ہر باشعور شخص دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کا طلب گار ہے ۔دنیا میں مالی نعمتوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ہر شخص خوشی اور سکون کی بھی چاہت رکھتا ہے ۔اگر انسان کو قلبی سکون میسر نہ ہو تو دنیا کی نعمتوں کی بہتات کے باوجود بھی انسان مایوسی اور اکتاہٹ کا شکاررہتاہے۔اسی طرح جوانسان اللہ اور یوم حساب پر یقین رکھتا ہے‘ وہ اخروی نجات کے لیے کماحقہ محنت کرے یا نہ کرے لیکن و ہ یہ چاہت ضرور رکھتا ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی میں سرخروہو ۔
انسان کی چاہت کی تکمیل کا اس کی قوت عمل کے ساتھ انتہائی گہر ا تعلق ہے ۔ جب تک قوت عمل نہ ہو اس وقت تک انسان اپنے اہداف کو پانے کے لیے صحیح طریقے سے جدوجہد نہیں کر سکتا۔زندگی کے نشیب و فراز میں پیش آنے والی مشکلات انسان کی فعالیت اورکارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور کئی مرتبہ انسان حالات کے مدوجزر کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور مثبت راستے پرسفر موقوف کر کے منفی راستے اختیار کر لیتا ہے اور کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان مایوسی کی وجہ سے اپنے خالق ومالک سے ہی بدگمان ہو کر اپنی دنیا اور آخرت تباہ کر لیتا ہے ۔
قوت عمل کو بحال رکھنے اور زندگی کی تمام سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے قرآن و سنت کی بتلائی ہو ئی بعض تدابیر پر عمل کرنا انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔قرآن و سنت کے بغور مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے اُتار چڑھاؤ کے دوران قوت عمل کو بحال رکھنے کے لیے کم ازکم تین عملی تدابیر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ۔
(1) مصیبتوں پرصبر (2)اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور اس سے مثبت تبدیلی کی امید(3)نعمتوں کے مل جانے پر شکر
تینوں نکات کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
1۔مصیبتوں پر صبر :مصائب اور آلام پر صبرکرنے سے انسان کی قوت عمل اور برداشت میں بہت زیادہ اضافہ ہوتاہے ۔سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان ؑ کی نصیحتوں کو بیا ن کیا ہے جو انہوںنے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی کہ جو تکلیف لاحق ہو جائے اس پر صبر کیا جائے ۔مصائب پر صبر کرنے سے انسان مایوسی کا شکار نہیں ہوتا کیوںکہ اسے اس بات کا یقین اور اطمینان ہوتا ہے کہ ان مصائب پر صبرکرنے کی وجہ سے وہ اجر کا مستحق ٹھہرے گا ۔
اللہ تعالیٰ کے پانچ انبیاء علیھم السلام اسی صبر و استقامت کی و جہ سے اولوالعزم پیغمبر ٹھہرے۔ حضرت نوح ؑکی قوم کے لوگوں نے آپ کا استہزاء کیا ۔آپ ؑ کو دیوانہ اور مجنوں کہا ،آپ ؑ کو پتھر مارے اور کئی صدیوں تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہا ۔اتنے طویل عرصے تک حضرت نوح ؑتکالیف اورمشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے لیکن آپ ؑ نے اپنے مشن کو لمحہ بھر کے لیے بھی موقوف نہیں کیا ۔صبح کے دھندلکوں، تپتی ہوئی دوپہروں، پھیلتی ہوئی شاموں اور اندھیر ی راتوں میں آپؑ بستی والوں کے ردعمل کی پروا کیے بغیر پوری تندہی کے ساتھ اپنے فریضے کوسر انجام دیتے رہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے ہوئے وقت کے بادشاہ، اپنے والد اور برادری کی بیک وقت مخالفت کو مول لے لیا۔ بت کدے میں کلہاڑے کو چلا دیا ، بادشاہ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صدائے توحید کو بلند فرما دیا اور اس کی جھوٹی خدائی کے پردے کو چاک کر دیا ۔سورج ، چاند ، ستاروں اور اجرام سماویہ کی پوجا کرنے والوں کے غلط عقائد کی تردید فرمائی اور حق پرستی کی پاداش میں نمرود کی جلتی چتا اور بھڑکتی ہوئی آگ کو برداشت کرنا گوارا کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی رفیق حیات کووادی بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا اور حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے عزیزاور جان لخت جگر کے گلے پر چھری چلانے کے لیے بھی آمادہ و تیار ہوگئے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے وقت کے ظالم اورجابرسلطان کی رعونت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ فرعون کی سلطانی ،ہامان کے منصب ، قارون کے سرمائے اورشداد کی جاگیر کو خاطر میں نہیں لائے ۔فرعون نے آپ ؑ کے خلاف مکرو فریب کے جتنے بھی جال بُنے‘ آپ ؑ نے خندہ پیشانی سے ان کا مقابلہ کیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے بھی بستی والوں کی مخالفت کا مقابلہ پوری وجاہت اور استقامت کے ساتھ کیا ۔ان تما م انبیاء میں سے صبر و استقامت کے اعتبار سے سرفہرست ذات حضرت رسول اللہ ﷺ کی ہے کہ جنہوں نے اولوالعزم پیغمبروں کی تاریخ میں ہمت و برداشت کے نئے باب کو رقم فرما دیا ۔آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ،آپﷺ کے گلو اطہر میں چادر ڈال کے کھینچا گیا ،آپ ﷺ پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے ،آپ ﷺ کی کردار کشی کی ناپاک جسارت کی گئی لیکن آپ ﷺ نے ان تمام مشکلات کا پورے وقار کے ساتھ مقابلہ کیااور اپنے امتیوں کے لیے اس مثال کو قائم فرمایا کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘ جدوجہد اور محنت جاری رکھنی چاہیے ۔آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے بھی اپنے کردار سے صبر و استقامت کی نئی مثالیں قائم فرما دیں۔حضرت بلا ل ، حضرت سمیہ ، حضرت صہیب رومی، حضرت خباب بن الارت رضوان اللہ اجمعین نے جس انداز میں تکالیف کو سہا‘ اس کی مثال انسانی تاریخ میں خال خال ہی ملتی ہو گی ۔
2۔اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور مثبت تبدیلی کی امید :تکالیف اور مشکلات پر صبرکرنے کے ساتھ ساتھ قوت عمل کو برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھنا اور حالات میں مثبت تبدیلی کی امید رکھنا بھی انتہائی مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یعقوب ؑ کے واقعے کو بیان کیا ہے ۔ حضر ت یعقوب ؑ نے حضرت یوسف ؑاور حضرت بنیامینؑ کی جدائی پر صبر کیا اور اس جدائی اور صدمے پر مایوس نہیں ہوئے بلکہ اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ یوسف ؑ اور بنیامین ؑ کے معاملے میں مایوس نہ ہوں اور انہوں نے مایوسی کو کفر سے تعبیر فرمایا۔حضرت یعقوب ؑ کی مثبت امید کا نتیجہ بھی مثبت نکلا اور اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصے کے بعد حضرت یعقوب ؑ کو حضرت یوسف ؑ سے ملوا دیا ۔حضرت رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث قدسی کو بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ مجھ سے رکھتا ہے ‘‘۔اللہ تعالیٰ پر اچھا گمان اور امید رکھنے کے نتائج بھی اچھے نکلتے ہیں جبکہ بدگمانی کے نتائج انتہائی خطر ناک اور ہولناک ہو سکتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ حج کی آیت نمبر 11میں ارشاد فرمایا ''بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی کنارے پر عبادت کرتے ہیں اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگرکوئی آفت آجائے تو منہ پھیر لیتے ہیں ۔انہوںنے دوجہانوں کا نقصان اُٹھایا‘یہ واقعی کھلا نقصان ہے ‘‘۔
3۔نعمتوں کے حصول پر شکر :مصائب پر صبرکرنے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اچھی امیدوں کو وابستہ رکھنے کے ساتھ ساتھ قوت عمل کو برقرار رکھنے کے لیے حالات میں مثبت تبدیلیا ں رونما ہونے اور نعمتوں کے مل جانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے ۔ کئی مرتبہ انسان نعمتوں کے مل جانے پر شکر گزاری کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے بغاوت اور ناشکری کا راستہ اختیارکرکے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ کر بیٹھتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل میں ''سبا ‘‘ کی بستی کا ذکر کیا کہ جسے رزق اور امن کی نعمتیں میسر تھیں۔ اہل سبا نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے امن اوررزق چھین کر ان پر بھوک اور خوف کے عذاب کو مسلط کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں ارشاد فرمایا ''اگر شکر گزاری کرو گے تو میں نعمتوں کو بڑھا دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ صبر اور اچھی امید رکھنے کے بعد جب نعمتیں عطا فرماتے ہیں تو ان کے ملنے کے بعد اپنے بندوں سے شکر گزاری کا تقاضا کرتے ہیں۔جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کے مل جانے پر ناشکری کا رویہ اختیارکرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں کو ضائع کروا بیٹھتے ہیں ۔
زندگی نشیب و فراز ، اونچ نیچ اور مدوجزر کا نام ہے۔ اچھے برے حالات زندگی کا حصہ ہیں‘ ان حالات کا احسن طریقے سے مقابلہ کرنا اور کامیابی کی شاہراہ پر سفرجاری رکھنے کے لیے انسان کو صبر ،امید اور شکرکے راستے پر سختی سے کاربند رہنا چاہیے ۔انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی ،سماجی زندگی ہو یا سیاسی ،اقتصادی معاملات ہو ں یا جنگی زندگی ‘تمام شعبوں میں کامیابی کے حصول کے لیے صبر ،امید اور شکرگزاری کا راستہ کامیابی کی ضمانت دیتا ہے اور اس راستے سے انحراف ناکامی اور نامرادی کا سبب بن جاتاہے ۔