31مارچ کو روزنامہ ''دنیا ‘‘میں ایک روح فرسا خبر شائع ہوئی جس پر میں نے کالم بھی لکھا تھا۔ یاد دہانی کے لیے اس واقعے کو دوبارہ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں ۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ گوجرانوالہ کے ایک شخص نے چند برس قبل لاہور کی ایک خاتون سے شادی کی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد خاتون کو شک ہوا کہ اس کا شوہر اس کی چھوٹی بہن کے ساتھ ناجائز تعلقات استوار کر چکا ہے۔ خاتون نے معاملے سے والدین کو آگاہ کیا۔انہوں نے چھوٹی بیٹی کو سمجھایا‘ڈانٹ ڈپٹ بھی کی لیکن وہ بغاوت پر اتر آئی اور گھر سے بھاگ کر بہنوئی کے پاس چلی گئی۔ بجائے اس کے کہ بہنوئی اپنی سالی کو اس کے والدین کے گھر واپس بھیجتا‘ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے کر سسرال روانہ کر دیا ۔ستم بالائے ستم کہ عدت کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی بدچلن داماد نے دوسری بیٹی سے شادی کر لی۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد والد نے داماد کے خلاف زنا کا پرچہ درج کروایا جس پر پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا۔ اسی اثناء میں اپنی بہن کا گھر اجاڑ کر اپنے بہنوئی سے شادی کرنے والی لڑکی سیشن کورٹ میں بیان دینے کے لیے پہنچ گئی کہ اس نے اپنی رضامندی کے ساتھ اپنے بہنوئی سے شادی کی ہے۔سیشن کورٹ کے احاطے میں ہی لڑکی کے بھائی نے غصے میں آکر اپنی بہن پر گولیا ں چلا دیں اور موقع سے فرار ہو گیا ۔
27مئی 2014ء کو ایک مرتبہ پھر ایک المناک سانحہ رونما ہو ا جس میں پسند کی شادی کرنے والی 25سالہ حاملہ لڑکی کو مزنگ کے علاقے میں ہائیکورٹ کے مرکزی دروازے کے سامنے اس کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے اینٹیں مار مار کے قتل کر دیا۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی مقتولہ اپنے شوہر کے خلاف درج اپنے اغوا کا مقدمہ خارج کروانے ہائیکورٹ آئی تھی۔ گیٹ کے باہر اس کے بھائی گھات لگا کر کھڑے تھے جنہوں نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اس پر اینٹوں کی بارش کر دی جس سے مقتولہ کا سر کچلا گیا اور وہ موقع پر دم توڑ گئی۔واقعہ کی کچھ مزید تفصیلات 31مئی کے اخبارات میں شائع ہوئیں ۔دنیا اخبار نے جو رپورٹ شائع کی ہے‘ اس کے مطابق اقبال نے فرزانہ کے ساتھ جنوری میں شادی کی جبکہ فرزانہ کے گھر والے اس کی شادی اس کے کزن کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ کچی اینٹوں سے بنے ہوئے گھر کے رہائشی اقبال نے بتایا کہ فرزانہ کے والد اور اس کی زمینیںساتھ ساتھ تھیں۔ جب فرزانہ اپنی زمینوں پر آتی تو وہ اس کو دیکھتا رہتا۔اس نے فرزانہ کے گھر والوں سے اس کا ہاتھ مانگاتو انہوں نے اس کے ساتھ رشتہ کرنے سے انکار کر دیا۔اقبال نے اس موقع پر یہ بھی اعتراف کیا کہ 2009ء میں اس نے فرزانہ کے لیے اپنی پہلی بیوی کو قتل کر دیا تھا۔ اقبال نے بتایاکہ وہ فرزانہ سے ملتا تھا، تو جب اس کی بیوی کو اس بات کا علم ہوا تو اس کے راستے میں کھڑی ہوگئی۔اقبال نے غصے میں آکر اس کی گردن دبوچ لی اور اس کو زور دار دھکا دیا جس پر وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔اقبال پر قتل کا مقدمہ بن گیا جو 4سال تک چلتا رہا۔ پھر اقبال کے بیٹوں نے اسے معاف کر دیا۔مقدمے سے فارغ ہوتے ہی دوبارہ اقبال اور فرزانہ نے شادی کا ارادہ کیا۔ بھائیوں کورنج تھا کہ ان کی بہن ایک قاتل اور بدنام سے شادی کرنے پر کیوں تل چکی ہے ۔انہوں نے اپنی بہن کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔غصے اور اشتعال کا اظہار کچھ اس طرح ہوا کہ انہوں نے ہائیکورٹ کے گیٹ کے سامنے ہی اپنی بہن کو قتل کر دیا ۔اس واقعہ کا نوٹس چیف جسٹس ،وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ لے چکے ہیں ۔
سماجی اور مذہبی سطح پر ہمیشہ غیرت کے نام پر قتل کی مذمت کی جاتی ہے لیکن جب تک ان اسباب کا جائزہ نہیں لیا جائے گا جو غیرت کے نام پر قتل پر منتج ہوتے ہیں‘ اس قسم کے قتل کی روک تھا م کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ غیرت کے نام پر قتل کا بڑا سبب خاندان کی کسی عورت کا غیر مرد سے تعلقات استوار کرنا یا ناجائز تعلق کا شبہ ہو تا ہے جو کئی مرتبہ لڑکی کے محرم رشتہ داروں کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے ۔اس جذباتی کیفیت پر قابو پانا گو ہر ذی شعور شخص کے لیے ضروری ہے لیکن بہت سے لوگ معاشرے میں اپنی عزت کو داؤ پر لگتے ہو ئے دیکھ کر اپنی اس نفسیاتی کیفیت پر قابو پانے سے قاصر ہو جاتے ہیں ۔اگر قبل ازوقت بعض احتیاطی تدابیر پر عمل کر لیا جائے تو اس قسم کی کیفیت سے دو چار ہونے کے امکانات بہت کم اور بعض صورتوں میں نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں ۔
پہلی احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ عورتوں کے والدین اور سرپرستوں کو چاہیے کہ عورت کے معقول پردے کا انتظام کریں ۔ اگر عورت باحجاب ہوگی تو اس کے غیر محرم مردوں سے شناسائی کے امکانات کم ہوں گے ۔عورت کے سرپرستوں کو بعض قریبی نامحرم رشتے داروں سے بھی عورت کی بے تکلفی کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اس لیے کہ یہ بے تکلفی کئی مرتبہ طرفین کو ناجائز تعلقات کی طرف لے جاتی اور کئی مرتبہ فتنے کا باعث بن جاتی ہے۔ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے بہت زیادہ لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں غیر اخلاقی رویے جنم لیتے ہیں اور کئی مرتبہ بلاجواز افواہوں اور تہمتوں کے دروازے کھلتے ہیں جس کی وجہ سے کئی مرتبہ اچھے خاصے شرفا ء کی شہرت اور وقار بھی مجروح ہو جاتاہے ۔
دوسری احتیاطی تدبیر یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے نکاح میں غیر ضروری تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ایک عاقل بالغ مرد اور عاقلہ بالغہ عورت کے نکاح کو خوامخواہ مؤخر کرتے رہنا کسی بھی طور پرعقلمندی نہیں ہے ۔بہت سے غیر ملکی رہنما اور ان کی نمائندہ این جی اوز مغربی روایات اور تہذیب کوہمارے معاشرے میں لاگو کرنا چاہتی ہیں۔ انہی مغربی روایات میں سے ایک نقصان دہ روایت شادی میں غیر ضروری تاخیر ہے ۔ اقوام متحدہ کے ایک نمائندے نے ماضی قریب میں وزیر اعظم سے ملاقات کی اور پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کی مذمت کی۔اگرچہ معاشرے میں جنسی بے راہ روی کی تمام تر ذمہ داری مغرب پر نہیں ڈالی جا سکتی تاہم اگر مغرب کی نصیحتوں پر عمل کرلیا گیا تو اس کا انجام بہت برا ہو گا۔
تیسری احتیاطی تدبیر کا تعلق ریا ست کے ساتھ ہے۔ اگر ریاست جنسی جرائم میں ملوث افرادکو قرار واقعی سزا دے تو معاشرہ خود بخود اخلاقی جرائم سے پاک ہو سکتا ہے ۔معاشرے میں کئی مرتبہ والد اور بھائی اس لیے بھی جذباتی ہو جاتے ہیں کہ وہ جرم وسزا کے نظام سے بدگمان ہو تے ہیں ۔اگر والدین کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ ان کی بہن یا بیٹی کی بدچلنی پر قانون حرکت میں آئے گا اور ان کے جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس کا ازالہ ہو گا تو بہت سے لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے باز آسکتے ہیں ۔
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سرپرستوں اور والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ۔ یہ بات درست ہے کہ لڑکی کی اجازت کے بغیر جبراً اس کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جاسکتا لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرامین اور آپ ﷺ کے قریبی رفقا ء کے طرز عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرون اولیٰ کی عورتوںکو ان کے والدین اور سرپرست ہی گھر سے الوداع کیا کرتے تھے۔ جو لڑکی بھاگ کر نکاح کرتی ہے اس کا مستقبل ہمیشہ کے لیے غیر محفوظ ہوجاتاہے ۔لڑکی کے لیے اپنے شوہر کی بدسلوکی او ر بے وفائی کا نشانہ بننے کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا جبکہ اس کے بالمقابل لڑکی اگر اپنے والدین کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرے تو ایسی صورت میں اگرلڑکا اس کے ساتھ بدسلوکی یابے وفائی والا معاملہ اختیار کرتاہے تو لڑکی کے لیے اپنے والدین کے گھر آنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔اس مسئلے کو فقہی اختلاف کے تناظر میں نہیں بلکہ لڑکیوں کے مستقبل کی حفاظت کے تناظر میں دیکھنا انتہائی ضروری ہے ۔ غیرت کے نام پر قتل کی بہت بڑی وجہ والدین اور سرپرستوں کی اجازت کے بغیر نکاح ہے۔ اگر لڑکی والدین کی رضامندی سے یا ان کو راضی کرکے نکاح کرے تو معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو سکتا ہے ۔