"AIZ" (space) message & send to 7575

سیاسی رسہ کشی اورعوامی تحفظات

مئی 2013ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے نمایاں کامیابی حاصل کی اور صوبہ پنجاب اور مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ۔پاکستان تحریک انصاف کی بھر پور انتخابی مہم اور چیئرمین تحریک انصاف کے دعووں کے باوجود تحریک انصاف اتنی نشستیں نہ جیت سکی جتنی اسے توقع تھی؛ تاہم تحریک انصاف صوبہ خیبر پختون خوا اور پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ۔
پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی نتائج پر شروع دن سے تحفظات کا اظہار کیا ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ ان کو جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت ہرایا گیا اور اس سلسلے میں عمران خان نے انتخابات کے فوراً بعد ہی جلسے‘ جلوسوںاور ریلیوں کا انعقاد کیا تھا ۔ بعدازاں عمران خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کر کے حکومت کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنالی۔عمران خان نے پارلیمنٹ سے خطاب میں واضح کیا کہ وہ ملکی ترقی اور قومی ہم آہنگی کے جذبے کے تحت حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بر سراقتدار آنے کے بعد مختلف شعبوں میں ترقی کرنے کی جستجو کی مگر بہت سے شعبوں میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی ۔بدامنی ، دہشت گردی ،مہنگائی ،اداروں کے درمیان ٹکراؤاور توانائی کے بحران کے معاملات جوں کے توں رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ملک میں جاری دہشت گردی کی روک تھام کے لیے طالبان سے مذاکرات کی کوششوں کا آغاز کیااور اس سلسلے میں کمیٹیاں بھی بنائیںلیکن یہ کمیٹیاں خاطرخواہ پیشرفت نہ کرسکیں اور مذاکراتی عمل بھی تعطل کیا شکار ہو گیا۔مولاناسمیع الحق کی جدوجہد بھی بارآور نہ ہو سکی۔ اس وقت اس حوالے سے ڈیڈ لاک کی سی صورتحال ہے۔
جرائم کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی واقع نہ ہو سکی اور صوبہ پنجاب کے ہر شہر میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہو تی رہیں ۔ صوبائی دارالحکومت اس حوالے سے خصوصی طور پران وارداتوں کی لپیٹ میں رہا اور لوگ روزانہ کروڑوں روپے کی نقدی اور سامان سے محروم ہو تے رہے۔ پولیس اور صوبائی حکومت کی کوششوں کے باوجود تاحال چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ لڑکیوں اور چھوٹی بچیوں کی آبروریزی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ۔ صوبہ پنجاب میں ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ تین سے زائد عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ان واقعات پر قابو پانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
نئی حکومت کے برسر اقتدارآنے کے بعدابتدائی دنوںمیں ڈالر کی قدر میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا رہا لیکن وزیر اعظم کے بیرونی دوروں اور ایک عرب ملک سے ملنے والی خطیر امداد کی وجہ سے ڈالر کی قدر میں استحکام پیدا ہو گیا۔ ایک موقع پر ڈالر کی قدر میں 90روپے سے بھی کم ہونے کے امکانات پیدا ہو چکے تھے لیکن وزیر اعظم نے خود وزیر خزانہ کو ہدایات جاری کیںکہ ڈالر کی قیمت کو 100روپے کے قریب ہی رہنے دیا جائے۔ وزیر اعظم روپے کی قدر کی بحالی اور زرمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ کرنے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن ملکی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے ۔ روپے کی قدر کے مستحکم ہونے کے باوجود مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکا ۔غریب آدمی کے لیے روزگارکے مواقع کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم نے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے یوتھ لون سکیم کا اجرابھی کیا لیکن یہ مہم بوجوہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ابتدائی طورپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سکیم کو سود سے پاک کیا جائے لیکن عملی طورپر صورتحال میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ آسکی۔
ملکی ترقی کے لیے اداروں کی ہم آہنگی انتہائی ضروری ہے لیکن جنرل (ر)پرویز مشرف کے احتساب کے حوالے سے حکومتی حلقے اعتدال پرکاربند نہ رہ سکے۔ اس عدالتی کیس کو سیاسی رنگ دینے کی وجہ سے نہ تو جنرل (ر)پرویز مشرف کا احتساب ہو سکابلکہ الٹا اداروں اور حکومت کے درمیان دوری پیدا ہو گئی۔ حکومت نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بعض شہروں میں اچھے منصوبوں کا آغاز کیا ہے اور بظاہر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں حکومت بجلی کے بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اگر حکومت توانائی کے بحران پر قابو پالیتی ہے تو یقینا مسلم لیگ (ن)کی ساکھ بہتر ہو گی ۔
بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے وزیراعظم نے بھر پور جستجو کی اور اس حوالے سے عوامی امنگوں کے برعکس بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔میاں محمد نواز شریف کے وزیراعظم بننے پر بھارت سے کوئی اعلیٰ سطحی وفد پاکستان نہ آیا لیکن نریندرمودی کے برسر اقتدار آنے پر وزیراعظم خود ان کی تقریب حلف برداری میں شمولیت کے لیے بھارت گئے۔ بجائے اس کے کہ وزیر اعظم بلوچستان اور کراچی میں جاری دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی رویے پر اعتراض کرتے‘ نریندرمودی نے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام عائد کر دیا ۔ ناقدین کے مطابق ہمارے وزیر اعظم بھارتی وزیر اعظم کے سامنے کشمیر کا مسئلہ بھی نہ رکھ سکے۔ خوشگوار تعلقات کے لیے انہوں نے جو کوششیں کیں‘ وہ نریندرمودی کے منفی طرزعمل کی وجہ سے تاحال کامیابی سے ہمکنار ہو تی نظر نہیں آ رہیں۔ مسلم لیگ (ن)کے بالمقابل خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بھی بعض اہم شعبوں میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں کر سکی۔ بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے۔ میرٹ اور انصاف کے دعوؤں کے باوجود ایک یونیورسٹی کی وائس چانسلر کی تعیناتی کے حوالے سے میرٹ کی خلاف ورزی کی شکایات سننے کو مل رہی ہیں ۔میرٹ کے لحاظ سے نویں نمبر پر آنے والی امیدوار کو وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر وائس چانسلر بنائے جانے والی خبر اگر درست ہے تو یہ الزام تحریک انصاف کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ عمران خان نیاپاکستان بنانے کا عزم ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس خیبر پختون خوا میں کام کرنے کے بہت 
سے مواقع موجود ہیں ۔ وہ چاہیں تو اس صوبے کو ترقی یافتہ صوبہ بنا سکتے ہیں‘ اسے دیگر صوبوں کے لیے مثال بنا سکتے ہیں۔ اگر وہ اس موقع کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے تو عوام میں شدید مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گی۔ انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد عمران خان نے دوبارہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف آواز اُٹھانا شروع کی ہے اور اس حوالے سے بھر پور رابطہ مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک اور مسلم لیگ(ق) بھی لندن میں حکومت کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھ چکی ہیں اور10نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا جا چکا ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے بھی متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لیے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے ۔ سیاسی کشمکش اپنے پورے عروج پر ہے لیکن پریشان عوام تاحال اپنے مسائل کے حل کے لیے اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی ایسے اتحاد بنتے رہے لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں رہے۔ وہ انتخابات میں ووٹ دے کر ہی اپنی رائے کا اظہار کر سکتے تھے لیکن جو بھی جماعت حکومت میں آئی‘ اس نے عوام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے حتیٰ کہ انہیں بنیادی سہولیات تک میسر نہ ہوئیں۔ تقریباً 67برس بیت جانے کے باوجود تاحال نظریہ پاکستان پر کلی طور پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ۔ہم قرآن و سنت کے نفاذ کی منزل سے کوسوں دور ہیں۔ اسی طرح عوام کے مسائل اور پریشانیوں کاخاتمہ نہیں ہو سکا۔ کئی سیاسی تبدیلیوں کے باوجود عوام بے روزگاری اور بدامنی کے شکنجے سے آزاد نہیں ہو سکے۔ عوام تبدیلی چاہتے ہیں لیکن خوف اور بے یقینی کا شکار بھی ہیں کہ آئندہ برسوں میں ان کا اوراس ملک کا مستقبل کیا ہو گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں