"AIZ" (space) message & send to 7575

اسلام کا دوام

دنیا میں بسنے والوں کی غالب اکثریت ہمیشہ کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ رہی ہے۔ملحدین کبھی بھی اپنے دلائل کے زور پر انسانیت کو ایک معبود کی ضرورت سے بے نیاز نہیں کرسکے ۔کسی بڑے صدمے کا سامنا کرنے پر بہت سے ملحدین بھی الحاد کو چھوڑ کر پروردگار عالم کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گئے ۔
مذہب کے ساتھ و ابستگی رکھنے کے باوجود مذہب کے دائرہ کار کے بارے میں اہل مذہب مختلف طرح کے نظریات کے حامل رہے ہیں۔بہت سے لوگ مذہب کو سماجی ،سیاسی اور اقتصادی زندگی سے علیحدہ رکھنے کے ہمنوا رہے ۔مذہب کی اجتماعی زندگی سے علیحدگی کا تصور کئی صدیوں قبل مسیحی معاشروں میں اُبھرا اور ریاست اور کلیسا کے مابین کشمکش کا باقاعدہ نقطہ آغاز بن گیا ۔اس کشمکش کی بنیادی و جہ مسیحیت میں رہبانیت کا سخت تصورتھا جس کے مطابق با عمل مسیحی اپنے جبلی تقاضو ں کو بھی پورا کرنے کا مجاز نہیں تھا ۔بہت سے مذہبی مسیحی بھی رہبانیت کے تقاضوں کو نبھانے سے قاصر ہو گئے جبکہ دنیا دار طبقے کے ہاں بھی مثالی مذہبی مسیحی کے تصور کے خلاف ایک بغاوت کی کیفیت پیدا ہو گئی ۔وہی مسیحی معاشرے جن کی سربراہی ایک طویل عرصے تک مذہبی طبقات کے پا س ر ہی اور مذہب کے تقاضوں کے لحاظ سے قحبہ گر ی، شراب نوشی اور حرام خوری قابل مذمت افعال رہے ،ان ہی معاشروں میں اس قدر سخت ردعمل پیدا ہو ا کہ مذہب کی اخلاقی حدود و قیود کی اہمیت بھی ختم ہوگئی ۔
انقلاب فرانس کے بعد مادہ پرستی اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور صنعت کاری اورتجارت کی ہر جائز و ناجائز شکل نے یورپی معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔خلاف فطرت پابندیوں کے نتائج اتنے ہولناک نکلے کہ کسی بھی اعتبار سے جبلی تقاضوں کو پورا کرنا معیوب نہ رہا ۔زناکاری ،ہم جنس پرستی اور دیگر گھناؤنے جنسی افعال کو رفتہ رفتہ قانونی تحفظ حاصل ہو گیا ۔انسان کی خواہش ہی اس کا بنیادی حق بن گئی اور وحی اور الہام کے اخلاقی ضابطے صرف مقدس صحیفو ں کا حصہ بن کر رہ گئے اور عام انسانوں کا ان پر عمل نہ ہونے کے برابر رہ گیا ۔یورپ نے مادی اعتبار سے تو ترقی کی لیکن جدید یورپی معاشرے روحانی تشنگی دور کرنے کا اہتمام نہ کر سکے اور کلیسا کے کمزور کردار کی وجہ سے مذہب پسند مسیحی بھی عملی طور پر مسیحیت کے قریب نہ آسکے ۔دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمان جب اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یورپ جاکر آبا د ہو ئے تو ان کے ذریعے جدیدیورپی معاشروں کو قرآن سے شناسائی حاصل ہو ئی ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کا ایک نتیجہ وسیع پیمانے پر افکار کے تبادلے کی شکل میں بھی نکلا اور گزشتہ چند برسو ں کے دوران قرآن کی دعوت یورپ میں پوری قوت سے داخل ہو گئی ۔
قرآن مجید کی آفاقی دعوت فطرت انسانی کے عین مطابق تھی ۔ اس میں جبلی تقاضوں کو دبانے کی بجائے اعتدال سے پورا کرنے کا درس تھا ۔اس میں ترک دنیا کی بجائے بھرپور سماجی زندگی گزارنے کا سبق تھا ۔اس میں تجارت ، اقتصادیات اور سیاسیات کے اعلیٰ اصولوں کا بیان تھا جن پر عمل پیرا ہو کر کوئی بھی معاشرہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل بن سکتا ہے ۔چنانچہ یورپ میں روحانی تشنگی کا شکار لوگوں کی بڑی تعدادحلقہ بگوش اسلام ہو گئی ۔
یورپ ،امریکہ اور کینیڈا میں اسلام قبول کر نے والے نمایاں لوگوں میں یوسف ایسٹس ،عبدالرحیم گرین ، یوسف چیمبرز ،بلال فلپس ، جان فاؤنٹین ، ایوان ریڈلی اور لارن بوتھ شامل ہیں ۔ ان تمام لوگوں نے اس وقت اپنے آپ کو دین کی تبلیغ کے لیے وقف کیا ہوا ہے اور ہمہ وقت اپنے ہم عصر لوگوں کو دین کی دعوت دینے میں مشغول رہتے ہیں ۔یورپ اور امریکہ کے نو مسلموں کے برعکس اس وقت مسلمان معاشروں میں مذہب کے دائرہ کارکے حوالے سے مختلف قسم کے نظریات سامنے آتے رہتے ہیں ۔ دین کی تعلیم سے بے بہر ہ لوگوں کی بڑی تعداد قرآن و سنت کی روشن تعلیمات سے سماجی ،اقتصادی اور سیاسی زندگی کو علیحدہ کرنا چاہتی ہے۔ان کا یہ گمان ہے کہ جس طرح مسیحیت یورپی معاشروں کی کج روی اور تشنگی کو دور کرنے سے قاصر رہی اسی طرح شاید اسلام بھی عہد جدید کے چینلجز کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسیحیت کے برعکس اسلام اپنے دور آغاز ہی میں ایک سماجی اور سیاسی قوت رہا ہے اور خودپیغمبرِاسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ روحانی رہنماکے ساتھ ساتھ حجاز اور یمن کے حاکم بھی تھے ۔آپ ﷺ نے ایک حاکم اور قاضی کی حیثیت سے عوامی مسائل اور تنازعات کا حل فرمایا اور نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے رجوع کا طریقہ اور عامتہ الناس کی اقتصادی محرومیوں کا حل تجویز فرمایا ۔رسول کریم ﷺ کے بعد کا تیس سال کا دور خلافت راشدہ کا دور ہے ۔خُلفاء راشدین نے مثالی حکومت کی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صداقت ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عدالت ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخاوت اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت تاریخ کا روشن باب ہے ۔خلفاء راشدین نے قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست کی عملی تصویر اہل اسلام اور غیر مسلموں کے سامنے رکھی ۔ان کی سادگی اور عدل و انصاف کو صرف مسلمانوں نے ہی نہیں سراہا بلکہ دنیا بھر کے انصاف پسند غیر مسلمانوں نے بھی ان کی حکومت کو مثالی حکومت قرار دیا ۔
رسول اللہ ﷺ نے تجارت میں حرام و حلال کے جو اصول متعارف فرمائے وہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک حجت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔سود کی جن قباحتوں سے آپ ﷺ نے انسانیت کوچودہ سو برس قبل آگاہ کیا وہ آج بھی ماہرین اقتصادیات کو ورطہ حیر ت میں ڈال دیتی ہے ۔ملاوٹ، ذخیرہ اندازی، جوا،قماربازی اور ناپ تول میں کمی کی آپ ﷺ نے بھر پور طریقے سے مذمت کی اور سودا گروں کو تجارت کے اعلیٰ ترین اصولوں سے روشناس فرمایا ۔
سماجی سطح پر حجاب کی حوصلہ افزائی اور اختلاط کی حوصلہ شکنی کا بہت بڑا مقصد انسانیت کو بد اخلاقی اور بے راہ روی سے بچانا تھا ۔ حجاب اور پردے کی و جہ سے عورت کی عزت و ناموس کو ہمیشہ کے لیے محفوظ و مامون فرما دیا گیا ۔
وراثت کے ایسے قوانین متعارف فرمائے ،جن میں چھوٹے بڑے کی تفریق کے بغیر ہر فرد کو یکساں طور پر مرحوم والد اور والدہ کے مال میں حصہ دار بنا دیا گیا یہاں تک کہ بیٹی کو بھی حق وراثت سے محروم نہیں کیا گیا ۔شرعی قوانین کا بنیادی مقصد بھی ایک مثالی سماج کو قائم کرنا تھا ۔زنا کی حد کا مقصد ہربدنیت انسان کو متنبہ کرنا تھا کہ سماج میں عورتوں کی آبر و ریزی کرنے والے کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ،چوری کی حد کا بنیادی مقصد بلا تفریق مذہب ہر انسان کے مال کا تحفظ کرنا تھا ،شراب کی حد کا مقصد ہر انسان کی عقل کو فتور سے بچانا تھا ،قانون قصاص کا مقصد معاشرے سے اشتعال انگیزی کا خاتمہ کرنا تھا ،اسی طرح حد قذف کا مقصد معاشرے سے الزام تراشی اور افواہوں کا خاتمہ کرنا تھا ۔
شرعی قوانین کے فوائد سے صرف مسلمان بہرہ مند نہیں ہوتے تھے بلکہ ہر انسان کی جان ،مال ، عزت و آبرو بھی محفوظ ہو جایا کرتی تھی ۔عصری معاشروں میں جرائم کی روک تھا م کے لیے جتنے بھی قوانین وضع کیے گئے ان میں سے کوئی قانون بھی اسلامی قوانین کی طرح مؤثر ثابت نہیں ہو سکا ۔
کچھ عرصہ قبل ایک قاری نے ای میل کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھ سے استفسار کیا تھا کہ کیا اسلام عصر حاضر میں آلودگی کے مسئلے کے حل کے لیے رہنمائی کرتا ہے؟ میں نے جواب میں کہا تھا کہ اگر اسلام کے احکامات طہارت و نظافت پر عمل کر لیا جائے تو معاشرے میں پھیلتی ہوئی آلودگی کا بڑی حد تک مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔اسلام کے زریں اصولوںپر غیر جانبدارانہ انداز میں غور و فکر کرنے کے بعد اس حقیقت کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ اسلام ایک عہد کا مذہب نہیں بلکہ ہر عہد کا مذہب ہے جو رہتی دنیا تک زندگی کے تما م شعبوں میں انسانیت کی کامل رہنمائی کی تمام تر صلاحیت رکھتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں