ہر عہدکاانسان اپنے سماج میں مثبت تبدیلی کا طلب گار رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کو لانے کے لیے دنیا کے مختلف مقامات پر تحریکیں اُٹھتی رہتی ہیںجن کا بنیادی مقصد معاشروں میں جاری ظلم و بربریت اور بدعنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے ۔بسا اوقات مصلحین نے بھی انسانوں کے لیے مفید نظریات کی نشرواشاعت کے لیے جدوجہد کی اور معاشروںکو نئے نظریات و افکار سے روشناس کروایا ۔پاکستان کا اپنا قیام ایک انقلابی تحریک کے نتیجے میں ہوا تھا ۔بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مصور پاکستان علامہ محمد اقبال ؒنے قوم کو بیدار کرنے کے لیے زبردست جدوجہد کی اور بالآخر ہندوستان کے مشرقی اور مغربی کنارے پر پاکستان کے نام سے ایک ریاست معرض وجود میں آگئی۔ قیام پاکستان کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے فلاحی ریاست کا قیام تھاجس میں مسلمان اپنی تمنا کے مطابق زندگی گزارسکیں ، اسلام کے مسلمہ اصولوں کے مطابق ہر شخص کو اس کے جائز حقوق میسر آئیں، ناانصافی اور ظلم کا خاتمہ ہو سکے اورقرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں عوام ایک صحیح اسلامی معاشرے کو تشکیل دے سکیں ۔
تحریک پاکستان کو چلانے والے اکابرین اور قائدین اپنی جدوجہد میں مخلص تھے۔کئی عشروںکی جدوجہد کے بعد بالآخر وہ ریاست میسر آگئی جسے مسلمان خوابوں کی تعبیر سمجھتے تھے ۔بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد قوم کئی معاملات میں یک جا نہ ہو سکی ۔فرقہ وارانہ ، لسانی اور گروہی تعصبات کی وجہ سے قوم کی وحدت کوبرقرار نہ رکھا جا سکا۔مذہب کو ریاستی امور میں کلیدی حیثیت حاصل نہ ہوسکی اور معاشرے میں حقو ق کی جنگ شروع ہو گی ۔بنگالی اور غیر بنگالی تنازع قیام پاکستان کے بعدریاست کے لیے پہلا خطرناک بحران تھا جس پر بوجوہ قابو نہ پایا جا سکا اور پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا ۔سقوط ڈھاکہ کے سانحہ میں عقلمندوںکے لیے عبرت کے بہت سے پہلو تھے۔ اس سانحے نے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ دیا کہ ناانصافی بٹوارے پرمنتج ہوتی ہے۔کوئی بھی گھر یا مشترکہ کاروبار اسی صورت میں متحد رہ سکتا ہے جب گھر کے تما م افراد یا کاروبار میں شریک تمام حصے دار ایک دوسرے کے ساتھ قربانی، رواداری اورایثار والا معاملہ کریں۔ حق کا غصب کچھ عرصہ تو برداشت ہو سکتا ہے لیکن بعد ازاں وہ گھر یاشراکت داری برقرار نہیں رہ سکتی ۔
اللہ تعالیٰ کا دین بھی ہمیں حق دار کو اس کا حق لوٹانے کادرس دیتا ہے۔ پانچویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو(58:4)۔ یہ ہمارے معاشرے کی بہت بڑی بدنصیبی ہے کہ اس وقت حق دار کاحق چھینا جارہا ہے۔ غریب اورکمزور کوحق حاصل کرنے میں بہت زیادہ دقت اور پریشانی کا سامنا ہے ۔
اگر کسی غریب کی عزت لٹ جائے ،مال چھن جائے یاوہ قتل ہوجائے تولمبا عرصہ تھانوں اور کچہریوں کے چکرلگانے پڑتے ہیں۔ تھانے ،کچہری میں ہر پیشی پر اس کو اپنے وقت اوروسائل کی قربانی دینا پڑتی ہے۔نظام عدل میں ایسی کمزوریاں موجود ہیں جن کی وجہ سے عام آدمی کچھ عرصہ گزرنے کے بعدمایوسی کا شکار ہوجاتاہے اور اپنے معاملے کی پیروی کرنا چھوڑ دیتاہے۔اس کے مدمقابل مالی طور پر مستحکم اور سماجی طورپر بارسوخ آدمی آمدورفت اوروکیل کا خرچہ برداشت کرنے کی وجہ سے نہ صرف اپنا حق حاصل کر لیتا ہے بلکہ کئی مرتبہ دوسروں کا حق سلب کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔
مقدمات کے فیصلوں میں کئی مرتبہ تکنیکی وجوہ کی وجہ سے تاخیر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے غریب افراد مقدما ت کی پیروی سے قاصر رہتے ہیں اور مجبوراً حق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔دیہی علاقوں میں پولیس گردی بھی عام ہے ۔سیاسی اثرو رسوخ کا تھانہ کلچر کے ساتھ براہ راست اور انتہائی گہرا تعلق ہے۔ عام آدمی تھانے سے گھبراتا اور کتراتاہے ۔وہ اپنی سیاسی رائے کا فیصلہ بھی تھانہ کلچر کو دیکھ کر ہی کرتا ہے ۔ ان حالات میں ہر شخص دلی طور پرنظام کی تبدیلی کا خواہشمند ہے یہی وجہ ہے کہ جب کبھی نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگتا ہے ظلم کی چکی میں پسے عوام فوراً اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد عوام کو احساس ہوتا ہے کہ نعرے لگانے والے ان کے جذبات سے کھیل کر سیاسی مفادات کے حصول میں کامیاب ہو چکے ہیں اور ان کے معاملات جوں کے توں ہی ہیں لیکن اس کے باوجود عوام تبدیلی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔پاکستان میں ایک لمبے عرصے تک دو جماعتی نظام رہا ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ عوام کی نمائندگی کرتی رہیں۔تبدیلی کے خواہاں عوام نے پہلے متحدہ مجلس عمل اورپھر تحریک انصاف کو بھی اپنی تائیددی۔عمران خان کے بعدعوامی تحریک کے جلسے جلوس دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ عوام میں مزید جماعتوں اور تحریکوں کو جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
مسلم لیگ(ن)کے رہنما اس وقت بجلی کے منصوبوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کاروبا ر اور اقتصادیات میں بہتری کے لیے بھر پور کوششیں کررہے ہیں۔ وہ ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ وہ اپنی دانست میں صنعتوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کی بڑی تعداد ان کے خلاف سڑکوں پر آنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ مسلم لیگ کو سارے معاملے کا صحیح طریقے سے تجزیہ کرنا چاہیے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوکے دورمیں صنعت کاروں کو ان کے جائز حقوق میسر نہ آسکے، جس کی وجہ سے تاجر طبقہ قومی اتحاد کی حمایت میں اکٹھا ہوا اور بعد ازاں تاجر طبقے کی تائید سے ہی قومی اتحاد کے ووٹ بینک کی نمائندگی مسلم لیگ (ن)کومنتقل ہوئی۔
تاجر طبقوں کو ان کے جائز حقوق مل جانے سے گو مسلم لیگ(ن) کوتقویت حاصل ہوئی لیکن بعد ازاںپسماندہ اور محروم طبقوں کی حق تلفی کی وجہ سے نئی تحریکیں زور پکڑنا شروع ہو گئیں۔بلوچستان میں تحریک چلنے کی وجہ بلوچیوں کا احساس محرومی ہے۔جبکہ پنجاب کے شہری علاقوں میںہونے والے بڑے جلسے، جلوسوں کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عوام کا دل جیتنے کے لیے صرف تعمیراتی منصوبے،لیپ ٹاپ سکیم اور بجلی کے پروجیکٹ کافی نہیں ، بلکہ حقوق کی یکساں اور بروقت فراہمی اورمعاشرے کے تمام طبقات کے لیے یکساں انصاف کانظام ضروری ہے ۔
نبی کریمﷺنے اپنی دعوت کا تنہا آغاز کیا تھا لیکن رفتہ رفتہ پورے جزیرہ عرب نے اس لیے آپ کی دعوت قبول کر لی کہ آپ ﷺ نے توحید باری تعالیٰ کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ انصاف کا یکساں نظام متعارف کروایا تھا ۔جب بنومخزوم کی ایک بااثر عورت نے چوری کی اور اسامہ بن زید ؓ اس کی سفارش لے کے آئے تو نبی کریم ﷺ نے سابق اقوام کی تباہی کے اسباب کو واضح کیا تھا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب چھوٹا جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی ۔آپ ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھاکہ اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرے تو میں اس کے ہاتھ کاٹ ڈالوں گا ۔
اسلام کے عالمگیر مذہب بننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے معاشرے میں اونچ نیچ کے فرق کو ختم کرکے ہر کسی کو انصاف کے یکساں مواقع فراہم کیے تھے ۔جب افغانستان میں ملا عمر بر سر اقتدار آئے تو ان کو افغانی عوام کی زبردست تائید حاصل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے حقوق اور انصاف کی فراہمی پرزور دیا تھا۔ کمزور معیشت کے حامل اس ملک میں ملا عمر نے انتہائی مضبوطی سے حکومت کی۔ امریکہ اور نیٹو کی مسلسل بمباری اور جارحیت کے باوجود ملاعمر اور ان کی جماعت کے اثرات زائل نہ ہوسکے ۔اس کے بالمقابل پاکستان میں حکومتیں چند جلسوں اور ریلیوں کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاسی جماعتیں مادیت کی چمک دمک کے ذریعے ووٹ تو حاصل کرلیتی ہیںلیکن حق دار کو اس کا حق نہیں دلایاجاتا ۔یہی وجہ ہے کہ محروم اور مقہور طبقے انصاف اور حقوق کے حصول کے لیے نئی جماعتوں اور تحریکوں کو خوش آمدید کہتے رہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ حقیقی انقلاب اس وقت آئے گا ، جب حق داروں کو ان کا حق مل جائے گا ۔ یکساں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو جائے گااور اس انصاف کا قیام حقیقت میں نظریہ پاکستان کی عمل داری، یعنی قرآن و سنت کے نفاذ کے بغیر نظر نہیں آتا ۔کا ش یہ بات ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں آجائے ۔