11مئی 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف ایک مرتبہ پھر ملک کے وزیراعظم بننے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن تحریک انصاف نے بعض حلقوں کے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر دیا۔ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن)اور تحریک انصاف نے بھرپور تشہیری اور انتخابی مہم چلائی۔ عمران خان انتخابات سے قبل توقع کر رہے تھے کہ ان کی جماعت نمایاں کامیابی حاصل کرلے گی مگر ایسا نہ ہوسکا اورنتائج ان کی توقع کے برعکس نکلے ۔عمران خان کا یہ موقف تھا کہ ان کی جماعت کوایک منظم سازش کے تحت ہرایا گیااوروہ کم ازکم چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے ذریعے ووٹوں کی پڑتال کروانا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کا دعویٰ تھا کہ ان کو انتخابات میں عوام نے ووٹ دیئے اور وہ جعل سازی کے ذریعے نہیں بلکہ شفاف طریقے سے کامیاب ہوئے ۔دونوں جماعتیں اپنے اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔عمران خان راست اقدامات کا الٹی میٹم دیتے رہے مگر ان کی رائے اور بیانات کو روایتی سیاسی بیانات سے تعبیر کیا گیا اور سیاست میں دباؤ کی ایک تکنیک تصور کیا گیا ۔مسلم لیگ(ن)کے رہنما سمجھ رہے تھے کہ عمران خان یہ بیانات مستقبل کی منصوبہ بندی کے تحت دے رہے ہیں۔ تاہم عمران خان کے رویے میں بتدریج تبدیلی آتی چلی گئی اور گزشتہ چند ماہ کے دوران ان کے لب و لہجے میں شدت اور سختی محسوس ہونے لگی ۔گزشتہ انتخابات کے بعد چار حلقوںمیں دوبارہ گنتی نہ ہونے پرعمران خان بہت تلخ ہو تے جارہے تھے اور انہوں نے رفتہ رفتہ پورے انتخابات اور انتخابی عمل پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا اور مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کر دیا ۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے عمران خان کو اسمبلی کے فلور پر آکر مذاکرات کرنے کی دعوت اور ترغیب دی لیکن خان صاحب اس پیشکش کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ انہوں نے اس وقت اپنے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 14اگست کو لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔
مسلم لیگ(ن)عمران خان کے مطالبے کو ناجائز قرار دے رہی ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا کہنا ہے کہ عوام نے ان کو آئندہ پانچ برسوں کے لیے منتخب کیا ہے اور انہیں اپنی مدت پوری کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ میاں محمد نواز شریف عمران خان کے احتجاج کو غیر جمہوری ہتھ کنڈے سے تعبیر کر رہے ہیں اور ان کا یہ گمان ہے کہ بعض نادیدہ طاقتیں عمران خان کو استعمال کر رہی ہیں ۔
اس وقت وزیراعظم نوازشریف عمران خان کے احتجاج کی وجہ سے شدیدسیاسی دباؤ کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں بہت سے بنیادی مسائل حل طلب ہیں اور ان مسائل کے حل کے حوالے سے انتخابات کے بعد سے لے کر تاحال خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہو سکی ۔پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی طرح موجودہ دور حکومت میں بھی توانائی کا بحران جاری و ساری ہے ۔بد امنی ،بے روزگاری اور اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر بھی قابو نہیں پایا جاسکا۔رمضان المبارک کے مہینے میں بھی لوڈ شیڈنگ مسلسل جاری رہی اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
ان وجوہ کی بنیاد پرعوام موجودہ حکومت سے بھی بدگمان نظر آتے ہیں۔عوام کا یہ خیال ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح وقت گزاری کی پالیسی پرعمل پیراہے اور حکمرانوں کو عوامی مسائل کے حل سے کہیں زیادہ اپنے اقتدار کو طول دینے میں دلچسپی ہے ۔ عمران خان کے احتجاج کو اس لیے بھی تقویت حاصل ہوئی کہ موجودہ انتخابی نظام میںاصلاحات کی وسیع پیمانے پر گنجائش موجود ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری ذرائع اور اثرورسوخ کا انتخابی نتائج پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے ۔عوام چاہتے ہیں کہ ان کی رائے اورانتخابی نتائج میں مطابقت ہونی چاہیے اور دباؤ اور اثرورسوخ کے ذریعے انتخابی نتائج میں کسی قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہو نی چاہیے ۔
چند مذہبی جماعتیں ابھی تک شمالی وزیرستان آپریشن پر تحفظات رکھتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ،مولانا سمیع الحق ، جماعت اسلامی اورراقم الحروف سمیت بہت سے مذہبی عناصر اس نقطہ نظر کے حامل ہیںکہ آئی ڈی پیزکا مسئلہ اور دیگر بہت سے موجودہ مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کیا گیا۔اسی طرح تحفظ پاکستان قانون پر بھی شدید قسم کے تحفظ کا اظہار کیا جا رہاہے۔ مذہبی جماعتیں ان معاملات پر مسلم لیگ(ن) کے طرز عمل سے بدگمان ہیں اور مسلم لیگ(ن) ان معاملات پر تنہائی کا شکار ہے جبکہ تحریک انصاف کا موقف ان معاملات پر مذہبی جماعتوں کے قریب تر ہے ۔وزیر اعظم کی یوتھ لون سکیم پر بھی مذہبی طبقات میں شدید قسم کی مخالفت پائی جاتی ہے اور مذہبی رہنماؤں اور علماء کا موقف یہ ہے کہ یوتھ لون سکیم کے ذریعے سود کی ترویج کی جارہی ہے ۔مسلم لیگ(ن)سے اس موقع پر بہت بڑی سیاسی غلطی یہ بھی سرزد ہوئی کہ انہوں نے عمران خان کے احتجاج پر سیاسی رویہ اختیار کرنے کی بجائے اسلام آباد فوج کے حوالے کر دیا جو کہ سول اور سیاسی انتظامیہ کی معاملات پر کمزور گرفت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔مسلم لیگ(ن) کو ماضی کی بعض حکومتوںسے سبق حاصل کرنا چاہیے تھاکہ جنہوں نے احتجاجی جلسے اورجلوسوں کو کھلے دل سے برداشت کیا اور احتجاج کرنے والے احتجاجی پروگراموں کے بعد واپس لوٹ آئے ۔میاں محمد نوازشریف خود بھی سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کی بحالی کے لیے ایک لانگ مارچ کر چکے ہیں اس لیے انہیں سیاسی سرگرمیوںکو کھلے دل سے برداشت کرنا چاہیے ۔
عمران خان کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) عوامی تحریک کی احتجاجی سیاست سے بہت زیادہ تناؤ کا شکار ہے۔ عوامی تحریک کے سربراہ نے ابتدائی طور پر سیاست کی نفی کی تھی جس پر بہت سے سیاسی اور مذہبی کارکنوں نے ان کی رائے کو مسترد کر دیا تھا لیکن بعد ازاں انہوں نے موجودہ انتخابی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا او ر اس کو انتظامیہ ،پولیس اور پٹواریوں کا انجینئرڈ انتخابی عمل قرار دیا ۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ انتخابی نظام کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اس مشن کو لے کر وہ جب بیرون ملک سے پاکستان آئے تو ان کی پرواز کا رخ اسلام آباد سے لاہور کی طرف موڑ دیا گیا جس کی وجہ سے ماحول میں خاصی گرما گرمی پید اہوگئی۔ اس دوران ان کے اور حکومت کے درمیا ن مخالفانہ بیانات کا بھی تبادلہ ہوتا رہا۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور رہنماؤںنے مجھ سے بھی اپنے پروگرام کے حوالے سے رابطے کیے لیکن میں اور میرے رفقاء بہت سی وجوہ کی بنا پر ان کے روڈ میپ سے مطمئن نہیں ہو سکے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد موجودہ انتخابی نظام کو تبدیل کر نا چاہتی ہے اور لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ ان کے مسائل کے حل کے لیے ملک میں نمایاں سیاسی تبدیلی نظر آنی چاہیے ۔ ملک میں انقلابی تبدیلی لانے کے دعویدار عوامی تحریک کے سربراہ دو دفعہ انقلاب لانے کی کوششیں کر چکے ہیں لیکن اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ق)اور شیخ رشید کی معیت میں انقلابی مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ عمران خان اور ان کے درمیا ن رابطوں کی افواہیں پورے عروج پر ہیں ۔
مسلم لیگ(ن) اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچوں کو روکنے کی تیاریوں اور کوششوں میں مصروف ہے۔ اس سیاسی کشمکش کا حتمی نتیجہ چندہفتوں میں عوام کے سامنے آجائے گا۔ سیاسی تبدیلی آنے سے کیا عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب حکومت کے ساتھ ساتھ احتجاج کرنے والوں کے پاس بھی نہیں ہے ۔