چوری ، ڈکیتی ، قتل و غارت ، زناکاری اور اغوا برائے تاوان کی خبریں کثرت سے پڑھنے اورسننے کو ملتی ہیں۔ جرائم کی شرح حکومتی دعوؤںاور ماتحت اداروں کی کوششوں کے باوجود کم ہونے میں نہیں آتی ۔ان جرائم کی تعداد خبروں اور تھانوں میں درج کرائی گئی رپورٹوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ جرائم کے محرکات پر غورکیا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی عقل پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور وہ اپنی موت اور یوم جزاکو بھلا بیٹھا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے پیشی کا احساس اس کے دل سے نکل چکا ہے اور دنیا کی چند روزہ زندگی کو ہی اس نے اپنا مقصد بنا لیا ہے۔ایمان میںکمی نفسانی خواہشات بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ پختہ ایمان انسان کو جائزو ناجائزاور حلال و حرام میں فرق کا احساس بیدارکرتا اورضمیر (نفس لوامہ) کی آواز پر مثبت ردعمل کا جذبہ ابھارتا ہے ۔ ایمان کی کمزوری کے سبب نفس امارہ اور شیطان انسان پر غالب آجاتاہے اور وہ دنیا کی جاہ حشمت ، وجاہت اور مال واسباب ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور ان کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیارکر لیتا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسانوں کے درمیان فیصلہ کرے گا لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ کئی مجرموں کو دنیا ہی میں نشانِ عبرت بناکرانسان کی کوتاہ بینی کو واضح فرما دیتا ہے۔
انسان اقتدارکو نعمت سمجھتا ہے اورگمان کر تا ہے کہ ہر صاحبِ اقتدار اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید سے ہی تخت ِحکومت پر براجمان ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اس فکری مغالطے کو دورکرنے کے لیے قرآن مجید میں فرعون اور نمرود کا ذکرکیا جو اپنے اقتدارمیںاس حدتک مست ہو چکے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کے منکر ہو گئے۔ فرعون بر سر عام اپنے آپ کو انسانوں کا رب قرار دیتا تھا۔بنی اسرائیل کے لوگوں کے سامنے موسیٰ علیہ السلام کی دعوت بھی تھی لیکن فرعون ان کواپنے اقتدار ، ہیبت و حشمت ، جاہ وجلال اور اثروسوخ کا حوالہ دے کر بہکا لیتا۔اس نے اپنی قوم کو قائل کرنے کے لیے جو خطاب کیا اس کو اللہ تعالیٰ نے سورہ زخرف کی آیات 51سے 54میں یوں بیان فرمایا ہے : '' فرعون نے اپنی قوم کو پکارکرکہا کہ' اے میری قوم ! کیا مصرکی بادشاہی میری نہیں ہے اور یہ نہریں جو میرے نیچے سے بہتی ہیں ؟کیا پھر بھی تم لوگ نہیں دیکھتے؟کیا میں بہتر ہوں یا یہ شخص جوکم حیثیت اور حقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا۔پھرکیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے یا کیوںفرشتے اس کے ساتھ پرے باندھ کرنہ آئے ؟ ‘‘ پھر اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا ، پس انہوں نے اس کی اطاعت کی ، یقیناوہ نافرمان لوگ تھے‘‘۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں فرعون کے اقتدار سے مرعوب ہوکراس کی حمایت کرنے والے اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ کائنات میں ہر مقام پراللہ تعالیٰ کادستِ قدرت کارفرما ہے اوراللہ تعالیٰ وقتی طور پراپنے نافرمانوںکو ڈھیل دے کرجب چاہے ان پرگرفت کر سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی ہیبت و حشمت سے مرعوب ہو جانے والے لوگوں کے سامنے ہی فرعون کو سمندرکی لہروںکی نذرکر دیا ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں نمرود کے اقتدار کا ذکر کیاکہ نمرود بھی اقتدارکے نشے میں اندھا ہوکر اپنی عاقبت اور اپنے خالق و مالک کو بھلا بیٹھا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دربار نمرود میں اس کے سامنے اللہ کی دعوت توحیدکو پیش کیا اور اسے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ سرکشی پر آمادہ نمرود نے ایک مجرم کو آزاد کرکے ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس فریبی کے مکرکو واضح کرنے کے لیے فرمایا کہ اللہ تو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے، پس اگر تورب ہے تو سورج کو مغرب سے لے کرآ۔ نمرود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دلیل کے سامنے بے بس ہوگیا ۔
جس طرح اللہ کی سرکشی پر آمادہ فرعون اور نمرودکو اقتدار حاصل ہوا،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنے نیکوکار بندوں کو بھی حکومت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف،حضرت طالوت ، حضرت ذوالقرنین ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان علیہھم السلام کو خلافت ارضی عطا فرمائی ۔اسی طرح اُمت محمدیہﷺ میں سے بھی حضرت ابو بکر ،حضرت عمر ،حضرت عثمان ،حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضوان اللہ اجمعین کو زمین کا اقتدار عطا فرمایا ۔اللہ تعالیٰ کے اِن تابعدار انبیاء اور صلحاء نے زمین پر عدل و انصاف سے حکومت کی اور اہلِ دانش کے لیے یہ سبق چھوڑکر رخصت ہوئے کہ اقتدار اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اوراس امانت کو نبھانے والے لوگ دنیا میں بھی سرفراز ہوں گے اورآخرت کی سر بلندی بھی انہی کا مقدر ٹھہر ے گی ۔
اقتدارکی طرح مال کے بارے میں بھی انسانوں کا یہ گمان ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اوراللہ تعالیٰ اسی کو مال سے نوازتا ہے جس سے وہ راضی ہوتا ہے حالانکہ کئی مرتبہ یہ مال اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتا ہے اور اس کو ہمہ وقت جمع کرنے والے وہ لوگ جو اس میں سے اپنے پروردگار کے حق کو ادا نہیں کرتے ،یہی مال ان کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ القصص میں قارون کا واقعہ بیان کیا کہ اس کے خزانے کی فراوانی کا عالم یہ تھا کہ اس کے خزانے کی چابیوں کو اُٹھانے کے لیے طاقتور انسانوں کی ایک جماعت کی ضرورت ہوتی تھی۔ اس مال کو دیکھ کرکئی انسانوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور وہ بھی خواہش کرنے لگے کہ کاش ان کو بھی قارون کی طرح مال و اسباب مل جائے۔ ان کی اصلاح کرنے کے لیے اس وقت کے صاحب بصیرت علماء نے ان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آخرت کا اجرو ثواب اس ناجائز مال سے بہت بہتر ہے ۔ان علماء نے قارون کو بھی نصیحت کی کہ اس کو اس مال میں سے اللہ کے حق کو ادا کرنا چاہیے۔ قارون نے تکبر اور حقارت سے ان علماء کی نصیحت کو ٹھکر دیا اورکہنے لگاکہ میں نے جو کچھ بھی کمایا ہے اپنے علم کے ذریعے کمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کے مال سے مرعوب ہونے والوں کی کج فہمی کو واضح فرمانے کے لیے قارون کو اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ قارون کے اس انجام کو دیکھ کر دنیا پرست بھی اللہ سے پناہ مانگنے لگے اور اس حقیقت کا بر سرعام اظہار کرنے لگے کہ اگر ہم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا تو ہم بھی اپنی غلط آرزوؤں کی وجہ سے زمین میںدھنس سکتے تھے ۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مال عطا فرمایا جنہوں نے اپنے مال کے ساتھ غریبوں، یتیموںاور ناداروں کی مدد کی اور فرمان نبوت ﷺ پر لبیک کہتے ہوئے جنت کے خریدار بن گئے ۔
اسی طرح ہامان بہت بڑا عہدیدار جبکہ شداد بہت بڑا جاگیر دار تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کا غضب اور اس کی پکڑآئی تو ہامان کا منصب اور شداد کی جاگیران کے کسی کام نہ آسکی۔ ابو لہب حضرت رسول اللہ ﷺ کا سگا چچا تھا، اپنے حسن و جمال اور خاندانی وجاہت کے باوجود ذلت کے گڑھے میں گرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے قرآن مجید میںایک مستقل سورت اس کے بارے میں نازل فرمائی تاکہ قرآن کا ہر قاری ابو لہب سے برأت کا اظہارکرے اوراس کی بداعمالیوں پراس کی مذمت کرے ۔
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشی تھے، غلام تھے ،مفلوک الحال تھے ، لیکن انہوں نے سرمایہ داروں اور چوہدریوں کے مقابلے پر درست راست اختیار کر لیا ۔ نبی کریم ﷺ نے معراج کے سفرسے واپسی پر بتلایا کہ انہوں نے آسمانوں کی سیر کے دوران وہاں پران کے جوتوں کی آہٹ کو سنا ہے ۔
کاش دنیا داری اور خواہشات کا اسیر انسان ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھنے کی بجائے حلال و حرام ، جائز و ناجائز ،صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل ہو جائے۔ اگر انسان اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے کے قابل ہو جائے تو وہ کبھی بھی کسی دوسرے انسان کی حق تلفی نہیں کر سکتا۔معاشرے میں جرائم کی روک تھام کے لیے جہاں جر م و سزا کا مضبوط نظام ضروری ہے، وہیں پر انسانوں کی عقل اور آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کو اُتار کراسے اشیاء کی حقیقت سے بھی آگاہ کرنا ہوگا ۔