ہم آئے دن اخبارات میں گھریلو تنازعات اور تشدد کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں ۔ان تنازعات کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ معاشرہ خاندانوں کے اجتماع سے تشکیل پاتا ہے ۔خاندان مختلف گھرانوں کے ملاپ سے بنتے ہیں۔ ایک نیا گھر بالغ مرد اور عورت کے نکاح سے بنتا ہے۔اگر گھر کا ماحول درست ہو تو اس سے پورا خاندان تقویت حاصل کر تا ہے اور اگر گھر میں بگاڑ اور انتشارہو تو پورا خاندان انتشار اور اضطراب کا شکار ہو جاتاہے ۔
خاندانوں کی مضبوطی اور ہم آہنگی سے سماج بھی مضبوط اور مستحکم ہو تا ہے جبکہ خاندانوں کی کمزوریوں اور بٹواروں سے سماجی قدریں بھی تنزلی کا شکار ہو جاتی ہیں ۔
اگر سماج کو مثال ایک بڑی عمارت سے دی جائے تو اس میںایک گھر کی حیثیت اینٹ جیسی ہو تی ہے ۔خوبصورت اور پختہ اینٹیں عمارت کی خوشنمائی اور دلکشی میںکلیدی کردار ادا کرتی ہیں جبکہ اس کے برعکس کچی اینٹیں عمارت کو اوربھی کمزور کردیتی ہیں ۔ہمارا معاشرہ اس وقت خود غرضی اور انانیت کا شکار ہے جس کی بہت بڑی وجہ گھریلو جھگڑے بھی ہیں ۔ ان جھگڑوں کی وجہ حقو ق زوجین کی تفہیم میں پایا جانے والا افراط و تفریط ہے ۔
حقوق زوجین کی غلط تعبیر کی بنیادی وجہ مذہب ،قوانین اور رسوم و رواج میں پائے جانے والے تضادات ہیں جن کی و جہ سے شوہر اور بیوی صحیح طریقے سے اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کا تعین نہیں کر پاتے ۔ہرفریق اپنے مفاد کے لیے مذہب، قوانین اور رسوم و رواج کو اپنی خواہشات کے سانچے میں ڈھالتا ہے اور دوسرے فریق کا استحصال کرنے کی کوشش کرتاہے۔مذہب،قوانین اور رسوم و رواج اپنے مفادات سے متصادم نظر آتے ہیں تو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہب ،قوانین اور رسوم و رواج کی من پسند تاویلات کرلی جاتی ہیں ۔اس رشتے میں بالعموم جسمانی طور پر طاقتور ہونے کی وجہ سے مرد عورت کا استحصال کرتا ہے اور یہ استحصال عورت کی مادی کمزوری کی و جہ سے کئی مرتبہ اپنی انتہا کو پہنچ جا تا ہے جبکہ اس کے برعکس بہت سی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں عورت اپنی اقتصادی خودمختاری اور مضبوط خاندان کی و جہ سے مرد کا بھرپور استحصال کر تی ہے اورمرد اپنی عزت اور وقارکی سلامتی اور تحفظ کے لیے عورت کے منفی رویوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
حقوق زوجین کے حوالے سے پائی جانے والی افراط و تفریط میں مادہ پرستی نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔مرد اپنے تعیشات کے لیے عورت کے خاندان سے اقتصادی مطالبات کرتا ہے جس کاآغاز جہیز کی طلب سے ہی ہوجاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ عورت بھی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر وقت مرد کے سامنے جائز و ناجائز مطالبات رکھتی رہتی ہے ۔ ان جائز و ناجائز مطالبات کی تکمیل کے لیے کئی مرتبہ مرد ناجائز ذرائع سے آمدن حاصل کرنے پر بھی مجبور ہو جاتاہے ۔کئی مرتبہ یہی اقتصادی کشمکش ذہنی کھنچاؤ پیدا کرتی ہے اور خاندانوں میں محبت اور الفت کی بجائے انانیت ، رقابت اور کھینچا تانی کے رجحانات پیدا ہو جاتے ہیں ۔
حقوق زوجین میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ہمارے معاشرے کو اس رشتے کی اصل کو سمجھنا چاہیے ۔قوانین اور رسوم و رواج کے مقابلے میں اس کی اعلیٰ ترین تشریح ہمارے مذہب نے کی ہے ۔یہ بات تو ہر شخص کے علم میں ہے کہ نکاح بالغ مرداور عورت کے درمیان قائم ہو نے والا مذہبی اورسماجی بندھن ہے ،جس کے بعد مردو زن اپنی پوری زندگی ایک دوسرے کی ہمراہی میں گزارتے ہیں لیکن اس بندھن کی حقیقت کے حوالے سے اعلیٰ ترین وضاحت کتاب الہٰی میں موجود ہے اور اس کی نظیر قانون کی کسی کتاب میں نہیں ملتی ۔ سورہ روم آیت نمبر 21میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے جوڑوں کو پیدا کیا تاکہ تم ان سے سکو ن حاصل کرواور اس نے تمہارے درمیا ن مودّت اور رحمت کو پیدا کیا۔بے شک اس میں نشانی ہے غور و فکر کرنے والوں کے لیے ‘‘۔آیت مذکورہ میںمرد اور عورت کو ایک دوسرے کے لیے سکون کا باعث قرار دیا اور اس کے لیے مودّت اور رحمت کے راستے کا تعین کیا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں مرد و زن کے مابین پائے جانے والے انتشار کی بنیادی وجہ اسی مودّت اور رحمت والے طرزِ عمل کا فقدان ہے ۔حقوق اور فرائض کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںوضاحت فرمائی ہے کہ ''ان کے بھی معروف طریقے پر مردوں ہی کی طرح کے حقوق ہیں ‘‘۔تاہم گھریلو ماحول میں اعتدال اور توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کویک گنا فوقیت اس لیے دی ہے تاکہ تنازعات کے حل کے لیے کسی ایک فریق کو حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جا سکے ۔اس اختیارکے تفویض کرنے کی و جہ سے کوئی بھی جھگڑا زیادہ طول نہیں پکڑ سکتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ تم میں سے بہترین شخص و ہ ہے جو اپنے اہلخانہ سے بہتر معاملہ کرنے والا ہواور آپ ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ''میں اپنے اہلخانہ سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں ‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے ساتھ بہترین معاملہ کیااور ان کو خدمات گار نہیں بلکہ صحیح معنوں میں شریک زندگی بنایا ۔آپ بھر پور ریاستی ،مذہبی اور سماجی ذمہ داریاں اداکرنے کے بعد بھی گھرکے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے ۔ گھر یلوکاموں میں آپﷺنے ان کی معاونت میں کسی بھی قسم کا عار محسوس نہیں کیا۔
مساوات مردوزن کا جدید نعرہ عورت کے حقوق کی بجائے اس کی ذمہ داریوں میں اضافے کا باعث بنا ہے جبکہ اسلام نے عورت کو اقتصادی ذمہ داریوں کا مکلف نہ ٹھہر ا کرحقیقت میں اس کے حقوق بھی پاسداری کی ہے ۔
ایک عورت جو گھریلو کاموں میں مصروف و مشغول رہتی ہے ،اپنے بچوں کی احسن انداز میں تربیت کرتی ہے ،کھانے پکانے کے معاملات کی نگرانی کرتی ہے،مرد کی آمد و رفت کے دوران اُس کا اچھے طریقے سے استقبال کرتی ہے اور اس کو بہترین طریقے سے الوداع کرتی ہے ،اگر اس پر معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جائے تو عورت کے ساتھ ناانصافی ہو گی ؛تاہم اگرایک عورت اپنی تعلیم اور فنی مہارت کے ذریعے کچھ کمانا چاہتی ہے اور اختلاط سے بچ کر اپنی ہم صنفوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے تو اسلام اس کے راستے میں رکاوٹ بھی نہیں بنتا اور اس کو کامیاب معلمہ ، مستندلیڈی ڈاکٹر اور اعلیٰ پائے کی مبلغہ بننے کی اجازت دیتا ہے ۔تاہم اگر وہ سماجی ذمہ داریاں نبھاتے نبھاتے گھریلو فرائض کے انجام دہی سے غافل ہو جائے تو اس کو کامیاب خاتون قرار نہیں دیاجا سکتا ۔
عورت مرد کی رفیق حیات ہے ،اس کی مونس و غم خوار ہے، گھر میں اس کی نائب اور معاون خصوصی ہے ،جبکہ مرد عورت کا محبوب ساتھی ،شریک زندگی ،سرپرست اور نگران ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ عورت کی بہترین طریقے سے کفالت کرے اور اس کی جملہ نفسیاتی اور مادی ضروریات کو بغیراحسان جتلائے پورا کرے اور اس کے نازک وجود کومسلنے اور بکھرنے سے بچائے ۔مرد اخلاقی بے راہ روی کے علاوہ کسی طور پر عورت کے ساتھ سختی اور تلخی کرنے کا حق نہیں رکھتا ۔ اگر ہمارے معاشرے کے مرد و زن کو اسلامی تعلیمات کا ادراک ہو جائے اور وہ صحیح معنوں میں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں تو ہمارے معاشرے سے گھریلو جھگڑوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے ۔