گزشتہ چند دنوں سے دنیا بھر میں غزہ کے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے حوالے سے سیمینار ،کانفرنسوں ،جلسوں اور بیانات کا سلسلہ جاری ہے ۔ملی یکجہتی کونسل نے 18جولائی کو ملک گیر احتجاج کی کا ل دی ہے ۔لاہور میں 13جولائی کو فلسطین فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک مقامی ہوٹل میں سیمینار کاانعقاد کیا گیا جس میں مختلف دینی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کے ساتھ مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی ۔میں نے اس موقع پر اسرائیل کی غزہ کے خلاف جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کا مسئلہ فلسطین پر کوئی عملی قدم نہ اُٹھاسکنے کی بنیادی وجہ عام آدمی سے کہیں بڑھ کر مسلمان حکومتوں کی مجرمانہ غفلت اور بے حسی ہے۔بدقسمتی سے مسلمان حکمرانوں نے مسئلہ فلسطین اور کشمیر پر زبانی احتجاج اور روایتی قراردادوں سے زیادہ کچھ نہیں کیا ۔
فلسطین اور کشمیر کے مسلمان ایک لمبے عرصے سے آزادی اور خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے میں مصروف ہیں لیکن عالمی ضمیر ان مظلوموں کی قربانیوں کے باوجود بیدار نہیں ہو سکا ۔ اس ظلم و بربریت کا اقوام عالم اور بالخصوص امت مسلمہ خاموش تماشائی کی طرح مشاہدہ کر رہی ہے‘ جس کی و جہ سے برما اور انگولا کے مسلمانوں کو بھی جارحیت کا نشانہ بنانے کا آغاز ہو چکا ہے۔ برما اور انگولا کے ظالم اور جابر حکمران‘ مسلمان لیڈروں کی بے حسی بھانپ چکے ہیں کہ اگر وہ مسلمانوں کی نسل کشی کریں گے تو اس پر اُمت مسلمہ کوئی بھی عملی قدم اُٹھانے سے قاصر رہے گی۔
فلسطینی مسلمانوں پرکئی عشروں سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ صہیونی‘ مسلمانوں کی بے حسی دیکھ کر روز بروز دلیر سے دلیر تر ہوتے جارہے ہیں ۔مسئلہ فلسطین پر اگر مسلمانوں نے کوئی ٹھوس اجتماعی موقف نہ اپنایا تو اس کے نتائج انتہائی مہلک ہوں گے، دنیاکے بہت سے مقامات پر مسلمانوں کے لیے زمین کا دامن تنگ کر دیا جائے گا۔ مسلمانوں کی اخلاقی اور سیاسی مدد کرنے والوں کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دینے کی کوشش کی جائے گی۔
یہودی‘ آج جس طرح مسلمانوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہیںاس کی مثال ماضی قریب میںصرف برما میں ملتی ہے کہ ان دو مقامات پر نہ تو صنف کا خیال کیا جارہاہے اور نہ عمر کا ۔صرف مذہبی تعصب اور نفرت کی بنیادپر انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہے ۔
یہودیوں کا یہ طرزعمل ان کی اسلام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اسلام، پیغمبرعلیہ السلام اور مسلمانوں سے یہودیوں کی نفرت کی تاریخ بہت لمبی ہے ۔یہودیوں نے پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے صرف نسلی بنیادوں پر تعصب کا اظہار کیا۔یہودیوں کے نمایاں قبائل نبی آخر الزماں ﷺ کے انتظار میں مدینہ میں آکر آباد ہوئے ۔ان کا یہ خیال تھا کہ نبی آخرالزماںﷺسابق انبیاء کی طرح آلِ اسحاق علیہ السلام میں سے ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے جب تاجِ ختمِ نبوت کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھنے والی عظیم شخصیت حضرت محمد رسول اللہﷺ کے سر پر رکھ دیا تو یہودی آپ ﷺ کو آخری نبی کی حیثیت سے پہچاننے کے باوجود آپ کی دشمنی پر اُتر آئے۔
حضرت رسول اللہ ﷺ سے یہودیوں کی عداوت اس حد تک بڑھی کہ انہوں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام پر بھی خیانت کاالزام دھرنے سے گریز نہیں کیا ۔ان کا یہ گمان تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام‘ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے نبی کریم ﷺ پر وحی لے کر آئے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 97میں ارشاد فرمایا کہ ''کہہ دیجئے کہ جو جبرائیل علیہ السلام کا دشمن ہے پس انہوں نے اتارا ہے آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے جو تصدیق کرتا ہے پچھلی کتابوں کی اور ہدایت اورخوشخبری ہے مومنوں کے لیے ‘‘۔
