"AIZ" (space) message & send to 7575

مایوسی کیوں ؟

اللہ تعالیٰ نے قسم ہا قسم کی مخلوقات پیدا کیں اور ان میں سے تین مخلوقات کو صفت عقل اور کلام سے متصف فرما دیا ۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں،جنات اور انسانوں کو عقل اور کلام کی صفات سے آراستہ فرما کر ان کو باقی مخلوقات سے ممتاز فرما دیا ۔تاہم فرشتے اس اعتبار سے باقی دونوں مخلوقات سے جدا ہیں کہ ان میں شر کا داعیہ موجود نہیں ہے اور و ہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں ۔
فرشتوں کے بالمقابل انسانوں اور جنات کی ایک جماعت ایسی ہے جو بغاوت پر تلے رہنے کی وجہ سے شیاطین میں شامل ہو چکی ہے ۔ابلیس و ہ پہلا جن تھا جو پروردگار عالم کی نا فرمانی کی و جہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گیا۔اس کی نسل اور گروہ میں شیاطین کی بڑی تعداد شامل ہے جن کا مقصد انسانوں اور جنات کو راہ ہدایت سے بھٹکاناہے۔ ملائکہ سراپا خیر ہیں تو شیاطین سراپا شر۔
اگرچہ عام انسانوں میں خیر اور شر کا داعیہ اورتحریک موجود ہے لیکن گروہ انبیاء کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ عام انسانوں کے برعکس و ہ سراپا خیر تھے اور انہوں نے مختلف ادوار میں انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے فریضے کو بطریق احسن انجام دیا ۔انبیاء کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والوں میں صدیقین ،شہداء اور صالحین شامل ہو ئے کہ جنہوں نے الہامی تعلیمات پر پوری تندہی سے عمل کیا اور انبیاء اور رسل اللہ کے نقشِ پاء پر چل کر دنیا و آخرت کی سرفرازی اور سربلندی حاصل کی ۔
اگرچہ انبیاء اور رسل اللہ کی تعلیمات پر لبیک کہنے والوں کی بڑی تعدادسلیم الطبع اور شریف النفس لوگوں پر مشتمل تھی جو الہامی ہدایت کے حصول سے قبل بھی زنا کاری ،شراب نوشی اور قمار بازی سے کراہت رکھتے تھے،لیکن انبیاء کے پیغام کو قبول کرنے والے گروہ میں بت پرست، برائی کے خو گر ،نشے کے عادی اور بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے والے ایسے لوگ بھی شامل تھے کہ بظاہر جن کو دیکھ کر یہ کہنا انتہائی مشکل تھا کہ یہ لوگ کبھی صراط مستقیم پر گامزن ہو سکیں گے ۔الہامی ہدایت اور انبیاء کی تعلیمات نے ان کے فکروعمل میں انقلاب کو پیداکر دیا اور یہ لوگ بدی سے پوری طرح کنارہ کش ہو گئے ۔
نبی آخر الزما ں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی اس اعتبار سے بہت زیادہ ممتاز ہے کہ آپ ﷺ نے عرب معاشرے میں ایک انقلاب کو پیدا فرمادیا اور بڑی تعداد میں بت پرستوں کو اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر جھکا دیا ،جنسی بے راہ روی کا شکار لوگوں کو حیا اور حجاب کو خوگر بنا دیا ،نشے میں دھت رہنے والے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے ہوش مند بنا دیا ۔
آپ ﷺ کی تعلیمات نے ظلم اورجبر کے عادی لوگوں کو انصاف پسند بنا دیا ،آپ ﷺ نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو بیٹیوں کا محافظ بنا دیا ،ظلمت کے اندھیر ے چھٹ گئے اور جزیرۃ العرب ایمان اور اسلام کے نور سے منور ہو گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور تائید سے کیا اور آپ ﷺ کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپﷺ نے دین کی دعوت دیتے و قت بڑے چھوٹے ،امیر و غریب اور نیک و بد کی پروا نہیں کی ۔کئی لوگوں نے آپ ﷺکی دعوت کو فوراً قبول کر لیا اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اور کئی لوگوں نے آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے اور آپ ﷺ کے وجود اطہر پر پتھر برسائے لیکن آپ ﷺ نے دعوت دین کے عظیم مشن کو لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں چھوڑا ۔آپ ﷺاپنوں کی خیر خواہی کے ساتھ ساتھ بیگانوں کی خیر خواہی کے جذبات سے بھی لبریزرہے یہاں تک کہ جن لوگوں نے طائف کی وادی میں آپ ﷺ کو بے جا انتقام اور تشدد کا نشانہ بناکر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دی ان لوگوں کے ساتھ بھی آپ ﷺ کا معاملہ خیر خواہی پر مبنی رہا۔ طائف کی وادی میں جب آپﷺ کو لہو رنگ بنایا گیا تو جبر یل ؑامین کی ہمراہی میں پہاڑوںکا فرشتہ آیا اور آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اگر آپ چاہیں تو طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا ''اے اللہ ! میر ی قوم کے لوگوں کو ہدایت دے ‘یہ مجھے پہچانتے نہیں ‘‘۔ نبی کریمﷺ کی محنت اور استقامت رنگ لائی اور جزیرۃ العرب کے لوگ صراط مستقیم پر گامزن ہو گئے ۔
