"AIZ" (space) message & send to 7575

بچوں کا تحفظ

''لاہور کالج یونیورسٹی آف ویمن‘‘ لاہورکی ایک معروف درسگاہ ہے ،جس میں ضلع بھر سے طالبات گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ لیتی ہیں ۔اس یونیورسٹی میں گاہے گاہے مختلف موضوعات پرسیمینار کا انعقاد کیا جاتاہے جن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات خطاب کے لیے آتی ہیں ۔12مئی کو اسی یونیورسٹی میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے موضوع پر سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی طالبات نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں صوبائی سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل،ڈپٹی ڈائریکٹر اور پنجاب یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر کے علاوہ مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی ۔سیمینار کا باقاعدہ آغاز 11بجے تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ تلاوت کے بعد تمام مقررین نے موضوع پر اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی۔ اس موقع پر میں نے یونیورسٹی کی فیکلٹی اور طالبات کے سامنے جن گزارشات کو رکھا ،انہیں میں نذر قارئین کر ناچاہتا ہوں ۔
بچے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا اور ہر گھر کی رونق ہیں ۔بچوں کی اخلاقی تربیت کرنا اور ان کی روحانی اور جسمانی صحت کا بندوبست کرنا والدین ،اساتذہ اور معاشرے کی ذمہ داری ہے ۔بچوں کے لیے معاشرے میں ایساماحول تیار کرنا جس میںانہیں منفی اثرات سے بچایا جا سکے، انتہائی ضروری ہے ۔بچے قوم کا مستقبل ہیں ، اگر وہ کسی انہونے حادثے کا شکار ہوجائیں تو ان کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جوان کی مستقبل کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں۔اگر بچے صحت مند ماحول میں پرورش پائیں تو ان کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیںاور وہ ملک و ملت کی تعمیرمیں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔حالیہ سالوں میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی متعدد وجوہ ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں ۔
1۔بڑے پیمانے پر فحش مواد کا پھیلاؤ: حالیہ سالوں میں معاشرے میں بڑے پیمانے پر فحش مواد کا پھیلاؤ ہوا ہے اور یہ مواد سی ڈیز ،انٹر نیٹ اورکیبل نیٹ ورکس کے ذریعے پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے ۔جب نوجوان اس قسم کے مواد کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں تو ان میں جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔نوجوانوں کے لیے صحت مند تفریحی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیںاور وہ اپنی توانائیوں کو میدانی کھیلوں میں استعمال کرنے کی بجائے میڈیاکے غلط استعمال پر صرف کر رہے ہیں جس سے وہ بڑی تیزی کے ساتھ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں ۔ بے قابو خواہشات کااظہار زنا بالجبر اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ برائی کا مرتکب شخص اس کے دوبارہ ارتکاب میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بے باک ہو جاتاہے اور رفتہ رفتہ ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتا ہے ۔
2۔بری صحبت : اچھے افراد کے مشاغل مثبت جبکہ برے افرادکے مشاغل منفی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔بری صحبت انسان کی تباہی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے ۔برے افراد کی صحبت میں بیٹھنے والے بہت سے افراد منشیات ،جوئے اور بد کرداری کے عادی ہوجاتے ہیں۔ برے دوست انسان کی برے کاموں میں معاونت اور حوصلہ افزائی کرکے اس کے ضمیر کی آواز کو دبانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔کم عمری میں چونکہ شعور نا پختہ ہوتا ہے اس لیے صحیح دوستوں کے چناؤ میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوںکی صحبت پر نظر رکھیں اور اگر ان کے تعلقات کسی منفی کردار والے بچے یا نوجوان سے ہو جائیں تو ان کا فی الفور احتساب کر کے ان کو بھٹکنے سے بچائیں ۔
3۔والدین اور بچوں کے درمیان فاصلہ : والدین کو اپنے بچوں کوزیادہ فاصلے پر نہیں رکھنا چاہیے۔ ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کاخودبھی حصہ بننا چاہیے ۔ان کے روزمرہ کے معمولات کے بارے میں معلومات رکھنی چاہییں۔ جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کے بدلتے ہوئے رجحانات سے بروقت آگاہ ہو جاتے ہیں اور کسی بھی منفی تبدیلی پر بروقت قابو پا سکتے ہیں۔ والد کی اپنے بچے اور والدہ کی اپنی بچی سے دوستی ان کی شخصیت کی نشوونما اور پختگی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔دورحاضر میں معیشت کی گاڑی کو چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ضروریات زندگی کو پورا کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں ۔ان حالات میں کئی گھروں کے معاملات کو درست رکھنے کے لیے شوہر اور بیوی کو بیک وقت محنت کرنا پڑتی ہے ۔معاشی ذمہ داریوں کی وجہ سے کئی مرتبہ والدین اپنے بچوں کے مشاغل سے غافل ہو جاتے ہیں اور اسی دوران اولاد بھٹک جاتی ہے ۔ والدین کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے پر نسبتاً کم اور اولاد کی تربیت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اگر اولاد کی تربیت درست ہوگئی تو معیار زندگی پر کیے گئے سمجھوتے کا وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود ازالہ ہو جائے گا ۔دور حاضر کے بہت سے والدین اور ان کی اولادوں کے درمیان ایک'' جنریشن گیپ‘‘ پایا جاتاہے ۔ بعض ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے والدین جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے بے بہرہ ہیں ۔وہ کمپیوٹر پر مشغول بچوں کو تعلیمی معاملات میں مصروف سمجھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ حقیقت میں ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا جارہا ہوتا ہے۔والدین کو بچوں کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے اور ان کے کمپیوٹر اور موبائل فون کے استعمال کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ ان کو بے راہ روی سے بچایا جا سکے ۔ 
4۔دینی تعلیمات سے دوری :ہمارا معاشرہ بتدریج دینی تعلیمات سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔قرآن مجید میں ظاہری اور پوشیدہ گناہوں اور برائیوں کی بھر پورطریقے سے مذمت کی گئی ہے۔بدکرداری اور منکرات کو اخروی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا کی تباہی اور بربادی کا بڑا سبب قرار دیاگیا ہے ۔چونکہ ہمارے سماج میں قرآن مجید کو سمجھنے کا شوق اور جستجونہیں ہے اس لیے برائی کے کاموں کے نقصانات کے بار ے میں بھی شعور اور آگاہی کی سطح انتہائی پست ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جہاں سورہ بنی اسرائیل میں زناکے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے ،وہیں پر اللہ تعالیٰ نے جنسی بے راہ روی کا شکار قوم سدوم کا ذکر بھی قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔اس قوم کے لوگ جنسی طور پر عورتوں کی بجائے مردوں کی طرف مائل تھے ۔اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی حضرت لوط ؑ ان کو صحیح راستے پر آنے کی دعوت دیتے رہے لیکن ان ظالموں نے حضرت لوط ؑ کی دعوت کو ٹھکرا دیا ۔حضرت لوط ؑ اصلاح کی شرط پر قوم کے لوگوں کے ساتھ اپنی بیٹیاں بیاہنے پربھی آمادہ ہو گئے لیکن ان بدبختوں نے اپنے رسول کی دعوت کو قبول نہ کیا ۔اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو بلندی پر اُٹھا کر پستی کی طرف پٹخ دیا اور اس قوم کے ہر بدکارشخص کو نشانہ باندھ باندھ کرپتھروں سے کچل ڈالا ۔قوم لوطؑ کا واقع آنے والی قوموں کے لیے باعث عبرت ہے ۔اس درس عبرت کو حاصل کرنے کے لیے قرآن وسنت سے وابستگی انتہائی ضروری ہے ۔یہ المیہ کا مقام ہے کہ آج عصری تعلیم و ترقی کا جذبہ رکھنے والی قوم اس نسخہ کیمیا سے غافل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوںکی فلاح و نجات کے لیے نازل فرمایا تھا۔
5۔نکاح میں غیرضروری تاخیر :اسلام میں ہر عاقل و بالغ شخص کو جلد ازجلد نکاح کی ترغیب دی گئی ہے ۔دور حاضر میں کچھ لوگ جہیز کی مجبوری اور کچھ لوگ لاپروائی کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنی اولاد کے نکاح میں تاخیر کرتے رہتے ہیں۔ اولاد اور والدین کے درمیان فطری طور پرحجاب ہوتا ہے جس کی وجہ سے اولاد کھل کر اپنی خواہشات کا اپنے والدین سے اظہار نہیں کر پاتی۔اگر اشارو ں کنایوںمیں کسی وقت اظہار کیا بھی جائے تو والدین اس کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔اس رویے کی وجہ سے معاشر ے میںناجائز تعلقات اور جنسی بے راہ روی کے دروازے کھلتے ہیں۔ بد اخلاقی کی روک تھا م کے لیے والدین کو بلوغت کے بعد جلد ازجلد اپنی اولاد کے نکاح کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ان کو صاف ستھری زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جا سکیں ۔
6۔جرم و سزا کا کمزور نظام : جرم و سزا کے کمزور نظا م کی وجہ سے بھی معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایک مجرم کو کھلے عام پھرتا دیکھ کر دوسرے مجرم حوصلہ پکڑتے ہیں ۔ حکمرانوں کے بلندبانگ دعوؤں کے باوجود بھی عام طور پر جنسی جرائم میںملوث افراد قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں ۔ اگرمعاشرے میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کو شرعی تقاضوں کے مطابق کڑی سزائیں دی جائیں تو بیمار ذہنیت کے بہت سے لوگ اس قسم کے جرائم کے ارتکاب سے باز آسکتے ہیں ۔ 
ان تما م تجاویز پر عمل پیرائی کو یقینی بنانے میں تعلیم یافتہ طبقہ ، اساتذہ اور طلبہ نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔یونیورسٹی اورکالجزکے فیکلٹی ممبران اور طالب علموں کو معاشرے کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے اپناکردار موثر طریقے سے ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں جنسی جرائم کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں