انسان کی یہ فطرت ہے کہ جب وہ بہت زیادہ پریشان او ر مضطرب ہو جاتا ہے تو پریشانی ،غم اور بے سکونی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ا للہ تعا لیٰ کی طر ف رجو ع کرتا ہے ۔جب انسان اپنے خالق و مالک کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور فرما کر اس کے دل و دماغ کو امن و سکون سے بھر دیتے ہیں ۔ کئی لوگ عمر رسیدہ ہو جاتے ہیں تو جوانی کی غلطیوں کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔بڑھاپے میں اللہ کی بارگاہ میں مسلسل گڑگڑانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بے چین دلوںاور بے قرارروحوں کو سکون عطا فرما دیتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر سورہ رعد میں یوں کیا ہے '' جو لو گ ایمان لاتے ہیں اپنے دلوں کواللہ کے ذکر سے مطمئن کر لیتے ہیں۔کیا اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا ‘‘۔ انسان کے دل کی گھبراہٹ اور روح کی تشنگی کا موثرترین علاج اللہ تعالیٰ کی یاد میں پنہاںہے ۔اگر عبادت اور رو حانیت میں تاثیرنہ ہوتی اورانسان فقط اپنے جسمانی تقاضوں کو پورا کرکے اپنی نفسیاتی الجھنوں پر قابو پانے میں قادر ہوتا تو دنیا میں کبھی بھی امیر اور با اثر لوگ نفسیاتی اور روحانی عارضوں کا شکار نہ ہوتے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ نفسیاتی اورروحانی عارضوں کا شکارلوگوں کی ایک بڑی تعداد صاحب حیثیت اورصاحب ثروت لوگوںپر مشتمل ہوتی ہے۔گو ان لوگوں کی زندگیوں میں مادی اعتبار سے کوئی خلا نہیں ہوتا لیکن دلوں کی بے چینی اور بے قراری کاعالم یہ ہوتا ہے کہ پُر سکون نیند کے لیے تڑپتے رہتے ہیں ۔مسکن ادویات کے سہارے زندگی گزارنے والے یہ لوگ جب مذہب اور روحانیت کے قریب آتے ہیں تو ان کی زندگی کے سارے دکھ درداور غم کافورہو جاتے ہیں ۔
مذہب جہاں پر انسان کی روحانی اور نفسیاتی تکلیفوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہیں پر اس کو اپنی بے قابو اور بے ہنگم خواہشات پر قابو پانے کے قابل بھی بنا دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ظہور جس سماج میں ہوا وہاں کے لوگ بدکاری کے خوگراور نشے میں دھت رہنے والے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر جب انہوں نے اپنے خالق سے تعلق کو استوار کیا اور مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کو بجا لانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی نفسانی خواہشات کو ان کے حواس اور اعصاب کے تابع کر دیا ۔
وہ لوگ جو زنا کاری کو معمولی برائی سمجھتے تھے ،اتنے اعلیٰ اخلاق کے حامل بن گئے کہ انہوں نے غیر عورت کو میلی نظر سے بھی دیکھنا چھوڑ دیا ۔وہی لوگ جو شراب کے نشے میں دھت رہتے تھے انہوں نے ان پیمانوں سے بھی نفرت کرنا شروع کردی جن میں وہ شراب پیا کرتے تھے ۔میلوں میں جا کر ناچنے گانے اور رقص وسرودکے نشے میں دھت رہنے والے لوگ اس قدر اعلیٰ اخلاق کے حامل بن گئے کہ فارغ اوقات میں اللہ تعالیٰ کی یاد میں محو اور مگن رہنا ہی ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن گیا ۔ اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ مذہب نے سماجی اعتبار سے بھی انسانوں کے درمیان موجود دوریوں کو ختم کیا ۔ مکہ مکرمہ میں بسنے والے مختلف قبائل میں ایک دوسرے سے نسلی بنیادوں پردوریاں تھیں۔ اسی طرح مجموعی طورپرجزیرہ نما عرب قبائلی اور خاندانی اعتبار سے تقسیم در تقسیم کا شکار تھا ۔ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کو برداشت کرنے پر اور ایک خاندان دوسرے خاندان کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا ۔نبی کریم ﷺ نے اہل عرب کو دینی اخوت و محبت سے اس طرح روشناس کروایا کہ اہل اسلام کے مابین خونی رشتوں سے بھی زیادہ قربت پیدا ہو گئی ۔
انصار اور مہاجرین کے قبائل ، طرز زندگی ،معاشی سرگرمیوں اور انداز و اطوار میںبڑا واضح فرق تھا مگر جب یہ لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو ان کے درمیان دوریاں مٹ گئیںاور سب نے محبت کے مراکز کے یکساںہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی غیر معمولی قربت کو محسوس کیا ۔
قیام پاکستان سے پہلے چلنے والی تحریک میں بھی مذہب نے کلیدی کردار ادا کیا اور برصغیر کے طول و عرض میں بسنے والے مسلمانو ں نے اپنے درمیان موجود نسلی اور علاقائی تفریق کو یکسر فراموش کر دیا ۔حضرت محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے مختلف خطبات میں بھی قیام پاکستان کی بڑی وجہ یہی بیان کی گئی تھی کہ ایک آزاد وطن کے حصول کے نتیجے میںبرصغیر میں بسنے والے تمام مسلمانوںکی مذہبی اور سیاسی محرومیوں کا ازالہ ہوگا ۔ پاکستان کا قیام کسی مخصوص قوم ، علاقے یا قبیلے کے مفادات کے تحفظ کے لیے نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ تما م مسلمانوں کا وطن اور دیس تھا ۔مذہب کی محبت کی وجہ سے بنگالی ، پنجابی ،سندھی ، بلوچی ،پٹھان اور مہاجر اس حد تک متحد ہوئے کہ نسلی اور قبائلی تقسیم کا احساس تک نہیں ہوا۔
ریاستی اموراور مذہب کے تعلق کے بتدریج کمزور ہونے کی وجہ سے بنگالی اور غیر بنگالی تنازعہ نے سر اُٹھا یا اور بدنصیبی سے مسلمان لیڈر اس تعصب پرقابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکے جس کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں نکلا اور اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع میسر آیا کہ آج میں نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غر ق کر دیا ہے ۔
سقوط ڈھاکہ کا سانحہ مذہب کی افادیت کو اجا گر کرنے کے لیے کافی تھا۔ اتنے بڑے سانحے کے رونما ہونے کے باوجود بھی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے اس نظریاتی ریاست کو قومی ریاست کی شکل دینے کی جدو جہد جاری رکھی جس کے نتیجے میں ملک کے بعض دیگر مقاما ت پر بھی متعصبانہ تحریکوں نے جنم لیا اور بعض ناعاقبت اندیش عناصر نے علیحدگی پسندنظریات کی نشرو اشاعت کی مذموم کوششیں بھی کیں جن پر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت حد تک قابو پایا جا چکا ہے ۔
گزشتہ چند ہفتوں سے ملک بھر میں سیاسی کشمکش پورے عروج پر ہے جس کی صحیح عکاسی سوشل میڈیا پر ہوتی ہے جہاں پرہر شخص اپنے لیڈر اور جماعت کی تعریفوں کے پل باندھنے میں اور مخالف لیڈر اور جماعت کی کردار کشی میں مصروف ہے۔ اس ساری کشمکش کا نتیجہ ملک میں نفرت و تعصبات کے پھیلاؤ کی شکل میں نکل رہا ہے ۔
مسلم لیگ(ن) کے ہمنوا عمران خان کے جلسوں کو بے حیائی کی نشرو اشاعت اور ترویج سے تعبیرکر رہے ہیں جبکہ تحریک ا نصاف کے ہمنوا موجودہ حکومت کو دھاندلی کی پیداوار اورامریکہ کا ایجنٹ بھی قرار دے رہے ہیں ۔کوئی شخص بھی اپنی کمزوری اور کوتاہی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور موجودہ ڈیڈلاک کاذمہ دارفریق ِمخالف کو ٹھہرایا جا رہا ہے ۔
77ء کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے جب ایک ہی قوم سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف نظریا ت میں بٹنے کی وجہ سے پارٹی بازی کا شکار ہو کر باہم دست و گریباں ہو گئے تھے ۔ ملک اس وقت جس طرح نفرت اور اور الزامات کے الاؤ میں جل رہا ہے اس کو اس وقت مذہب کے مرہم کی ضرورت ہے ۔اگر ہم سب کا رب اللہ ، ہم سب کے رسول محمد ﷺ،ہم سب کی کتاب قرآن اور ہم سب کا قبلہ بیت اللہ ہے تو پھر ہم سب کو مذہبی اور سیاسی فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن مجید میں ہر طرح کی فرقہ بندی سے بالا تر ہوکر اپنی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے وہیں پر اس نے اپنے اس عظیم احسان کا بھی ذکر کیا کہ نزول قرآن سے قبل جو لوگ ایک دوسرے کے دشمن تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا اور وہ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے ۔
دین متین انسانوں کو ظلم و جبر کا راستہ چھوڑ کر عدل و انصاف کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسی طرح خود غرضی کا راستہ چھوڑ کر ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے ۔اگر دین متین کے ان احکامات کو حکومت ،اپوزیشن اور عوام اہمیت دیں تو تلخیوں اور رنجشوں کا مداوا ہو سکتا ہے اور پاکستانی پھر ایک لڑی میں پروئے جا سکتے ہیں ۔جہاں ساری سیاسی تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں وہاں پر مذہب کا مرہم کارگر ثابت ہوتا ہے ۔ اے کاش !یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کی سمجھ میں بھی آجائے ۔