7ستمبر1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے عقیدہ ختم نبوت سے انحراف کی وجہ سے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیاتھا۔ ختم نبوت سے انکارکرنے والے لوگ در حقیقت قرآن وسنت کے واضح دلائل کو نہیں مانتے۔ نبی کریم ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ اللہ نے نبی آخرالزماں کو مشرق و مغرب، شمال و جنوب، کالوں اورگوروں، امیر و غریب اور قیامت تک آنے والے ہر انسان کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمادیا اور سورہ اعراف کی آیت 158اور سورہ سبا کی آیت 28 میں واضح فرمادیاکہ رسول اللہﷺ جمیع انسانیت کے لیے اللہ کے پیغمبر ہیں اور تمام انسانیت کے لیے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔
مذکورہ آیات واضح کرتی ہیںکہ جمیع انسانیت کی ہدایت اور نگہبانی کے لیے اب کسی رسول اور نبی کی ضرورت نہیں،اس لیے کہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ جناب رسول اللہ ﷺ کو تفویض فرماچکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت 40 میں بھی واضح فرمادیا کہ ''محمد(ﷺ )تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیزکو جاننے والا ہے‘‘۔ یعنی جس طرح وہ کسی مردکے باپ نہیں ،اسی طرح آپﷺ کے بعدکوئی نبی بھی نہیں ہوسکتا۔ ختم نبوت کا انکارکرنے والے گروہ نے آیت میں ''خاتم النبیین‘‘ کا ترجمہ نبیوںکی مہرکرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ ہرذی شعوراس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کسی چیز پر مہر اس کی تکمیل کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔ جب کسی پیمانے یا دستاویزکو سیل بند کردیا جاتا ہے تو مہرکوتوڑے بغیر اس میں کسی چیزکو داخل نہیں کیا جاسکتا۔ جب نا مکمل چیز پر مہر نہیں لگ سکتی اور مہر لگ جانے کے بعد اس میں کو ئی چیز داخل نہیں ہوسکتی تو یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ کے آنے کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے اور آپ ؐکی آمد کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہوسکتا۔ یہی گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ دنیا میں تشریف آوری کو بنیاد بناکر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اگرحضرت رسول اللہ ٖﷺکے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیو نکر آئیں گے۔ انہیں معلو م ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت حضرت رسو ل اللہ ﷺ سے پہلے ملی اور آپ کے زندہ آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کے بعداس دنیا میں دوبارہ ناز ل ہونے سے حضرت رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی نئے شخص کو نبوت ملنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ جب نبوت کادروازہ بند ہوا تواس سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی بن چکے تھے۔ نبوت کا دروازہ بند ہوجانے کے بعدکسی کو نبوت ملنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
جہاں قرآن مجید نے مسئلہ ختم نبوت کو واضح کردیا وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ بعض احادیث درج ذیل ہیں :
صحیح بخاری و صحیح مسلم ،مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبری للبیہقی میںحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری اور سابق نبیوں کی مثال ایک شخص کی ہے جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوب صورتی پر تعجب کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک تیس بڑے جھوٹے نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگاکو وہ اللہ کا رسول ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنانائب مقررکیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکرجانا چاہتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیںکہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ ؑکی ہارون ؑ سے ہے مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعد کوئی نبی تو نہیں ہوگا تاہم خلفاء ہوںگے اورتعداد میں بہت ہوںگے۔
صحیح بخاری میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت نقل کی جس میں نبی ﷺ نے اپنے متعدد نام بتائے جن میں سے ایک نام عاقب ہے جس کا مطلب نبی ﷺ نے یہ بتلایا کہ عاقب وہ ہے جس کے بعدکوئی نبی نہ ہو۔
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابی عوفہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر حضر ت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ اگر رسو ل اللہ ﷺ کے بعدکوئی نبی ہوتا تو آپ کے بیٹے جناب ابر اہیم زندہ رہتے مگر ان کے بعدکوئی نبی نہیں ہے۔
صحیح مسلم میں حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں آپ نے سابق انبیاء پر اپنی فضیلت کے چھ اسباب بیان کیے اوران میںسے دواسباب یہ ہیں کہ آپ کو پوری انسانیت کے لیے بھیجاگیا اور آپ پر سلسلہ نبوت بند کردیاگیا۔
سنن ترمذی،مسند احمد اور مستدرک حاکم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا رسالت اور نبوت ختم ہوچکی اور میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں ہوگا ۔
سنن ترمذی میں جناب عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے بعدکوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔
سنن ترمذی میں ہی ایک حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس بڑے جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
سنن ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میں آخری نبی ہوں اور تم(مسلمانو)آخری امت ہو۔
سنن دارمی کی ایک طویل حدیث کے راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نبیوں کا امام ہوں اوراس میںکو ئی فخر نہیں اور میںآخری بنی ہوں اس میںکوئی فخر نہیں ۔
مسند احمدکی ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں، آپ بیان کرتے ہیںکہ ایک مرتبہ نبی ﷺ ہمارے پاس اس انداز میں تشریف لائے گویا وہ ہم سے رخصت ہونے والے ہوں۔ آپ نے اس موقع پر تین مرتبہ ارشاد فرمایا: ''میں محمد ﷺ نبی امی ہوں اور میرے بعدکوئی نبی نہیں ہے‘‘۔
کنز العمال میں حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں بتایا :''آدم پہلے نبی اور آخری نبی محمد ﷺ ہیں‘‘۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں قتادۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میں نبیوں میں سے آخری ہوں۔
ابن عدی کی الکامل میں روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بہترین انسان ہیں مگر وہ نبی نہیں ہیں۔
ان احادیث سے ثابت ہوجاتا ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعدنہ کوئی نبی ہے اور نہ ہی کوئی امت ۔ اگر آپ کے بعدکوئی نبی ہوتا تو حضرت ابو بکر،حضرت عمر،حضرت علی یا آپ کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہم ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات پر نبوت اور رسالت کا دروازہ بندکرکے آپ کو خاتم النبین بنا دیا۔ اب پوری انسانیت کوکسی نبی کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے قیامت تک کے لیے قرآن و سنت کافی ہے۔ اللہ ہمیں عقیدہ ختم نبوت کا صحیح فہم اور شعور نصیب فرمائے اور وہ لوگ جو اس عقیدے کا انکار کرتے ہیں یا قرآن و سنت کے دلائل میں تحریف اور تاویل کرتے ہیںان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین!