قرآن مجید دنیا کی واحد ایسی کتاب ہے جو اپنے ماننے والوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کتاب حمید میںجہاں اپنے بندوں کو بہت سی بیش قیمت نصیحتیں کی ہیں، وہاں پر اس نے انہیں حق پر کاربند رہنے اور حق پرستوں کا ساتھ دینے کا بھی درس دیا ہے ۔سورہ توبہ کی آیت نمبر119میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو !اللہ سے ڈر و اور سچوں کا ساتھ دو ‘‘۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 135میں ارشاد فرما یا ہے ''اے ایما ن والو ! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لیے سچی گواہی دو خواہ تمہارے اپنے ہی خلاف یا تمہارے رشتہ دار اور ماں باپ کے خلاف ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہو یا فقیر تو اللہ تعالیٰ ان دونو ں کا زیا دہ خیر خواہ ہے ۔ خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا ۔اگر تم لگی لپٹی کہو گے تو جان رکھو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ‘‘۔
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سمجھا دیاکہ اگر کمی کوتاہی رشتہ دار میں بھی ہو تو اس کا اعتراف کرنا چاہیے اور فقط محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کی غلط باتوں کی وکالت نہیں کرنی چاہیے ۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے محبت کی وجہ سے عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین کی ہے وہاں پر اللہ تعالیٰ نے قرآ ن مجید میں نفرت کی وجہ سے حق بات کو چھوڑنے کی بھی مذمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑ ے ہو جایا کرو اور کچھ لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف ہی نہ کرو ۔انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کے قریب تر ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے خبر دارہے ‘‘۔گویا کہ ہر صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذاتی پسند یا نا پسند سے بالا تر ہو کر حق،سچ اور عدل و انصاف کی شاہراہ پر چلتا رہے ۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل لوگ خاندانی عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے کی جانی دشمنی پر آمادہ و تیار رہا کرتے تھے ۔ مدینہ منورہ میں بسنے والے دو قبائل اوس اور خزرج کے مابین زبردست اختلاف تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کو عدل و انصاف کا درس دیا اور معاملات کو خاندا نی سطح پر دیکھنے کی بجائے اصولی سطح پر دیکھنے کا خوگر بنا دیا ۔
آپﷺ نے امیر و غریب کی تفریق کیے بغیر عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے اور بنو مخزوم کی صاحب اثر عورت کے چوری کرنے پر اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۔جب اس عورت کی سفارش کے لیے نبی پاک ﷺ کے محبوب صحابی زید بن حارث ؓ کے صاحبزادے اسامہ بن زید ؓ کو بھیجا گیا تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ''اگر میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا ‘‘۔ آپ ﷺ کا قائم کردہ معاشرہ عدل و انصاف کی اعلیٰ ترین اقدار کا حامل تھا ۔آپ ﷺ کی سنت پر چلتے ہو ئے خلفائے راشدین نے بھی عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھا ۔ حضرت عمر ؓنے اس حوالے سے خصوصی شہرت حاصل کی اور مستشرقین بھی آپؓ کے عدل انصاف کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔
مقام تاسف ہے کہ ہمارا معاشرہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو خیر آباد کہہ چکا ہے اور ہم اس وقت اس نہج پر آچکے ہیں کہ بے انصافی کا چلن زندگی کے ہر شعبے میں عام ہے ۔ لوگ سرمایہ اور تعلقات کی بنیادپر کسی شخص کی ناجائز بات کی بھی حمایت کرتے ہیں اور غریب اور اجنبی شخص کی درست بات کو بھی قبول کر نے پر تیار نہیں ہوتے ۔اس چلن نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ہمارے خاندانی اور گھریلو جھگڑوں کے پھیلا ؤ میں بھی اس ناانصافی کے چلن نے کلیدی کر دار ادا کیا ہے ۔
اس ناانصافی کی وجہ سے دیہی اور قبائلی علاقوں میں مختلف برادریاں ،قبیلے اور خاندان اپنی نسلی اور خاندانی عصبیتوں کی وجہ سے باہم دست و گریبا ن رہتے ہیں۔ کئی مرتبہ حق شناسی کے فقدان کی وجہ سے معمولی تنازعات کے نتائج بھی انتہائی خطرناک نکلتے ہیں۔یہ نا انصافی صرف خاندانی اور سماجی معاملات تک محدود نہیں بلکہ ہماری سیاست پر بھی اس کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔کسی پارٹی کاحامی اپنے لیڈر کی کمزوری کا اعتراف کرنے پر تیار نہیں۔اسی طرح مخالف پارٹی کے لیڈر کی خامیوںکو بڑھ چڑھ کر بیان کیا جاتا ہے ۔
مسلم لیگ (ن)کے ہمنوا اس وقت عمران خان کے دھرنے پر اس لحاظ سے بڑھ چڑھ کر تنقید کرتے ہیںکہ ان دھرنوں کی وجہ سے فحاشی اور بے حیائی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ یقینا بے حیائی اور فحاشی پر تنقید ہونی چاہیے مگر مسلم لیگ (ن) کے یہ ہمنوا اس وقت کہاں ہو تے ہیںجب کیبل نیٹ ورکس اور انٹر نیٹ پر فحاشی اور بے حیائی کی سرعام تر غیب دی جاتی ہے ۔ماضی میں مسلم لیگ (ن) کے زیر اہتمام یوتھ فیسٹیول کے موقع پر وہی کام کیا گیا جوا ٓج عمران خان صاحب کے دھرنے میں کیا جارہا ہے۔مقام تاسف ہے کہ آج فحاشی کی مخالفت کرنے والے اس وقت بالکل خاموش تھے ۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین اعلانیہ قحبہ گری اور زناکاری کے خلاف کیوں آواز نہیں اُٹھاتے ۔آج مولانا فضل الرحمن ،عمران خان کے دھرنے کے تناظر میں فحاشی کے خلاف آواز اُ ٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیںمگر جب جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی شراب نوشی کو بے نقاب کیا تو مولانا فضل الرحمن نے ان کے اقدام کو غیر مستحسن قرار دیا تھا ۔رانا ثناء اللہ صاحب نے فیصل آباد کے جلسے میں عمران خان پر زبردست تنقید کی ہے یہی رانا ثناء اللہ ایک نجی انٹر ویو میں موسیقی اور ڈانس سے اپنے لگاؤ اور دلچسپی کا برملا اظہار کرچکے ہیں۔ گو آج مسلم لیگ (ن) کے حامی عمران خان کی لبرل پالیسی پر تنقید کرتے ہیں لیکن جب کبھی مذہبی جماعتیں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہیں تو اس وقت یہی مسلم لیگی رہنما اور ان کے ہمنوا پاکستان کو ملائیت اورتنگی نظری سے پاک کرنے کی بات کرتے ہوئے ان قوانین کے نفاذ پر تیا رنہیں ہوتے ۔ یہی حال عمران خان صاحب اور ان کی جماعت کا بھی ہے۔ عمران خان صاحب کے لوگ مالی کرپشن اور دھاندلی کے خلاف تو صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر اخلاقی کرپشن کے حوالے سے ان کے ہاںکوئی کچھ پروگرام نظر نہیں آتا ۔حقیقت یہ ہے کہ جس طرح مالی کرپشن ایک ناسور ہے اسی طرح اخلاقی کرپشن بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے ۔
ملک کی سیاست اس وقت ذاتی پسند اور نا پسند کے گرد اس طرح گھوم رہی ہے کہ جو چیز اپنے لیے جائز ہے وہ دوسروں کے لیے ناجائز سمجھی جارہی ہے اور جو اپنے لیے درست ہے وہ غیروں کے لیے غلط تصور کی جارہی ہے ۔اس پارٹی بازی کی وجہ سے لوگ صحیح اور درست کا انتخاب کرنے سے قاصر ہو چکے ہیں ۔ شخصیت پرستی اور دھڑے بندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور ہماراملک بے چینی اور افراتفری کی لپیٹ میں آتا جاتا ہے ۔ اس ساری صورتحال کا اصل سبب تعصب اور غیر منصفانہ رویہ ہے۔ ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ جائز مطالبہ خواہ کسی کا ہو اسے تسلیم کیا جائے اور ناجائز کام خواہ کوئی کرے اس کی مذمت کی جائے ۔
عصری سیاست کی زلفیں سنوارنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کو انتخابی اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے اور دھاندلی کے حوالے سے لگنے والے الزامات کا آج بھی اور مستقبل میں بھی ازالہ کرنا چاہیے۔ حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کرے ۔اسی طرح عمران خان صاحب کو اپنی جماعت کو ڈانس اور بھنگڑوں سے دور رکھتے ہوئے ،ذاتی انانیت سے بالاتر ہوکر ،سیاست کو اصولی بنیادوں پر کرنا چاہیے۔ جب کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو بلند بانگ دعوے کرنے کی بجائے اپنی باتوں پرپہرا دینا چاہیے اور باقی دینی جماعتوں کی طرح جمہوریت سے کہیں بڑھ کر نفاذ اسلام کا مطالبہ ترجیحی بنیادوں پر کرنا چاہیے۔ یہ جبھی ممکن ہوگا جب ہم تعصب اور ضد کی روش کو چھوڑ کر عدل وانصاف کے راستے کو اختیار کریں گے ۔ عدل و انصاف کے ذریعے ہی ہمارے خاندانی ،معاشرتی اور سیاسی بگاڑکا علاج ہو سکتا ہے وگرنہ تعصبات ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے اور ہم طاقتو ر اور صحت مند قوم بننے کی بجائے اندرونی طور پر کھوکھلے ہوتے چلے جائیں گے۔