حضرت رسول اللہﷺنے اپنے عہد مبارک میں مدینہ طیبہ میںآباد یہودیوں کو تمام حقوق شہریت عطا فرمائے لیکن یہودی تواتر اور تسلسل سے آپ کے دشمن رہے ۔مدینہ پر جب بھی کبھی کافروں نے چڑھائی کی یہودیوں نے عہد شکنی کر تے ہوئے آزمائش کے دنوں میں مسلمانوں کو خیرباد کہہ دیا ۔ان ساری سازشوں کے نتیجے میں بالآخر مسلمانوں اور یہودیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ آمنا سامنا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہودیوں پر غلبہ فرمایا ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میںنبی کریم ﷺ کی وصیت کے مطابق یہودیوں کو ان کی چیرہ دستیوں اور سازشوں کی وجہ سے جزیرۃ العرب سے بے دخل کر دیا گیا ۔خیبر اورمدینہ سے رخصتی یہودیوں کے لیے ناقابل قبول تھی؛ چنانچہ یہودیوں نے آج بھی مزعومہ ''وسیع تر اسرائیل‘‘ کے نقشے میں خیبر اور مدینہ کے نواحی علاقوں کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ اگریہودیوں کا بس چلے تو وہ سرزمین حجاز کوبھی جارحیت کی لپیٹ میں لے لیں۔
تاریخی حقیقت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ناموس پر حملہ کرنے کی پاداش میں دومعروف یہودی سردار کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی (نو مسلم )،محمد بن مسلمہؓ اور عبداللہ بن عتیکؓ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے ۔ آج بھی اگر تحقیق کی جائے توپتہ چلے گا کہ دورحاضر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مبنی تحریر ی اورتصویری لٹریچر کے پیچھے یہودیوں کا خفیہ ہاتھ کارفرما ہے ۔
نبی کریمﷺکے خلاف یہودیوں نے صرف عسکری اور سیاسی محاذوں پر سازشیں نہیں کیں بلکہ نبی کریم ﷺ کے کھانے میں زہر ملانے سے جادو تک یہودی ہر موقع پر آپ ﷺ کی مقدس جان کے دشمن بنے رہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کر م سے ہر موقع پر نبی کریم ﷺ کی حفاظت فرمائی اور یہودی اپنی سازشوں میں کامیاب نہ ہو سکے ۔
اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نبی کریم ﷺ کو یہودیوں کی بدخصلتی سے آگاہ فرمایا اور ان کو یہ بتایا کہ یہود من وسلویٰ کے نزول اور بادلوں کے سایوں تلے زندگی گزارنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری میں مصروف رہے ۔اللہ تعالیٰ کی واضح نشانیوں کو دیکھ لینے کے باوجود بچھڑے کی عقیدت میں اندھے ہوکر اس کی پوجا میںمگن رہے ۔میدان جہاد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا اور ان کو واشگاف الفاظ میں کہا کہ ''آپ اور آپ کا رب جنگ کریں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہودکی بداعمالیوںاور بری خصلتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی بیان کیاکہ انہوں نے ہفتے کے دن کی حرمت کو پامال کیا اور سود خوری میں مبتلا رہے حالانکہ ان کو سود کھانے سے روکا گیا تھا۔انہوں نے سیدہ مریم ؑ کی کردار کشی کی اور سیدنا عیسیٰ ؑ کواپنی دانست میں صلیب پر لٹکا دیا ۔برائی کی روک تھام نہ کرنے کی وجہ سے سیدنا داؤد ؑ اور جناب عیسیٰ ؑ نے ان پر لعنت کی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کودنیا میں جو فضیلت عطا کی تھی اس کو ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے چھین کر ان پر ذلت اور مسکنت کو مسلط کر دیا ۔
اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے اور انبیاء اور علما ئے حق کو شہیدکرنے والے یہودی اگر غزہ میں مسلمانوں کو اذیتیں اور تکلیفیں دے رہے ہیںتو یہ اُن کی خصلت اور فطرت کے عین مطابق ہے ۔یہودی تو اپنی تاریخ دہرا رہے ہیں ،ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ بیت المقدس کو پنجۂ یہود سے آزاد کرانے کے لیے مسلمان اپنی تاریخ دہراتے ہیں یا نہیں ۔ اگر آج مسلمان حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی روایات دہرانے کا عزم کرلیںتو کوئی یہودی غزہ میںبسنے والے کسی مسلمان پرزیادتی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔اللہ تعالیٰ مسلمان حکمرانوںکو جرأت فاروقی ؓ اور جذبہ ایوبی ؒکا ترجمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)