اسلام اللہ تعالیٰ کا چنا ہوا دین ہے اورسورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 85میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ جو شخص غیر اسلام کو دین کے طور پر قبول کرے گا ،اس کا دین قبول نہ ہو گا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں شامل ہو گا ۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر208 میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو دین میں پوری طرح داخل ہونے کا حکم دیا ہے ۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں معیشت ، معاشرت ،تہذیب ،تمدن اور ریاست سے متعلقہ جملہ معاملات شامل ہیں ۔ اسلامی تعلیمات اہل اسلام کو جبر سے روکتی ہیں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے عقائد پر رہنے کی اجازت دیتی ہیں۔کسی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں کہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروںکے ساتھ زیادتی کرے ،ان کی عبادت گاہوں یا شعائر کی توہین کرے یاان کو جبراًمسلمان بنانے کی کوشش کرے۔اسلام مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروںکے ساتھ حسن سلوک کا درس دیتا ہے لیکن ان تمام حقائق کے ساتھ ساتھ اسلام کا اپنا نظام حدود وتعزیرات بھی ہے ۔ان حدود اور تعزیرات کا مقصد معاشرے میں امن وامان کو برقراررکھنا اور جرائم پیشہ اور فسادی عناصر کی بیخ کنی کرنا ہے ۔
اسلام جہاں مجرموں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ،،وہیں اسلام میں توبہ کا تصور بھی موجود ہے ۔چنانچہ اگر کوئی زانی ،شرابی اور چور قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے پہلے توبہ تائب ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں ۔سورہ فرقان میں اللہ تعالیٰ نے مشرک ،قاتل اور زانی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو نیکیوں کے ساتھ تبدیل کردے گا۔ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺنے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کا ذکر کرتے ہوئے 99آدمیوںکے قاتل کا ذکر کیا جواللہ تعالیٰ کی رحمت کا طلبگار تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اس کی خطاؤںکو معاف کر دیا ۔اسی طرح نبی کریم ﷺ نے سابق اقوام میں سے ایک بڑے گناہگارکفل کاذکر کیا، جس نے اپنی زندگی میں بہت سے کبیرہ گناہوںکا ارتکاب کیا تھا۔ ان گناہوں کے ارتکاب کے بعدجب وہ سچے دل سے نادم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کو قبول فرمالیا ۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت بے پایاں ایک اٹل حقیقت ہے لیکن جب کوئی مجرم کسی ایسے جرم کااعلانیہ ارتکاب کرتا ہے جس پر کوئی شرعی حدیا تعزیر واجب ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں مجرم کے لیے صرف توبہ کافی نہیں رہتی بلکہ اس کو اپنے جرم کی سزاکا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جرائم کے منظر عام پر نہ آنے کی صورت میں معاملہ بندے اور پروردگار کے درمیان ہوتا ہے مگر ان کے منظرعام پر آجانے کے بعد ان کا فیصلہ کرنا عدالتوںکی ذمہ داری ہوتی ہے اور کئی مرتبہ عدالتیں اس معاملے کو جانچ لینے کے بعد بھی کہ مجرم اپنے کیے پر شرمندہ ہے ،اس کی سزامیں تخفیف نہیں کر سکتیں۔ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میںبھی اس طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا کہ شبیبہ غامدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نامی ایک عورت نے برائی کاارتکاب کیا۔ اس جرم کے ارتکاب کے بعدوہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوئی۔نبی کریم ﷺ نے اُس کو اس وقت تک انتظارکرنے کا حکم دیا جب تک حمل واضح نہ ہو جائے۔کچھ دن کے بعد وہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اوراپنے حاملہ ہونے کا ذکر کیا ۔ نبی کریم ﷺنے اسے وضع حمل تک انتظار کرنے کا حکم دیا ۔جب بچہ پیدا ہو گیا تو آپ ﷺنے اُس کو پھر پلٹا دیااور فرمایا کہ اس وقت آنا جب بچہ ٹھوس غذا کھانے کے قابل ہو جائے۔ کچھ مہینے کے بعد دوبارہ حاضر ہوئی اور اپنی پاکیزگی اور طہارت کے لیے سزا کی طلبگار ہوئی۔ اس مخلص اور شرمندہ عورت پر نبی کریم ﷺ نے صرف اس لیے حد قائم کرنے کا حکم دیاکہ معاملہ عدالت تک آچکا تھا۔جس وقت اس عورت پر حد قائم کئی گئی تو خون کے چھینٹے ایک صحابی کے کپڑوں پر گرے جس پر انہوں نے عورت کی بدکاری کی وجہ سے کراہت کا اظہار کیا ۔نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر ارشادفرمایا کہ اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے 70گناہگاروں میں تقسیم کر دی جائے تو اللہ تعالیٰ سب کی خطاؤںکو معاف کر دے ۔ اس سچی توبہ کے باوجود بھی چونکہ معاملہ ریاستی اور عدالتی نوعیت کا تھا ،عورت حد سے نہ بچ سکی ۔
یہی معاملہ اسلامی سزاؤں میں سے توہین رسالت ﷺ، آپ ؐ کے اہلِ بیت ؓ ، امہات المومنین ؓاور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی گستاخی کا ہے۔ اسلام میں توہین رسالت کی سزا موت ہے اور اس کا تعین مختلف احادیث اور واقعات سے ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں محمد بن مسلمہ ؓنے گستاخ رسول کعب ابن اشرف کو قتل کیا ، عبداللہ ابن عتیکؓنے ابو رافع یہودی کو قتل کیا اورعمیر ابن عدی ؓ نے اسماء بن مروان نامی گستاخ رسول کو قتل کیا۔اسی طرح ایک نابینا صحابی نے اپنی لونڈی کو قتل کیا جو نبی کریم ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کیا کرتی تھی ۔اسی مسئلے پر امام ابن تیمیہ ؒ نے '' الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘کے عنوان سے مفصل اور مبسوط کتاب لکھی ،جس میں آپ ؒنے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی توہین کا ارتکاب کرنے والا شخص خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ،خواہ توبہ کرے یا نہ کرے اس کو اسلامی ریاست میںسزائے موت دی جائے گی۔ اگر اس مسئلے پر مسلمان نرمی یا سمجھوتے کا رویہ اختیار کریں گے تو بہت سے شر پسند اور منفی عناصر نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں ناپاک گستاخی کا ارتکاب کرنے کی کوشش کریںگے ۔بدقسمتی سے عصرِ حاضر میں اظہار ِ رائے کے نام پر مغربی ممالک میں بڑے پیمانے پر نبی کریم ﷺ کی حرمت پر ناپاک حملہ کرنے کی قبیح جسارت کرکے مسلمانوں کی غیرت ایمانی پر حملہ کیا گیا۔یہ مقام فکر ہے کہ اہلِ مغرب توہین عدالت اور ہتک عزت جیسے قوانین کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی عزت وناموس کے حوالے سے قانون سازی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ایک فرد اور ادارے کی توہین پر تو قانون حرکت میں آتا ہے لیکن ایک ارب سے زیادہ انسانوں کے مقتداء کی عزت و ناموس کے خلاف کی جانے والی سازشوں پر عالمی ضمیربے حس و حرکت رہتا ہے ۔
امہات المومنینؓ ، اہل بیت عظامؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی نسبت بھی نبی کریم ﷺ کی ذات والاصفات کے ساتھ ہے ۔ اس لیے ہر مسلمان ان کی عقیدت کا دم بھرتا ہے اور ان سے نسبت کا اظہار کرتا ہے۔ ان نفوس قدسیہ کا احترام کرنا ہر حالت میں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔اگر کوئی شخص ان کی حرمت کا پاس نہیں کرتا تو اس کو بھی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے ۔یہ بنیادی طور پر تعزیری جرم ہے ۔امام مالک ؒ نے نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی سزا قتل اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی گستاخی کرنے والے کی سزا کوڑے بیان کی ہے۔
آئین پاکستان کی دفع 295۔سی کا تعلق حرمت رسول ﷺ کے ساتھ ہے اور اس کے مطابق جو شخص بھی آپ ﷺ کی گستاخی کا مرتکب ہو گا ،اس کو سزائے موت دی جائے گی اسی طرح دفع 298۔اے کے مطابق کوئی بھی شخص اگر امہات المومنینؓ، اہل بیت عظامؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتاہے تو اس کو 3سال قید کی سزا دی جائے گی ۔ ایسا شخص صرف توبہ یا ندامت کے ذریعے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا بلکہ اس کو اعلانیہ گستاخی کی وجہ سے سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس معاملے میں ملوث کوئی شخص یاادارہ اس وجہ سے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا کہ کسی دوسرے شخص یا ادارے نے بھی یہ کام کیا ۔جتنے ادارے یا افراد اس کام میں ملوث ہوں سبھی کا احتساب ہونا چاہیے اور اسلام اورآئین کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سب کو سزا ملنی چاہیے ۔
اب وقت آچکا ہے کہ حریت فکر ،آزادی اور اظہار کی حدود کا تعین کیا جائے۔ اس مسئلے میں کی جانے والی کوئی بھی کوتاہی نہ صرف یہ کہ ہمارے ایمان کی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میںمعاشرے میں اشتعال انگیزی کو بھی ہوا مل سکتی ہے ۔ یہاں اس بات کو بھی بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوںکہ عوام الناس کو ان معاملات پر صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور معاملات کو حل کرنے کے لیے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے عدالتی ذرائع کواستعمال کرنا چاہیے،تاکہ معاشرے کو انارکی اور تشدد سے بچایا جا سکے ۔