نبی کر یم ﷺ کا طرز عمل اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ کسی بھی داعی ،مصلح اور لیڈرکو معاشرے کے منفی طرز عمل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اورمعاشرے کی اعتقادی اور اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے خیر کے کام کو ترک نہیں کر دینا چاہیے ۔نتائج کی پرواہ کیے بغیر معاشرے کی اصلاح کے فریضے کو سر انجام دیتے رہنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ کبھی بھی خیر کے لیے کی جانے والی جدوجہد ضائع نہیں فرماتے اور جلد یا بدیر اصلاح پسندوں کو اپنی غیبی تائید اور نصرت سے نوازتے ہیں ۔
پاکستان کا معاشرہ بھی اس وقت مختلف طرح کی اعتقادی اور عملی قباحتوںکا شکار ہو چکاہے ۔معاشرے میں توہم پرستی ، جادو ٹونا اور ستارہ پرستی اپنے عروج پرہے ،جنسی بے راہ روی اور بے حیائی کو بھی روز بروز عروج حاصل ہوتا جا رہا ہے ،جرائم اور لاقانونیت اپنے پورے زوروں پر ہے ،مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے ،قتل و غارت گری نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس پر ستم یہ کہ سیاسی نظام بھی کئی عشروں سے عدم استحکام کا شکار ہے ۔
اس صورتحال کی وجہ سے قوم میں پریشانی اور اضطراب بڑھتا جا رہاہے ۔بہت سے لوگ مستقبل کے بارے میں ناامیدی اور مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں معاشرے میں خیر کا کام کرنے والوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو سرانجام دیتے رہنا چاہیے۔ مثبت سمت میں سفر کرنے والے کسی بھی شخص کو اپنی حد اور دائر ے میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے اور اپنی جدوجہد اور ذمہ داریوں کو کسی بھی اعتبار سے حقیر اور معمولی نہیں سمجھنا چاہیے ۔
معاشرہ افرادکے اجتماع سے بنتا ہے اور ہر فرد معاشرے کے حالات سنوارنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور جب ہر شخص اپنی ذمہ داریوںکو نبھانے کے لیے صحیح طریقے سے آمادہ ہو جاتاہے تو خود بخود معاشرے میں مثبت تبدیلیاں بھی آجاتی ہیں ۔
اقوام سابق کی تاریخ یہ بھی بتلاتی ہے کہ انبیائے سابقہ نے انتہائی مخدوش اور پرآشوب حالات میں بھی خیر کی جدوجہد کو جاری رکھا۔ ا ن کی نگاہ قوم کے رد عمل کی بجائے اپنے مشن کی حقانیت پر ہوتی تھی ۔چنانچہ حضرت نوح ،حضرت ہود اور حضرت صالح علیھم السلام نے اپنی قوم کی مخالفت کے باوجود ان کو بد اعتقادی چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف آنے کی دعوت دی۔ اسی حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کی مخالفت کے باوجود جنسی بے راہ روی کے خلاف جدوجہد میں مشغول رہے جبکہ حضرت شعیب علیہ السلام مالی بدعنوانی کے خلاف صدائے حق کو بلند فرماتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے حق پرستی پر کاربند رہنے والے ان انبیاء کو اپنی نصرت سے غالب فرما دیا جبکہ ان کی دعوت کو جھٹلانے والوں کو اپنے عذاب کا نشانہ بنا دیا ۔
مملکت خداداد پاکستان اللہ کی نعمت اور اس کا احسان ہے۔ اس ملک میں کام کرنے والی تمام جماعتوں اور اداروں کو اور اس میں بسنے والے ہر فرد کو اپنی مذہبی،اخلاقی اور آئینی ذمہ داریوں کوبطریقِ احسن انجام دیتے رہنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس ملک کو بحرانوں اورمشکلات سے باہر نکالنے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو ضرور با رآور فرمائیں گے۔ اگر دین پسنداور محب وطن عناصر اس موقع پر مایوس ہو گئے تو جہاں ملک کا نقصان ہو گا وہاں پر یہ لوگ خود بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہو جائیں گے ۔مانا کہ حالات خراب ہیں، معاملات میں بگاڑ ہے ،معیشت اور سیاست کی زلفیں بکھری ہوئی ہیں ،لاقانونیت اور ظلم کا دور دورہ ہے لیکن اگر ہم آپ ﷺ کی تعلیمات اور سیرت پر عمل پیرا ہو جائیں تو مملکت خداداد کے حالات ضرور تبدیل ہوں گے۔(انشاء اللہ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں