مو ت ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں مذاہب عالم میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ۔ہم آئے روز لوگوں کو اپنے سامنے مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ گمان کرتے ہیں کہ شائد یہ سانحہ غیروں کے ساتھ تو پیش آسکتا ہے لیکن ہم اس سے بچتے ہی رہیں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہرجنازے اٹھانے والے کا جنازہ ایک دن ضرور اٹھایاجائے گا اور ہر قبر پر مٹی ڈالنے والے کی قبر پر بھی مٹی ضرور ڈالی جائے گی ۔اللہ تعالیٰ کا یہ نظام اٹل ہے اوراس سے کسی کوکوئی فرار نہیں ۔موت ہر نیک و بد کے تعاقب میں رہتی ہے اور وقت مقررہ پر اس کو دبوچ لیتی ہے ۔جو لوگ موت کے بعد کی زندگی کے لئے تیار رہتے ہیں وہ حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے ۔وہ لوگ جو اس فانی دنیا ہی کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں خواہ دنیا میںانہیں کتنا بھی عروج کیوں حاصل نہ ہو جائے وہ آخرت میں ناکام و نامراد رہیں گے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر انسانوں کی اس کوتاہ بینی کا ذکر کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعلیٰ کی آیت نمبر 15 اور 16 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورت کہف کی آیات نمبر 103-105 میں فرمایا ''وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں بھٹک رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یقینا وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور ملاقات سے پھر ان کے سارے عمل ضائع ہو گئے۔ پھر قیامت کے دن ہم ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے‘‘۔ سورت کہف کی یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ اہل ایمان کی تگ و دو کا مرکز و محور فقط دنیا کی زندگی نہیں ہو تی بلکہ ان کی جدوجہد ترجیحی بنیادوں پر آخرت کے لئے بھی ہوتی ہے ۔
دنیا میں اچھی زندگی گزارنا دین کے خلاف نہیں ۔اسلام مرد وزن کو اچھی زندگی گزارنے سے نہیں روکتابلکہ حلال طریقے سے زندگی کی ضروریات اور سہولیات سے فیض یاب ہونے کی اسلام میں پوری گنجائش موجود ہے؛ تاہم اسلام اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ ضرور کرتا ہے کہ انہیں اپنے مرنے کے بعد والی زندگی کے لئے بھی اس زندگی میں کوشش کرنا ہو گی ۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 200-202 میں لوگوں کی دو طرح کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے ،ایک دعا ان لوگوں کی ہے جن کا مطمح نظر صرف دنیاوی کامیابی ہے۔ جبکہ ایک دعا ان لوگوں کی ہے جو دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی چاہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''پھر لوگوں میں سے کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا ہی میں دے دے اور اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور ان میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اورہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ وہی لوگ ہیں جن کے لیے اس میں سے حصہ ہو گا جو انہوں نے کمایا‘‘۔ آیات مذکورہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف دنیا کی زندگی کے لئے تگ ودو کرنے والے لوگ کامیاب نہیں ہیں بلکہ دینی اور دنیاوی فلاح کو مد نظر رکھنے والے لوگ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ نے دنیاوی عروج سے ہمکنار ہونے والے متعدد ناکام لوگوں کا ذکر کر کے انسانوں کو احساس دلایا ہے کہ انہیں کسی کے مادی عروج سے متاثر ہو کر اپنی منزل کو گم نہیں کر دینا چاہیے ۔
فرعون ایک مطلق العنان حاکم تھا۔ وہ اپنے وسائل اور نعمتوں کے نشے میں دھت ہو کر اپنے پروردگار اور اپنے انجام کو فراموش کر چکا تھا ۔ اللہ نے سورۃالزخرف کی آیات نمبر 51 سے56میں فرعون کی سرکشی اور بغاوت کا تذکر ہ کیا ہے ''فرعون نے اپنی قوم میں پکار کر کہا کہ اے میری قوم! کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے اور یہ نہریں جو میرے نیچے بہتی ہیں ، کیا پھر تم لوگ دیکھتے نہیں۔ یا میں بہتر ہوں اس شخص سے جو کمتر اور حقیر ہے اور صاف بول نہیں سکتا ، پھر کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے یا فرشتے اس کے ساتھ پرے باندھ کر کیوں نہ آئے پھر اس نے اپنی قوم کوہلکا جانا پھر انہوں نے اس کی اطاعت کی ۔یقینا وہ نافرمان لوگ تھے۔ پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لے لیا‘ پھر ہم نے ان سب کو غرق کر دیا‘ پھر ہم نے ان کو ماضی کی داستان اور بعد والوں کے لئے مثال بنا دیا‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ القصص کی آیات نمبر 76 سے 82 میں قارون کا ذکر کیا ہے کہ ''یقینا قارون موسیٰؑ کی قوم میں سے تھا پھر وہ ان کے خلاف سرکش ہو گیا ۔اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ یقینا ان کی چابیاں ایک طاقتور جماعت کو تھکا دیتی تھیںجب ان کی قوم نے اُسے کہا اتراؤ مت !یقینا اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے اس سے آخرت کا گھر تلاش کرو اور دنیا میں سے اپنے حصے کو نہ بھولو اور احسان کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے اور زمیں پر فساد کے طلبگار نہ بنویقینا اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اس نے کہا یقینا یہ (مال) مجھے اپنے علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے کیا بھلا وہ نہیں جانتا تھا کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس سے پہلے کتنی قوموـں کو ہلاک کرچکاہے جو اس سے زیادہ قوت اورجمعیت رکھتی تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے ۔پھر وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے ٹھاٹھ میں نکلا ۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کا ارادہ رکھتے تھے انہوں نے کہا اے کاش! ہمارے لئے بھی اس جیسا سب کچھ ہو تا جو قارون کو دیا گیا یقینا وہ تو بڑی قسمت والا ہے اور جن لوگوں کو علم دیا گیا انہوں نے کہا افسوس تم پر‘ اللہ کا اجر اس شخص کے لیے بہت ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے اور یہ نہیں دیا جاتا مگر صبر کرنے والوں کو اور پھر ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو زمین میں دھنسا دیا پھر اس کے لیے کوئی گروہ نہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر اس کی مدد کرتا اور نہ وہ خود ہی اپنی مدد کرنے والوں میں سے ہو سکااور جو لوگ اس کی تمنا کر رہے تھے‘ وہ کہنے لگے افسوس ہم پر ، یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔ افسوس! یقینا انکار کرنے والے کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔
فرعون اور قارون نے اپنی کامیابی ،اقتدار اور سرمائے میں سمجھی اور ہلاکت کے گڑھے میں گر گئے اسی طرح ہامان اور شداد منصب اور جاگیر کو اپنی کامیابی تصور کرتے تھے۔ان کی دنیاوی وجاہت ان کے کسی کام نہ آئی اور وہ ناکام و نامراد لوگوں میں شامل ہو گئے۔
نبی کریم ﷺ جب اللہ تعالیٰ کی تو حید اور اس کے احکامات کو دنیا والوں کے سامنے لائے‘ تو قریشی سرداروں کی بڑی تعداد آپ کی دشمنی ہوگئی ۔آپ کی مخالفت کرنے والوں کی غالب اکثریت حسد ،عناد اور بغض کی وجہ سے آپ کے سچے پیغام سے انحراف کر رہی تھی‘ وگرنہ آپ کی امانت و دیانت پوری طرح ان کے سامنے تھی۔ان مخالفین میں آپ کا سگا چچا ابو لہب بھی شامل تھا۔ اگرچہ ابو لہب خاندانی اور مالی اعتبار سے مکہ میں ممتاز حیثیت کا حامل تھا لیکن نبی کریمﷺ کی مخالفت کی وجہ سے اس نے اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے لی۔مکہ کے چودھری کی چودھراہٹ اس کے اور اس کی گستاخ بیو ی کے کام نہ آئی اور آخرت کی ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے مد مقابل غریب الدیار اور مفلوک الحال بلال ؓ کو توحید کے لئے ظلم سہنے کی وجہ سے یہ مقام جلیل عطا فرمایا کہ نبی کریمﷺ نے سفر معراج سے واپسی پر ارشاد فرمایا کہ میں نے بلال ؓ کے قدموں کی چاپ کو ساتویں آسمان پر سنا ہے۔ انسان حقیقی کامیابی مادی اسباب کی فروانی کو سمجھتا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ﷺ کی روشن اور واضح تعلیمات ہم کو سمجھاتی ہیں کہ حقیقی کامیابی اس کو حاصل ہو گی جو جہنم کے انگاروں سے بچ کر اللہ کی جنتوں میں داخل ہو جائے گا ۔