیں ہونی چائیے وہیں پر ہمیں آپﷺ کی اتباع کرتے ہوئے دو رکعت نماز بھی ادا کرنی چاہیے۔اللہ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین