ہر سال 28مئی کو چاغی میں کیے گئے ایٹمی دھماکوں کی یاد میں ملک بھر میں ''یوم تکبیر‘‘ منایا جاتا ہے اور تقریبات، جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے یہ ایٹمی دھماکے اس وقت کیے جب اٹل بہاری واجپائی نے اپنی انتخابی مہم میں برملا اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بر سر اقتدار آنے کے بعد اکھنڈ بھارت بنانے کے لیے ہر حربہ اختیار کریں گے اور اپنے '' شریرپڑوسی‘‘ پر ایٹم بم بھی گرانا پڑا تو بھی گریز نہیں کریں گے۔ انتخابی مہم میں جارحانہ عزائم کا اظہار کرنا ایک عام بات ہے۔ ان جذباتی نعروں کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوتاکہ عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنی فتح کو یقینی بنایا جائے مگر واجپائی نے بر سر اقتدار آنے کے بعدبھی اپنے جارحانہ عزائم کا بھر پور طریقے سے اظہار کیا اور 11مئی 1998ء کو تین اور 13مئی کو مزید دودھماکے کر کے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم کو کسی بھی وقت عملی جامہ پہنا سکتاہے ۔ اٹل بہاری واجپائی کی یہ جارحیت پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ پوری قوم کی یہ تمنا تھی کہ بھارتی جارحیت کا بھر پور طریقے سے جواب دیا جائے۔ چنانچہ پاکستانی سائنسدانوں نے عسکری اور سیاسی قیادت کے فیصلے پر چاغی کے مقام پر 28 مئی 1998ء کو پانچ اور 30مئی کو چھٹا ایٹمی دھماکہ کر کے بھارت کی جارحیت کا بھر پور انداز میں جواب دیا۔پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے خطے میں طاقت کا بگڑتا ہوا توازن بحال ہو گیا اور پاکستان کی دفاعی قوت میں بیش بہا اضافہ ہوا۔
پاک بھارت تعلقات کی تقریباً 67سالہ تاریخ مجموعی اعتبار سے ناخوشگوار یادوںکا ایک تسلسل ہے اور قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود بنیادی تنارعات حل نہیں ہو سکے۔ پاکستان اور بھارت کا سب سے بڑا اور بنیادی تنارع مسئلہ کشمیر ہے جسے حل کرنے کے لیے مختلف پاکستانی حکومتوں
نے اپنے اپنے انداز میں کوشش کی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسئلے کی اہمیت اور سنگینی کے لحاظ سے تاحال کوئی سنجیدہ ، ٹھوس اور مستقل کوشش نہیں کی جاسکی ۔ حکمران طبقے کی اکثریت ہر برس 5فروری کو عوامی جذبات کو بھانپتے ہوئے بیان بازی پر اکتفا کرکے مسئلہ کشمیر کو بھلا دیتی ہے ۔ کشمیر ی عوام بھارت کے پنجہ ستم سے نجات حاصل کرنے کے لیے مسلسل قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہاہے اور نوجوان لڑکیوں کی عصمت دری کی جارہی ہے۔ وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہوجس کوکسی نہ کسی اعتبار سے بھارتی فوج کے تشدد کا نشانہ نہ بننا پڑا ہو ۔ اس سارے ظلم و تشدد کے باوجود کشمیر میں آزادی کی شمع جل رہی ہے اور اہل کشمیر کا پاکستان سے وابستگی کا عالم یہ ہے کہ جب بھی کبھی بھارت اور پاکستان کھیل کے میدان میں ہوتے ہیں، وادی کشمیرکے نوجوان پاکستان کی حمایت میں کھلے عام اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہ دوسری نسل ہے جو کہ جوانی کے بعد ادھیڑ عمر میں داخل ہو چکی ہے۔ اتنا لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اہل کشمیر کے دل سے پاکستان کی محبت نہیں نکل سکی ۔ اہل کشمیر کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے بھارت کی سیاسی قیادت سے ان کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق ان کے مستقبل کا فیصلہ کروانے کی کوشش کرنا پاکستان کی سیاسی قیادت کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔اہل کشمیرکی قربانیوں کو فراموش کرکے اگر پاک بھارت تعلقات مستحکم ہوتے ہیں تو یہ ہزاروں شہیدوں کے لہو سے غداری کے مترادف ہوگا۔
پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک ناخوشگوار اورتلخ سانحہ پاکستان کے مشرقی بازو کا کٹ جانا ہے۔ اہل بنگال نے بھی پاکستان کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی طرح قیام پاکستان کے لیے بڑی قربانیاں دی تھیںلیکن حقوق کی جنگ کی وجہ سے اہل بنگال مغربی پاکستان کے رہنماؤں سے بد گمان تھے ۔1970ء کے نتائج کو کھلے دل سے تسلیم نہ کرنا مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کی بہت بڑی غلطی تھی ۔ بنگالیوںکو بدگمان کرنے میں ہندواساتذہ نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ پاکستان کے داخلی اور سیاسی تنازعے کو بھارت نے اپنی فوجی مہم جوئی کے ذریعے مزید ہوا دی ۔افواج پاکستان نے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن بدگمان بنگالیوں اور بھارتی سازشیوں کاقلع قمع نہ ہو سکااور سقوط ڈھاکہ کا المناک سانحہ پیش آگیا ۔گو اس سانحے کو بیتے ہوئے 42برس کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن تاحال پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات معمول پر نہیں آسکے ۔حسینہ واجد نے حال ہی میں اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے حامی مسلمان رہنماؤںکو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کیا اور جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما ملا عبدالقادر کو انتہائی سفاکی اور بے دردی کے ساتھ پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا ۔ اس سارے معاملے میں بھی بھارت نے بنگلہ دیش کے پشت پناہ کا کردار ادا کیا اورپاکستانیوں کے جذبات کو بری طرح ٹھیس پہنچائی۔
بھارت ایک عرصے سے بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں منفی پراپیگنڈا کر کے پاکستان کو ایک غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کر رہا ہے اور اس طریقے سے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ختم کرنے کے در پے ہے ۔ عالمی طاقتیں بھی بھارت کے منفی پراپیگنڈے کا شکار ہو کر کئی مرتبہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے درپے ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کو اس حوالے سے بھی بھارت سے معاملات کو طے کرنا ہوگا کہ ایٹمی توانائی کے حوالے سے دونوں ملکوں کا ایک ہی سٹیٹس رہے گا۔ ایٹمی بھارت کی موجودگی میںکوئی بھی ایسا قدم جس کے نتیجے میں پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت سے محروم ہو یا اس کی ایٹمی صلاحیت میں بھارت کے مقابلے میں کمی واقع ہو، پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے ۔
بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال کر رہاہے اور کراچی اور بلوچستان میںہونے والی دہشت گردی کی بہت سی کارروائیوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ ان حالات میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی حوصلہ شکنی کرے اورآئندہ کے لیے پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل ہونے سے اجتناب کرے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کا مسئلہ بھی ایک عرصے سے تنارع کا سبب بنا ہوا ہے ۔دونوں ممالک کے درمیان 1960ء میں'' انڈس واٹرٹریٹی ‘‘ کے نام سے معاہدہ ہوا جس پر بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے اتفاق کیا کہ دونوں ممالک پانی کا بھرپور طریقے سے استعمال کریں گے اور اس قدرتی عطا پر ہرایک کے حق کو یکساں تسلیم کیا جائے گا ۔ یہ مقام افسوس ہے کہ بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک عرصے سے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہے جس پر گاہے گاہے ہماری حکومتیں اور پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں احتجاج بھی کرتی رہتی ہیں ۔ لیکن بھارت کسی بھی طرح مثبت پیشرفت پر آمادہ نہیں ہوتا ۔
26 مئی کو نریندرمودی نے بھارت کے پندرہویں وزیراعظم کے طور پر حلف اُٹھایا۔ وزیراعظم نواز شریف اس تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے اور خیر سگالی کے طور پر 151بھارتی قیدی بھی رہا کر دیے۔27مئی کو میاں محمد نواز شریف کی مودی کے ساتھ ون ٹوون ملاقات ہوئی اور بہت سے امور زیر بحث آئے ۔وزیراعظم پاکستان نے توبھارت کے منفی رویوں کو نظر اندازکرتے ہوئے مصالحت کے لیے بھر پور جذبات کا اظہار کر دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کو مسلم دشمنی کی بنیاد پر چلایا اور ان کے برسر اقتدار آتے ہی گجرات اور دیگر شہروں میں مسلمانوں کی جان و آبرو کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں‘ پاکستان کے بارے میں کن عزائم کا اظہار کرتے ہیں ۔