29اور30اپریل کو زیادہ وقت عدنان رشید کی ذاتی لائبریری میں موجود قلمی نسخوں اور کتابوں کی ورق گردانی میں گزر گیا۔ عدنان رشید کی لائبریری میں بڑے بڑے نایاب قلمی نسخے موجود ہیں اور جس حفاظت سے انہوں نے ان کو رکھا ہے اس سے ان کے اعلیٰ علمی ذوق کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔اس لائبریری میں دور ِ اندلس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان جاری رہنے والی طویل کشمکش اور صلیبی جنگوںکے بارے میں کتابیں موجود ہیں ۔اسی طرح صلیبی جنگوں کے بارے میں مستشرقین کی لکھی گئی کتابیں بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔سلطان صلاح الدین ایوبی کے بارے میں لکھی جانے والی کتب کو دیکھ کریہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ مسیحی مورخین کی نظر میں سلطان صلاح الدین کا کیا مقام تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسلمانوں کے کھوئے ہوئے اعتماد کی بحالی کے لیے جس طرح محنت کی اور مسلمانوں کے درمیان قومیت اور فرقہ پرستی کے بحران پرقابو پاکر ان کو ایک اکائی کی شکل دی یقینا آج بھی امت مسلمہ کو کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کے لیے اسی قسم کی بالغ نظر قیادت کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کے انتشار اور اشتراک پر قابو پاکر ان کو کھویا ہوا مقام دلا سکے ۔
اس دوران مختلف علاقوں سے آئے ہوئے دوستوں سے بھی ملاقات ہوتی رہی اور میں ،عدنان بھائی کے ہمراہ ساؤتھ ہال میں قیام پزیر ایک انتہائی عزیز دوست امتیازاحمد مغل کے گھر گیا ۔امتیاز احمد مغل نے بڑے پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا ۔کھانے کے دوران پاکستان کے مذہبی اور سیاسی حالات پرسیر حاصل گفتگو ہوتی رہی ۔تارکین وطن کی ایک بڑی تعدادنجی ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات کے ذریعے ہمہ وقت پاکستان کے حالات سے باخبر رہتی ہے اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان کے حالات فی الفور ٹھیک ہو جائیں ۔تارکین وطن کی پاکستان سے محبت دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اپنے وطن سے ہزاروں میل دور رہنے والے یہ پاکستانی اپنے وطن کی تعمیرو ترقی کے لیے اس طرح کُڑھتے ہیں جیسے کوئی حساس انسان اپنے اہلخانہ کے لیے دردمند ہوتا ہے ۔
جمعرات کو ظہر کی نماز کی ادائیگی اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد میں عدنان رشید کے ہمراہ مانچسٹر کے لیے روانہ ہو گیا ۔ برطانیہ کی سر سبزو شاداب چراگاہوں کے درمیان سے گزرنے والی موٹر وے پر وہ کسی ماہر اور تجربہ کار ڈرائیور کی طرح برق رفتار ی سے گاڑی چلا رہے تھے۔ ہم دونوں برطانیہ میں تبلیغ دین کے حوالے سے اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ میںنے انہیں بتایا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران مجھے جب بھی برطانیہ آنے کا موقع ملا اجتماعات کی رونق میں بتدریج اضافہ ہی نظر آیا اور میں نے برطانیہ کے ہر شہر میں ایسے باعمل نوجوانوں کو کثرت سے دیکھا جن کے چہرے نورِ ایمانی سے چمک رہے تھے ، میں نے بڑی تعداد میں مسلمان عورتوں کو حجاب اور نقاب میں ملبوس دیکھا اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیمات میں دلچسپی لیتے ہوئے پایا۔ اگر معاملات اسی طرح رہے تو آنے والوں سالوں میں برطانیہ کے مسلمانوں کی عملی حالت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک مثال بن جائے گی ۔عدنان رشید نے مجھے بتایا کہ برطانیہ کے شہریوں کی بڑی تعداد اسلام قبول کرتی جا رہی ہے اور ''آئرہ ‘‘کے تبلیغی نیٹ ورک کی وجہ سے بھی بڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں ۔
اسی بات چیت کے دوران وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا اور ہم مانچسٹر پہنچ گے۔ وہاں پہنچ کر عصر کی نماز ادا کی۔ پھر ایک مشہور پاکستانی ریستوران سے حسب ضرورت کھانا تناول کر کے مانچسٹر کے مشہور''نان الکوحلک ‘‘ہوٹل وکٹوریا پارک جا پہنچے جہاں پر پہلے ہی سے ہمارہ کمرہ بک تھا ۔کمرے میں سامان رکھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لیے ہوٹل سے باہر نکلے ۔مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کے بعد دوبارہ ہوٹل واپس آکر محوآرام ہو گئے ۔اگلے روز فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد دوبارہ اچھی طرح آرام کیااور ناشتہ کرنے بعد مانچسٹر کی مشہومسجد ''مکی مسجد‘‘ میں جمعے کی ادائیگی کے لیے پہنچ گئے ۔
خطبہ جمعہ کے آغاز سے پہلے ہی مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ۔میںنے خطبہ جمعہ میں انسانوں کی تخلیق کے مقصد پر روشنی ڈالی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی بندگی اور عبادت کے لیے بنایا ہے اور حقیقی کامیابی دراصل آخرت کی کامیابی ہے۔ انسان دنیا داری میں پڑ کر آخرت کو فراموش کر دیتا ہے حالانکہ دنیا کا گھر جنت کے محل کا ،دنیا کی حسینہ ،جنت کی حور کی،دنیا کا موسم ،جنت کے موسم بہار کا ،دنیا کا لباس ،جنت کے ریشمی لباس کا اور دنیا کے تعلقات اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ جمعے کے خطبے اور نماز سے فراغت کے بعد کچھ وقت نمازیوں سے ملاقات میں صرف ہوا ۔اس کے بعدمیں مسجد کے خطیب اوراپنے دیرینہ ساتھی حافظ حمود الرحمن اور مسجد کی انتظامیہ کے ہمراہ مسجد کی توسیع کے لیے خریدے گئے پلاٹ پر پہنچا ۔ میں نے برادر عدنان ر شید ،حافظ حمود الرحمن اور دیگر رفقاء کے ہمرا ہ وسیع پراجیکٹ کا سنگ بنیادرکھا اور یورپ اور برطانیہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی نشرواشاعت اور فروغ کے لیے دعا مانگی ۔ اس کے بعد ایک ساتھی اپنے ذاتی ریستوران پر لے گئے اوروہاں شرکاء نے کھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ترقی اور سلامتی کے بارے میں اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا، جس کے بعد میں عدنا ن بھائی کے ہمراہ واپس ہوٹل آگیا ۔ ہفتے کے روز مانچسٹر کے معروف بینکویٹ ہال المائدہ میں براعظم افریقہ میں اسلام کی تبلیغی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں برادر عبدالرحیم گرین ،جان فاؤٹین ،حمزہ اینڈریاس اور لارن بورتھ کے ساتھ ساتھ مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا ۔
تبلیغ اسلام کی فضیلت و اہمیت کے عنوان پرتمام مقررین نے اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی ۔ میں نے بھی انگریزی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔نامور نو مسلم خاتون لارن بورتھ اور ان کے شوہر نے اس موقع پر مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی ۔ سسٹرلارن بورتھ کا تعلق چونکہ اہم سیاسی برطانوی خاندان سے ہے اس لیے ان کا قبول اسلام برطانیہ میں کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔ ان کے قبول اسلام کے بارے میں،میں نے ماضی میں صرف انٹر نیٹ اور اخبارات میںپڑھا تھااس لیے میں نے موقع کو غنیمت جانا اور تقریب سے فراغت کے بعد برادر عدنا ن رشید کے ہمراہ ان کے گھر چلا گیا ۔
میں نے لارن بورتھ کی زبانی جب ان کے قبول اسلام کی روداد کو سنا تو میری آنکھیں پرنم ہوگئیںاور میرا یقین گہرا ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو ہدایت دینا چاہتا ہے توخود اپنی جناب سے اس کے لیے اسلام کے راستے کو آسان بنا دیتا ہے ۔لارن بورتھ کے دل میں جہاں اسلام کے لیے والہانہ محبت تھی وہیں پر ان کو اُمت مسلمہ کے مسائل سے بھی گہری دلچسپی تھی ۔وہ کشمیر ،فلسطین اور شمالی علاقہ جات میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات کی وجہ سے انتہائی مغموم تھیں ۔ان کی دردمندی کو دیکھ کر میرے ذہن میں نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک آگیا کہ دنیا کے مسلمان جسد واحد کی مانند ہیں اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف اور درد ہو تو پورا جسم محسوس کرتا ہے ۔ لارن بورتھ نے ہمیں رخصت کرنے سے قبل دعا کے لیے کہا جس پر میں نے ان کے لیے دین پر استقامت کی دعا مانگی اور ہم ہوٹل واپس آگئے ۔اتوار کے روز مانچسٹر میںہی ایک بڑی خاتم النبین ﷺ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں بڑی تعداد میں مانچسٹر اور گردونواح سے لوگ آئے ۔میں نے اپنے خطاب میںنبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور سامعین کے سامنے وضاحت سے اُمت مسلمہ کے اجتماعی موقف کو پیش کیا کہ نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کا انکار کرنے والا یا طے شدہ عقیدے میں تاویل کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ پیر کی صبح مانچسٹر سے لندن واپسی کے لیے روانگی ہوئی۔ واپس آتے ہوئے برطانیہ کے خوبصورت ترین علاقے نارتھ ویلز کے راستے کو اختیار کیا ۔ نارتھ ویلز کے راستے میں کنگ ایڈورڈ کے بنائے ہوئے تاریخی قلعے اور خوبصورت جھیلوں کا نظارہ کرتے ہو ئے برمنگھم کے قریب موٹر وے پر آگئے اور اس طرح لندن واپس پہنچ گئے۔منگل کی شام کو وطن واپسی کے ہیتھرو ائیر پورٹ پر پہنچا جہاں پر پنجاب اسمبلی کے سپیکر رانا محمد اقبال کے علاوہ چند نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جن کے چہرے وطن واپسی پر خوشی سے تمتما رہے تھے ۔جہاز7بجے جہاز روانہ ہوا اور 7گھنٹوں بعد لاہور کے علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیرپورٹ پر اُترگیا ۔یوں مختصر سا دورہ بر طانیہ اختتام کو پہنچ گیا ۔