"AIZ" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کا سیاسی منظر نامہ

حالیہ بارشوں کی وجہ سے ملک کے کئی علاقے زیر آب آچکے ہیں۔سیلاب زدگان حکومت اور معاشرے کی بھرپور توجہ کے طلب گار ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ آئی ڈی پیز کی صورتحال بھی انتہائی تشویشناک ہے ۔لاکھوں کی تعداد میں بے گھر افراد حکومت اور سماج کی توجہ سے محروم ہیں ۔اس ساری عدم توجہ کا سبب ملک میں جاری سیاسی بحران بھی ہے جو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود تاحال حل نہیں ہو سکا ۔
اخبارات اور نجی چینلز کے ذریعے پاکستانیوں کی اکثریت حکومت ،عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے موقف سے آگاہی حاصل کر چکی ہے ۔اس صورتحال کا حقیقی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے اور مسلم لیگ(ن)،عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کو اپنی رائے سے آگاہ کرنے کے لیے میں نے بھی اسلام آباد جانے کا ارادہ کیا ۔اس سفر کی بڑی وجہ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے رہنما ؤں کے مسلسل رابطے بھی تھے ۔ وہ چاہتے تھے میں اسلام آباد آکر خودساری صورتحال کا جائزہ لوں ۔
7ستمبر کی رات ایک بجے میںالہ آباد ضلع قصور میں ایک کانفرنس سے خطاب کرنے کے بعد لاہور پہنچا اور اپنے قریبی رفقاء محمد عمران اور حافظ محمد علی یزدانی کے ہمراہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گیا ۔اسلام آباد میں درجنوں کنٹینروں کو عبور کرتے اور متبادل راستوں کو اختیار کرتے ہوئے ہم تقریباً چھ بجے مری روڈ پہنچ گئے۔ ہم نے ایک ہوٹل میں چند گھنٹوں کے لیے کمرہ بک کروایا اور محو آرام ہو گئے ۔مسلم لیگ (ن)کے چیئرمین راجا ظفر الحق سے دو بجے ملاقات کا وقت طے تھا ۔لاہور سے قصور اور قصور سے لاہور اورپھر لاہور سے اسلام آباد تک کے لیے لمبا سفرکرنے کی وجہ سے گہری نیند آچکی تھی ،جب آنکھ کھلی تو ظہر کا وقت ہو چکا تھا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد راجاظفر الحق سے ملاقات کے لیے پہنچے تو کچھ تاخیر ہو چکی تھی اور وہ اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔انہوں نے اگلے دن ملاقات کا وقت طے کرلیا ۔ہم نے راجا ظفر الحق کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کرنی تھی ۔چنانچہ کھانا کھانے کے بعدہم احتجاجی دھرنوں کی طرف روانہ ہوگئے ۔عوامی تحریک کے صدر ڈاکٹر رحیق عباسی اس دوران ہم سے تین دفعہ رابطہ کر چکے تھے۔ پارلیمنٹ کے بالکل سامنے پاکستان عوامی تحریک کا احتجاجی دھرنا اور اس سے دوسری سمت کچھ ہی دورڈی چوک کی طرف پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا تھا ۔چار بجے کے قریب ہم دھرنوں تک پہنچ چکے تھے۔دونوں میں حاضری بہت زیادہ نہیں تھی ۔غالباً دھرنوں کے طویل دورانیے اور پولیس کے ساتھ ہونے والے تصادم کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد گھروں کو واپس لوٹ چکی تھی لیکن اس باوجود کئی ہزار لوگ دھرنوں میں موجود تھے۔دھرنوں کے مقامات پر پہنچنے پر عوامی تحریک کے رہنماؤں نے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس لے گئے ۔
یاد رہے عوامی تحریک کے سربراہ نے انقلاب مارچ سے قبل بھی مجھ سے رابطہ کیا لیکن میں نے بوجوہ انقلاب مارچ میںشرکت سے معذرت کر لی تھی۔ میں بطور حلیف یہاں نہیں پہنچا تھا بلکہ میرے جانے کا مقصد ڈاکٹر صاحب کے سامنے اس بات کو رکھنا تھا کہ عوام سیاسی بحران سے پریشان ہیں چنانچہ ڈیڈلاک کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ میںنے ڈاکٹر صاحب کے سامنے اپنے جذبات کو رکھا اور ان سے استفسار کیا کہ سیاسی بحران کے خاتمے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کٹ چکی ہے لیکن وزیر اعلیٰ کے استعفے پر ڈیڈ لاک ہے ۔وہ چاہتے تھے کہ میاں شہباز شریف مستعفی ہو جائیں تاکہ وہ عدالتی تحقیقات پر اثرانداز نہ ہوسکیں۔ البتہ میں نے وزیر اعظم کے استعفے کے مسئلے پر ان میںلچک دیکھی ۔ اس موقع پر میں نے ان کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ انہیں سبز انقلاب کی بجائے کتاب و سنت اور نظام خلافت راشدہ کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا ۔