دنیا میں ہدایت کے دو ہی اہم مراکز رہے ہیں، ایک حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھم السلام کا تعمیر کیا ہوا گھر بیت اللہ اور ایک حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولادکی سر گرمیوں کا مرکز بیت المقدس ۔حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاق ؑ نے اپنی اولاد کو اسی دین پر چلنے کی دعوت دی جس پر حضرت ابراہیم ؑ چلتے رہے ۔حضرت ابراہیم ؑ کی نسل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی نشرواشاعت کے لیے منتخب فرمالیا ۔ چنانچہ آلِ اسحاق میں سے ہزاروں کی تعداد میں انبیاء علیھم السلام دعوت الی اللہ کا فریضہ سر انجام دیتے رہے ۔جبکہ حضرت اسماعیل ؑکی اولاد میں سے اللہ تعالیٰ نے آخری نبی الزماں امام کائنات حضرت محمد ﷺ کو معبوث فرمادیا ۔حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد کی نشانیاں پچھلی الہامی کتابوں میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود تھیں ۔چنانچہ یہودیوں کے کئی ممتاز قبیلے مدینہ منورہ کے گردونواح میں صرف رسول اللہ ﷺ کی آمد کے انتظار میں آباد ہوئے تھے ۔ان قبائل کو اس بات کا پختہ یقین تھا کہ رسول اللہ ﷺ کھجوروں والی سرزمین میں ہجرت فرمائیں گے اور وہ ان کی صحبت سے فیض یاب ہونا چاہتے تھے ۔جب نبی کریم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو یہودی آپ ﷺکی سیرت اورخصائص کو دیکھ کر پہچان گئے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں لیکن ان کے لیے اس حقیقت کو قبول کر نا انتہائی مشکل تھا کہ رسول اللہﷺ کا تعلق آل اسحاق کی بجائے آل اسماعیل ؑ کے ساتھ تھا ۔ہزاروں کی تعداد میں اسرائیلی انبیاء علیھم السلام کو دیکھنے کے بعد یہودی اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم ؑ کے بڑے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی نسل میں سے ایک ہستی کو انسانیت کی امامت و قیادت کے لیے منتخب فرمالیں گے ۔
تاریخ انسانیت میں خاندانی تعصب کی وجہ سے حق کو جھٹلانے کی اتنی بڑی مثال نہیں ملتی کہ نبوت کی ساری علامتوں کو پا لینے کے باوجود صرف حسداور بغض کی وجہ سے کسی عظیم نبی کی نبوت و رسالت کا انکار کر دیاجائے۔ یہودیوں نے اس تعصب کو صرف حضرت رسول اللہ ﷺ کے انکار تک محدود نہیں رکھا بلکہ حضرت جبرائیل ؑ کی ذات کوبھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف آلِ اسحاقؑ کی بجائے آلِ اسماعیل ؑکے عظیم فرد پر وحی کا نزول فرمادیا ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وضاحت فرمائی کہ حضرت جبرائیل ؑ اللہ تعالیٰ کے حکم پر وحی کا نزول فرماتے ہیں اور حضرت جبرائیل ؑاور حضرت میکائیل ؑ کے مخالفین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ''جواللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، حضرت جبرائیل ؑاور حضرت میکائیل ؑ کا دشمن ہے توپس بے شک اللہ تعالیٰ کافروں کا دشمن ہے ‘‘۔یہودیوں نے نبی علیہ السلام کے انکار پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رسول ﷺ اور ان کے ساتھیوںکو ایذا دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔ مسلمانوںکے ساتھ صلح جوئی سے رہنے کی بجائے ریاست مدینہ کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف رہے ۔یہودی رہنماؤں کی چیرہ دستی کی وجہ سے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں اور خیبر کے مقام پر فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں خیبر کامتکبر یہودی سردار مرحب ،سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار کی زد میں آکر واصل جہنم ہوگیا ۔
یہودی مغلوب ہونے کے باوجود اپنی سازشوں میں مصروف رہے اور بجائے اصلاح پسندی اورصلح جوئی پر مبنی رویہ اختیار کرنے کے رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنے کی سازشیں کرتے رہے ۔کبھی آپ کے کھانے میں زہرملا دیا ، کبھی آپ ﷺ پر جادو کا وار کیا،لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نبی کریم ﷺ کو ہر حملے سے محفوظ و مامون فرمالیااور یہودی ناکام اور نامراد رہے ۔نبی کریم ﷺ کی توہین کا ارتکاب کرنے کی پاداش میں بعض نمایاں یہودی سردار عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے ۔نبی کریم ﷺ نے یہودیوں کی سازشی اور مکارذہنیت کو دیکھتے ہوئے اپنی حیات مبارکہ میں ہی وصیت فرمادی کہ انہیں جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے ۔ چنانچہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے انہیں جزیرۃ العرب سے بے دخل کر دیا ۔
نبی کریم ﷺ کی رحلت کے بعد بھی یہودی مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار رہے اور مسلمانوں کے ہر مخالف کے ہاتھ مضبوط کرنے کی جستجو کرتے رہے ۔خلافت اسلامیہ کی موجودگی میں یہودیوں کی سازشیں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ خلافت کے ٹوٹنے کے بعد یہودی اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ اوطان اور اقوام میں تقسیم ہوجانے والے مسلمانوں پر ضرب کاری لگانے کاوقت قریب آچکاہے ۔چنانچہ انہوںنے مسلمانوںکے خلاف اپنی قوت کو منظم کرنا شروع کر دیا ۔یہودی اُمت مسلمہ کی طاقت اور وسائل کے تقسیم ہونے کے بعدحوصلہ پکڑ چکے تھے ۔چنانچہ انہوںنے منظم طریقے سے ارضِ فلسطین کو اپنے ہدف کا نشانہ بنانے شروع کیا۔وسیع پیمانے پر دنیا بھر سے یہودیوں نے ایک مذہبی اورقومی فریضے کے تحت فلسطین اور القدس کے گردونواح میں نقل مکانی کرنا شروع کر دی۔ ان کی وسیع پیمانے پر نقل مکانی کو دیکھ کر بھی مسلمان خاموش تماشائی بنے رہے ۔ان کا یہ گمان تھا کہ یہودیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی القدس کے لیے خطرہ نہیں بن سکتی لیکن وہ یہودیوں کے عزائم اور سازشوںکا صحیح ادراک نہ کر سکے اور بالآخر خواب غفلت میں سوئے ہوئے مسلمانوںکووہ المناک وقت دیکھنا پڑاکہ جب یہودی اپنے خوابوں کی تعبیر ارضِ اسرائیل کے قیام میں کامیاب ہو گئے ۔یہودیوں کی یہ فوجی اور سیاسی کامیابی مسلمانان ِعالم کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی تھی۔لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ مسلمانانِ عالم اس چیلنج سے صحیح معنوں میں عہدہ برا نہ ہو سکے ۔حجاز مقدس کے بعد اپنے سب سے مقدس مقام ارضِ فلسطین اورمسجد اقصیٰ کو یہودیوں کی گرفت میں جاتے دیکھ کر بھی مسلمان حکمران خاموش تماشائی بنے رہے ۔ سیاسی بیانات اور قراردادوں سے بڑھ کر مسلمان عملی طورپر القدس کے لیے کچھ نہ کر سکے ۔
مسلمان اقوام متحدہ کے ضابطوں کے پابند بنے رہے اور اسرائیل کے جنگی جنون میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔مسلمان دہشت گردی کے الزامات سے بچنے کی کوششوںمیںمصروف رہے اور غزہ کی پٹی یہودیوںکی شقاوت اور ظلم و بربریت کا نشانہ بنتی چلی گئی ۔ا س وقت عالم یہ ہے کہ ہر روز بوڑھوں کی داڑھیاں نوچی جا رہی ہیں ،بچوں کو تسلسل کے ساتھ ذبح کیا جارہے اور ماؤں بہنوں کی چادروںکی عصمت کی بے حرمتی کی جارہی ہے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوںکاقبلہ اوّل بیت المقدس (حیی علی الصلاح)اور (حیی علی الفلاح ) کے پر روح کلمات کو سننے کے لیے ترس رہاہے۔ رمضان کے ایام میں دنیا بھر کی مسجدوں کے برعکس تراویح کے اوقات میں القدس نمازیوں کی تلاش میں رہا ۔صحن بیت اللہ اور صحن مسجد نبوی ﷺتو نمازیوں سے پر رہیں لیکن بیت المقدس کا صحن احساس تنہائی کی وجہ سے اُداس ہے ۔
مسجدیں اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن القدس میں تو ویرانی ہی ویرانی ہے ۔جس مسجد میں نبی آخر الزماںﷺ نے انبیاء علیھم السلام کی امامت کروائی تھی آج وہ مسجد قرآن مجیدکی تلاوت کرنے والے قاریوں کی منتظر ہے ۔مسلمانوںکی غفلت اور مدہوشی کی وجہ سے کعبۃ اللہ کی عظیم بیٹی سسک رہی ہے لیکن ان سسکیوں کو سننے کے لیے فاروق اعظم ؓ ،صلاح الدین ؒ اور شاہ فیصل مرحوم ؒ جیسے حکمرانوںکی ضرورت ہے ۔ اٹھارہ سو سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں چار سو سے زائد معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ غزہ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں آگ اور بارود میں ڈھکا رہا۔ لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے۔ کھانے پینے کی اشیا پر پابندی لگا دی گئی۔ گویا جو ظلم ہو سکتا تھا وہ ان مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا لیکن ان کی مدد کو کوئی نہ آیا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو القدس کی تنہائی اور ویرانی پر زبانی بیان بازی کی بجائے عملی اقدامات کرنے کی توفیق دے تاکہ القدس کا دامن ایک مرتبہ پھر نمازیوں سے بھر جائے اور بیت المقدس کے میناروں سے ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی صدا بلند ہو جائے ۔(آمین)