"AIZ" (space) message & send to 7575

روزے کی غرض و غایت

اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183میں ارشاد فرمایا: ''اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘۔ تقویٰ کا لغوی معنی کسی چیزکو ایسے عمل سے بچانا ہے جو اس کو نقصان پہنچانے والی یا ایذا دینے والی ہو۔ شرعی اصطلاح میں تقویٰ کا مفہوم کسی شخص کو ایسے کاموں سے بچانا ہے جو اس کو گناہگار بنانے والے ہوں۔ انسان تب گناہگار بنتا ہے جب اپنے دل ، دماغ اور جوارح کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ آنکھوں ،کانوں ، زبان ، ہاتھوں اور قدموں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق استعمال کرنے والا شخص متقی ہے ۔ تقویٰ روزے سے کس طرح حاصل ہوتا ہے، اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں روزے کی حقیقت اور کیفیت پر غور کرنا چاہیے ۔ روزہ اپنی ظاہری شکل میں چند گھنٹے کے لیے بھوک،پیاس برداشت کرنے اور اپنی شریک زندگی سے اجتناب کرنے کا نام ہے۔ انسان میں بھوک اور جبلت کی تحریک بہت سے محرکات کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور ہے۔ جب انسان بھوک اورجائز جبلی خواہشات پر قابو پانے کے قابل ہو جاتا ہے تو اس میں خود بخود دوسری خواہشات کا مقابلہ کرنے کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے۔ بخاری شریف کی ایک حدیث بھی اس امر کی تائید کرتی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ اگر کوئی شخص قوت والا ہوتو اسے نکاح کرلینا چاہیے اس لیے کہ وہ ( نکاح ) نظر کو نیچا اور آبرو کو تحفظ دینے والاہے اور اگر کسی میں نکاح کی استطاعت نہ ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیںکیونکہ روزہ شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔(مفہوم)
انسان جب اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے اپنی جائز ضروریات سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو وہ فطری طور پر اس حقیقت کو بھی بھانپ لیتا ہے کہ جس پروردگار کے حکم پر میں نے عارضی طور پر حلال سے اجتناب کیا، اسی پروردگار کے حکم پرمجھے زندگی کے طویل ماہ وسال میں حرام سے اجتناب کرنا چاہیے ۔بخاری شریف میں روایت ہے ،نبی کریم ﷺ نے حالت روزہ میںجھوٹ اور دغابازی نہ چھوڑنے والوں کی مذمت کر تے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے شخص کا کھانا اورپینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جملہ عبادات میں جو چیزپروردگارکو شدت سے مطلوب ہے وہ تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عید قربان کے موقع پر جانوروں کی قربانی کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو دلوںکا تقویٰ پہنچتا ہے۔ جس کے دل میںپرہیز گاری ہوگی اس کی قربانی قبول ہو گی۔ اس کے برعکس جس کا دل پرہیزگاری کے احساسات سے عاری ہوگا اس کو گوشت اور خون حاصل تو ہو سکتا ہے لیکن قربانی کا اجروثواب حاصل نہیں ہوگا۔ روزے کے نتیجے میں اگر انسان کو پرہیزگاری حاصل ہوجائے تو ایسے پرہیزگار شخص کو دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پران کامیابیوں اورفوائد کا ذکر کیا جو تقویٰ کے نتیجے میں حاصل ہو سکتی ہیں۔ ذیل میں بعض اہم فوائد قلم بندکیے جارہے ہیں۔
1۔ زمین وآسمان سے برکات کا حصول : اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر 96میں ارشاد فرمایا کہ'' اگر بستیوںکے رہنے والے ایمان اور تقویٰ کے راستے کو اختیار کرلیںتو ہم ان کے لیے آسمان سے رحمت و برکات کے دروازے کھول دیں گے‘‘۔
2۔مصائب کا خاتمہ اور غیر متوقع رزق کا حصول : اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر2اور3میں ارشاد فرمایا: ''جو اللہ سے ڈر جائے گا ،اللہ تعالیٰ اس کے لیے مصائب سے نکلنے کے راستے بنائیں گے اور اسے وہاں سے رزق دیں گے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا‘‘۔
3۔ معاملات میں آسانی : اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر شخص کسی نہ کسی معاملے میں الجھا ہوا یا مشغول ہے۔ کسی کے معمولات اور معاملات کاروبار سے متعلق ہیں تو کسی کے ملازمت اور تعلیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان معاملات میں تقویٰ کے نتیجے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر 4میں ارشاد فرمایا: ''جو اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے گااللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو آسان فرمادیں گے‘‘۔
4۔گناہوں کی معافی اور اجر کا دوچند ہونا : اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کے سابق گناہوں کی معافی کی ضمانت دی ہے اورسورہ طلاق کی آیت نمبر 5میں ارشاد فرمایا ہے کہ ''جو شخص تقویٰ کو اختیار کرے گا اس کے گناہ معاف کیے جائیں گے اور اس کا اجر دو چند کر دیا جائے‘‘۔
5۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت ووقار کا حصول : دنیا میں اکثر لوگ دوسرے انسان کی عزت، اس کے عہدے، منصب اور مال کی وجہ سے کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صاحب عزت انسان ،صاحب سرمایہ اور صاحب منصب نہیں بلکہ اس سے ڈرنے والا ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور چہروں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔ سورہ حجرات کی آیت نمبر13 میں ارشاد ہوا:'' اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے گروہ اور قبائل پہچان کے لیے بنائے، بے شک تم میںسے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہو بے، شک اللہ تعالیٰ جاننے والا بے خبر ہے ‘‘۔
6۔ تفریق کی صلاحیت : حق اور باطل میں امتیاز کرنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے ۔ بہت سے لوگ واضح اورمحکم دلائل کے باوجود حق کو پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں جس کی بڑی وجہ انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیںجو اس سے بصیرت چھین لیتے ہیں، لیکن جو شخص تقویٰ اختیار کرلیتا ہے وہ حق اور باطل میں تفریق کرنے کے قابل ہو جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ انفال کی آیت نمبر 29میں ارشاد فرماتے ہیں:''اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کا تقویٰ اختیارکرلوتو تمہارے لیے فرقان کو پیدا کر دیا جائے گا اور تمہاری خطائیں معاف کر دی جائیںگی اور تمہیں بخش دیا جائے گا‘‘۔
قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ امتوں کو روزے کے دوران بات چیت سے بھی روکا گیا تھا؛ چنانچہ جب حضرت مریم سلام اللہ علیھا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد اپنی بستی والوں کے پاس آئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ جب آپ اپنی بستی کی طرف جائیںتو کہیں ''میںنے رحمان کے لیے روزے کی نذر مانی ہے پس میں کسی انسان سے ہرگزکلام نہیں کروں گی‘‘۔ اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ پر اس قسم کی سختی نہیں کی لیکن ان کو لڑائی جھگڑے اور فحش کلامی سے بازرہنے کی ضرور تلقین کی ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میںروایت مذکور ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا:'' روزہ گناہوںکے آگے ایک ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو دل لگی کی باتیں اور شوروغل نہ کرے، اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے لڑائی جھگڑا کرنے کی کوشش کرے تو اسے کہے میںروزے سے ہوں ‘‘۔
جب انسان اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے روزہ رکھتاہے تو اس کا غیر معمولی نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ صحیح مسلم شریف میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدم ؑ کی اولاد کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے۔ ایک نیکی دس سے لے کر سات سو تک بڑھائی جاتی ہے مگر روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے خاص ہے، اس کااجر اور بدلہ میں خود عطا کروںگا،اس لیے کہ میرا بندہ میری وجہ سے جائز خواہشات اورکھانا پینا چھوڑتاہے۔ اسی طرح صحیح مسلم میں ایک اور روایت میں آتاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا روزے دار کے لیے خوشی کے دومواقع ہیں جن میں وہ خوش ہوتا ہے ۔
1۔ جب وہ روزہ افطار کرتاہے تو اپنا روزہ کھولنے سے خوش ہوتا ہے ۔
2 ۔جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو بامقصد روزہ رکھنے توفیق دے ۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں