کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے سارے لوگ نہ تو اچھے ہوتے ہیں نہ ہی برے۔انسانی سماج اچھے اور برے لوگ کے اختلاط سے معرضِ وجود میں آتا ہے اورتاریخ کا سفر خوشگوار اور تلخ یادوں کو اپنے جلومیںلیے جاری و ساری رہتا ہے ۔اچھے لوگوں کی اچھا ئی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو جاتی ہے اسی طرح برے لوگوں کی برائی بھی لوگوں کے دل ودماغ پر نقوش چھوڑ جاتی ہے ۔
اچھا ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جسے مریض کی شفایابی میں دلچسپی ہوتی ہے اوروہ مریض کے علاج معالجے میں کسی بھی قسم کی کمی و کوتاہی نہیں کرتا جبکہ برا ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جس کو اپنے پیسوں سے دلچسپی ہوتی ہے اور وہ مرتے ہوئے مریض کو چند پیسوں کے لیے تڑپتا ہوا چھوڑ کر نکل جاتا ہے ۔اچھا انجینئر وہ ہو تا ہے جو عمارت کی مضبوطی پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتا اور بر اانجینئر وہ ہو تا ہے جو منافع میں اضافے کے لیے ردّی میٹریل لگانے سے احتراز نہیںکرتا۔ اس کو عمارت کی میعاداور مضبوطی سے کہیں زیادہ اپنا بینک بیلنس بڑھانے میں دلچسپی ہوتی ہے ۔
اسی طرح اچھا عالم دین وہ ہوتا ہے جو ہر حال میں حق بات کرتا ہے اور کسی قسم کے لالچ و دباؤ کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا ۔وہ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہوتاہے کہ اس کی تبلیغ کا حقیقی اجر اللہ تعالیٰ کی ذات کے پاس ہے ۔ اس کے بالمقابل علمائے سوء کی نظریں دنیاوی مفادات اور اشیاء پر ہوتی ہیںاور وہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے مفادات پر اپنا ضمیر بیچنے پر بھی آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں ۔
تاریخ میںایسے آئمہ کرام اور علماء بڑی تعداد میں گزرے ہیں جنہوں نے سلاطین وقت کی رعونت اور حکمرانوں کی ہیبت و حشمت کو نہیں دیکھا۔حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ رہے ہوں یہ لوگ حق کہتے رہتے ۔ امام مالک ؒ نے جب جبر ی طلاق پر خلیفہ ٔوقت کے فیصلے کو قبول نہ کیا تو خلیفہ ٔوقت نے آپ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ آپ کواذیتیں اور تکالیف دیں گئیں۔ لیکن حضرت امام مالک ؒ نے پوری خندہ پیشانی سے حالات کے جبر کا مقابلہ کیا اور دین کے تقاضوں پر پوری شدومد سے کاربند رہے۔ اسی طرح مسئلۂ خلق قرآن پرحضرت امام احمد بن حنبلؒ کو بھی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا ۔آپ کو حلقہ ہائے زنجیر کا اسیر بنایا گیا ، پابجولاںکیا گیااور پس دیوارِ زنداں زندگی کے بیش قیمت ماہ و سال گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ آپ کو دباؤ میں لانے کے لیے یہاں تک کہا گیا کہ علماء کی اکثریت وقت کے خلفاء کے ساتھ مل گئی ہے ۔حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے اعلان فرما دیا کہ فرق اس دن واضح ہو گا جس دن جنازوں کو اُٹھایا جائے گا۔ جب درباری مُّلائوں کی موت واقع ہوئی تو ان کے جنازوں کو کوئی کندھا دینے کے لیے بھی نہیں آیا اور جب حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا انتقال ہوا تو لاکھوں افراد آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے دیوانہ وار لپکے۔ اس روح پرور منظر کو دیکھ کر کئی ہزار مسیحی مسلمان ہو گئے۔ حضرت احمد ابن نضرؒ کو رویت باری تعالیٰ کے مسئلہ پر تشدد کا نشانہ بننا پڑا‘یہاں تک کہ آپ جام شہادت نوش فرما گئے۔ امام ابن تیمیہ ؒ کا جنازہ بھی جیل سے اُٹھایا گیا۔ ان عظیم ہستیوں کے مقابلے پر بدنام اور گمنام لوگوں کا ایک گروہ ہر دور میں موجود رہا جو دنیا کے مفادات کے حصول کے لیے مذہب کو استعمال کرتے رہے اور دنیا کی چند روزہ زندگی کے عروج اور چمک دمک کے لیے اپنے منصب کے تقاضوں کو فراموش کردیا۔
تاریخ نے اچھے اور برے حکمران بھی بڑی تعداد میں دیکھے ہیں ۔ نمرود اور فرعون اپنے اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر اللہ کی بغاوت پر آمادہ و تیار ہوگئے۔ اپنے عارضی اقتدار کے پھیلاؤ کو دیکھ کر خود کو رب قرار دینے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ظالم اورجابر حکمرانو ں پر گرفت کی اور ان کو نشانۂ عبرت بنا دیا اور اس کے بالمقابل ذوالقرنین اور طالوت اللہ کی زمین پر‘ اللہ کے احکامات کے مطابق حکومت کرنے میں مصروف رہے اور اپنے حسن و کردار اور طرزِ حکمرانی سے تاریخ کے اوراق کو منور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان حکمرانوں کا کردار اور طرز حکمرانی اتناپسند آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے تذکروں کو قیامت کی دیواروں تک کے لیے اپنے مقدس کلام کا حصہ بنا دیا ۔
قارون اپنے سرمائے کی وجہ سے اللہ کو ناراض کر بیٹھااور اللہ نے اس کو‘ اس کے خزانے سمیت زمین کے اندر دھنسا دیا۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے سرمائے کے ذریعے جنت کے خریدار بن گئے۔ بئر رومۃ سے لے کر مسجد نبوی کی زمین کی خریداری تک مختلف مواقع پر اپنے مال کو صحیح طریقے سے استعما ل کرنے والے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غزوئہ تبوک کے موقع پر اپنی سخاوت کی وجہ سے ایک ہی مقام پر زبان رسالت مآب ﷺسے سات مرتبہ جنت کی بشارت سننے کا شرفِ عظیم حاصل ہوا ۔
کئی تیر انداز ،کئی نیزہ باز اور شمشیر چلانے والے اپنے ہتھیاروں کو زمین پر ظلم اور بربریت کے پھیلاؤکے لیے استعمال کرتے رہے ۔ہلاکو اور چنگیز خان نے اپنے دشمنوں پر ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے کہ انسانیت شرمندہ ہوگئی ۔ اس کے مدمقابل سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تلوار کے ذریعے اللہ کی خوشنودی اور رضامندی کو حاصل کر لیا ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بصارت ،سماعت ،دماغ، ذہانت اور فکر کی عظیم صلاحیتوں سے بہرہ ور کیا ہے۔ انسان ان نعمتوں اور صلاحیتوں کا مثبت طریقے سے استعمال کر کے ایک عظیم انسان اور ان صلاحیتوں کا منفی استعمال کر کے نامراد انسان بن سکتاہے ۔
کوئی منصب ،شعبہ اور پیشہ حقیقت میں برا نہیں ہوتا ۔ اس منصب ،پیشے ا ور شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اچھے یا برے ہوتے ہیںاور اپنے کردار اور عمل سے شعبے کی نیک نامی یا بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔
یہ ہمارے ملک کا بہت بڑاالمیہ ہے کہ بہت سے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بعض نمایاں افراد کی بدعملی پر اس شعبے سے وابستہ افرادشرمندگی محسوس کرتے ہیں اور اس شخص کے برے عمل کابالواسطہ یا بلا واسطہ دفاع کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی جواز تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے دیانتد ار اور ذمہ دار افراد کوان کالی بھیڑوں سے لا تعلقی کااظہار کرنا چاہیے۔ کسی پولیس افسر کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے پولیس سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران کو شرمندہ ہوئے بغیر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے رہنا چاہیے۔ اسی طرح کسی عالم کے غلط فتوے پر علمائے حق کو دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے اور تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہنا چاہیے ۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں جو کچھ بھی کیا‘ ان کی ذات کا حصہ ہے اس پر کسی ادارے کو بطور ادارہ شرمندہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے احتساب کو یقینی بنا کر اپنے ادارے کے وقار کو چار چاند لگانے چاہئیں۔ برے افراد کے افعال پر اداروں کو طعن کرنا مناسب نہیں۔ نہ ہی کسی فرد کی غلطی پر کسی ادارے کے ذمہ دار افرادکے احساسات اور انانیت کو ٹھیس پہنچنی چاہیے ۔فاتح کو فاتح ، قاتل کو قاتل ، مجرم کو مجرم اور مصلح کومصلح مانے بغیر نہ تو انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ہمارا ملک اقوام عالم میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