اگر ملک میں اسلام نافذ ہو تو کسی کا خون ناحق نہیں ہو سکتا اور ہر شخص کو اس کے دروازے پر انصاف مل سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ آپ ملکی مسائل کے حل کے لیے اپنا نقطہ نظر اس پلیٹ فارم کے ذریعے عوام کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ میں نے اس موقع پر عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قتل خواہ کسی کا بھی ہو‘ اس کی مذمت ہونی چاہیے اور میں نے قومی مسائل کے حل کے لیے کتاب و سنت کے نفاذ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان اور قرارداد مقاصدنفاذ اسلام کی ضمانت دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے 67برس بیت جانے کے باوجود ہم اس منزل سے بہت دور ہیں۔ملک میں اگر کتاب و سنت اور خلافت راشدہ کے نظام کو نافذ کر دیا جائے تو پاکستان حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بن سکتا ہے ۔
انقلاب مارچ سے فارغ ہو کر ہم نے نماز عصر ادا کی اور طے شدہ شیڈول کے مطابق آزادی مارچ کی طرف روانہ ہو گئے جہاں ہمارے استقبال کے لیے تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری موجود تھے ۔اعجاز چوہدری ہمیں عمران خان کے کنٹینر میں لے گئے جہاں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور میرے بچپن کے دوست عبدالعلیم خان نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین بھی آگئے ۔
میری عمران خان سے بڑے عرصے کے بعد ملاقات ہو رہی تھی، انہوں نے متبسم چہرے،خندہ پیشانی اور گرمجوشی سے ملاقات کی۔رسمی بات چیت کے بعدمیں نے سیاسی بحران کو جلد حل کرنے کے حوالے سے اپنے جذبات کوان کے سامنے رکھا ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد کا مقصدملک کو دھاندلی سے پاک کرنا تھا۔ وہ اپنی جدوجہد پر مطمئن تھے اور سمجھ رہے تھے کہ سارے احتجاج کے نتیجے میں ملک میں ووٹ کا تقدس بحال ہو جائے گا ۔میں نے اس موقع پر ان کے سامنے وہ بات بھی رکھی جو ڈاکٹر طاہر القادری کے سامنے رکھی تھی۔ میں نے کہا خان صاحب آپ سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کی بات تو کرتے ہیں لیکن آپ کو اسلامی ویلفیئراسٹیٹ کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا چاہیے ۔خان صاحب نے میری اس بات کو بڑی توجہ سے سنا اور مجھے یقین دلایا کہ وہ اپنی آئندہ تقریروں میں اس نکتے کو بھی ضرور اٹھائیں گے ۔9ستمبر کی رات خان صاحب نے اپنے خطاب میں اسلامک ویلفیئر اسٹیٹ کے مطالبے کو بھی رکھا ۔میں نے خان صاحب کے رفقاء کے سامنے عوام الناس کے اضطراب کو رکھااور توقع ظاہر کی کہ وہ بحران کے جلد حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے ۔میرا مشاہد ہ ہے آئندہ آنے والے ایام میں تحریک انصاف کے رہنما بھی وزیر اعظم کے استعفے سے دستبردار ہو جائیں گے اور اپنی توجہ انتخابی اصلاحات کی طرف منتقل کریں گے۔
عمران خان صاحب سے ملاقات کے بعد ہم نے نماز مغرب ادا کی اور مری روانہ ہوگئے۔ اگلے روز ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے فارغ ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن)کے چیئرمین راجا ظفر الحق سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ۔میں نے اس موقع پر راجا ظفر الحق کے سامنے دینی طبقات کے تحفظات رکھے کہ مسلم لیگ کئی مرتبہ برسراقتدار آچکی لیکن آئین میںکرائی گئی یقین دہانی کے باوجود اسلام عملی طور پر نافذ نہ ہو سکا جس کے سبب آج ہم اللہ تعالیٰ کی تائیداور رحمت سے محروم ہیں ۔راجا صاحب کے سامنے اس بات کو بھی رکھا کہ مسلم لیگ (ن)کو عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے جائز مطالبات کو تسلیم کرلینا چاہیے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شفاف انکوائری اور دھاندلی کی روک تھا م کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ عوام کا اضطراب دور ہو سکے ۔راجا ظفر الحق نے ان باتوں سے اتفاق کیا اور یہ بھی بتایا کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بہت سی باتوں پر اتفاق ہو چکا ہے اور جلد سیاسی بحران حل ہو جائے گا۔
عمران خان، راجا ظفر الحق اور ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کے بعد یہ امید ہو ئی کہ جلد ڈیڈ لاک کا خاتمہ ہو گا اور حکومت اور سیاسی رہنما دوبارہ عوامی مسائل کے حل کے لیے اپناکردار ادا کرسکیں گے جس سے بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں