انسانوں کی زندگی کا بڑا حصہ نیند کی حالت میں گزرتا ہے ۔نیند کی حالت میں انسان مختلف طرح کے خواب دیکھتا ہے ۔بسا اوقات ان خوابوں کا تعلق انسان کے روزمرہ معمولات سے ہوتا ہے اوربسا اوقات یہ خواب انسان کے مشاہدات اورتجربات سے یکسر جدا ہوتے ہیں۔ان خوابوں کے انسانی نفسیات پر بھی بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں ۔اچھا خواب انسان کے مزاج پر خوشگوار اثرات چھوڑتا ہے جبکہ خوفناک اور خطرناک خواب انسان کے مزاج پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے ۔اچھا خواب دیکھ کر اُٹھنے والا شخص اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کرتا ہے جبکہ برا خواب دیکھنے والا اپنے آپ کو کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے ۔کئی مرتبہ یہ خواب انسان کے ضمیر کو بیدار کرنے کا سبب اور کئی مرتبہ یہ انسان کی گمراہی کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔
خوابوں کے اسرارورموز کے حوالے سے مختلف طرح کی باتیںسننے اور پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔قرآن و سنت نے اس حوالے سے انسانوں کی کامل رہنمائی فرمائی ہے اور انسانوں کو مختلف طرح کی خوابوں کی تعبیر سے آگاہ بھی کیا ہے ۔ میں زیر نظر کالم میں قارئین کے سامنے خوابوں کے حوالے سے قرآن وسنت کی روشنی میں بعض اہم معلومات رکھنا چاہتا ہوں جن کا مقصد خوابوں کی حقیقت اور تعبیر کو سمجھنا ہے ۔
خوابوں کے حوالے سے جو اہم معلومات ہمیں احادیث رسول اللہ ﷺ کے ذریعے حاصل ہوئیں ہیںان میں سے پہلی اہم بات یہ ہے کہ نبی کریم ﷺکو نزول وحی سے قبل چھ ماہ تک مسلسل سچے خواب آتے رہے اور بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر تئیس برس تک وحی کا نزول فرمایا ۔گویامتواتر سچے خوابوں کی مدت وحی کے مقابلے میں چھیالیسواں حصہ تھی ۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک میں ہی آپ ﷺ کا یہ ارشاد موجود ہے کہ خواب وحی کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی ہمارے پاس موجود ہے کہ نبوت میں سے مبشرات یعنی اچھے اور سچے خوابوں کے سوا کچھ نہیں بچا ۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نبی اور اُمتی کے خواب میں واضح فرق یہ ہے کہ نبی کا خواب حجت اور شریعت ہوتاہے جبکہ اُمتی کا خواب شرعی احکام میں اضافے یا ترمیم کا باعث نہیں بن سکتا۔ نبیوں کے خواب ان کی اُمت کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے تھے جبکہ غیر ِ نبی کا خواب زیادہ سے زیادہ اس کی ذات ، کنبے ،ماتحت یا زیر اثر افراد کے لیے فائدے یا نقصان کا اشارہ ہو سکتا ہے ۔پوری اُمت کی رہنمائی کے لیے قرآن و سنت کی موجودگی میں کسی بھی صاحب علم یانیک شخصیت کا خواب حجت یا دلیل نہیں بن سکتا۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین علم تعبیر میں دسترس رکھنے کے باوجود احکام شریعت میں دلیل صرف قرآن و سنت سے ہی لیا کرتے تھے اور اپنے خوابوں کو شریعت یا حجت کی حیثیت سے کبھی بھی پیش نہیں کرتے تھے ۔
قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خواب دکھلایا تھا کہ وہ اپنے فرزند اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری کو چلارہے ہیں۔ آ پؑ نے اس خواب سے جب اسماعیل علیہ السلام کو آگاہ فرمایا تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے عرض کی اے میرے بابا !آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر گزریے۔ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم الٰہی پر عمل کرتے ہوئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت کے مینڈھے کو بھیج دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کوبھی قبول فرمایا لیا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب سچا ہو گیا اور خواب کے ذریعے بتلایا جانے والا یہ عمل آج بھی اُمت مسلمہ میں جاری و ساری ہے اور کروڑوں مسلمان سنت ابراہیمی ؑ کی پیروی کرتے ہوئے ہر سال عید الاضحی کے موقع پر جانور ذبح کرتے ہیں۔
قرآن مجید ہی کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خوابوں کی تعبیر کاعلم عطا فرمایاتھا ۔آپؑ کے سامنے جو خواب بھی پیش کیا جاتا آپ اس کی بالکل درست تعبیر فرماتے اور وہ تعبیرجلد یا بدیر لوگوں کے سامنے بھی آجاتی ۔ جب آپ ؑ کو قید خانے میں ڈالا گیا تو آپ ؑکے ہمراہ دو قیدی بھی جیل میں داخل ہوئے تھے۔ ان قیدیوں نے آپ کی روشن پیشانی اوروجیہ چہرے کو دیکھ کر آپ کی روحانی اور علمی شخصیت کا کچھ نہ کچھ اندازہ لگا لیا تھا ۔انہوں نے آپ ؑکے سامنے اپنے خوابوں کو پیش کیا ۔ایک قیدی نے خواب دیکھا کہ وہ شراب کشید کر رہا ہے جبکہ دوسرے نے خواب میں دیکھاکہ اس کے سر پر روٹیاں ہیںجن کوپرندے کھا رہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے پہلے قیدی کو بتلایاکہ بادشاہ وقت کا ساقی بنے گا، جبکہ دوسرے قیدی کو بتلایا کہ اسے صلیب پر چڑھا دیا جائے گا ۔حضرت یوسف علیہ السلام کی بتلائی تعبیریں من و عن پوری ہوئیں۔حضرت یوسف علیہ السلام نے اس قیدی کو جو بادشاہ وقت کا ساقی بننے جا رہاتھا یہ بھی کہا کہ بادشاہ وقت کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا کہ جیل خانے میں ایک بیگناہ قیدی موجود ہے ۔شیطان نے اس شخص کے دماغ سے اس بات کو محو کردیااور حضرت یوسف علیہ السلام کئی برس تک بیگناہ ہونے کے باوجود قید و بند کی صعوبتوں کو بر داشت کرتے رہے یہاں تک کہ بادشاہ کو خود ایک ایسا خواب آیا جس کی تعبیر کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل لیکن اہل دربار کے لیے بہت مشکل تھا۔بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات پتلی گائیں سات صحت مند گائیوں کو کھا رہی ہیں اسی طرح بادشاہ نے یہ بھی دیکھا کہ سات سرسبزوشاداب بالیاںاورسات خشک بالیاں ہیں۔ بعض درباریوں اور مصاحبین نے اس خواب کو ذہنی اضطراب کا شاخسانہ قرار دیاجبکہ بادشاہ وقت کا ساقی سمجھ گیا کہ اس خواب کی تعبیر سے صحیح معنوں میں حضرت یوسف علیہ السلام ہی آگاہ فرماسکتے ہیں۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے اس خواب کو رکھا گیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر فرمائی کہ مصر میں سات سال خوشحالی ہو گی ۔ ان خوشحالی کے سالوں میں جو غلہ اُگے گا اس کوایک طریقے سے استعمال کرنا چاہیے ،ضرورت سے زائد غلے کو جمع کر لینا چاہیے ۔خوشحالی کے سات سالوں کے بعد سات سال قحط سالی کے ہوں گے ۔قحط سالی کے سالوں میں بچے ہوئے غلے کو استعمال کر نا چاہیے اس کے بعد دوبارہ خوشحالی اور پیداوار کا سال ہوگا ۔ بادشاہ وقت نے حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیرسننے کے بعد ان کو اپنے قریبی ساتھیوں میں شامل ہونے کی پیشکش کی ۔ حضرت یوسف علیہ السلام ابتدائی طور پر مصر کے وزیر خزانہ بنے اور آپؑ نے پیداوار اور خوشحالی کے سالوں میںغلے کی اتنی اعلیٰ تدوین فرمائی کہ جب عالمگیر قحط بپا ہواتوجمع شدہ غلے سے ناصرف اہلِ مصر کی مدد فرماتے رہے بلکہ آپ ؑ نے دنیابھرکے مجبور سائلین کی مدد کا انتظام بھی فرمایا ۔
قرآن مجید کی سورۃ فتح میں اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کا ذکر بھی موجود ہے کہ آپﷺ نے اپنے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے رفقاء کے ساتھ مسجد الحرام میں موجود ہیںاوربعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے سر کو مونڈھا ہوا جبکہ بعض نے اپنے بالوں کو کتروایا ہوا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے اس خواب کو سچا کر دکھایا اور صلح حدیبیہ کے اگلے برس آپ ﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ مسجد الحرام میں عمرے کے لیے تشریف لے آئے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنے خوابوں کو رکھا کرتے تھے ‘ نبی کریم ﷺ ان خوابوںکی تعبیر فرماتے تھے ۔نبی کریم ﷺ کی بتلائی ہوئی بعض خوابوں کی تعبیراحادیث کی روشنی میں درج ذیل ہے :
ڈھول کھینچنا :دین یا خیر کے کام کرنے پر دلالت کرتاہے ،دودھ : خیر و برکت کی علامت ہے ،کڑھے کو تھامنا :دین پر عمل پیرا ہونے کی نشانی ہے ،کھجور:ایمان کی علامت ہے ، قمیض کی لمبائی :دین پر عمل پیرا ہونے کی علامت ہے ،قمیض کی لمبائی جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی انسان دین میں پختہ ہو گا ۔
قرآن وسنت کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتاہے کہ اچھاخواب اللہ کی طرف سے جبکہ برا خواب شیطان کی طرف سے وسوسہ یامستقبل کے حوالے تنبیہ ہوتاہے ۔انسان کو اپنا خواب ہرکسی کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اچھا خواب صرف صاحبِ علم اور مخلص لوگوں کو بیان کرنا چاہیے جبکہ براخواب آنے کی صورت میں کسی کو بیا ن کیے بغیر شیطان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کو طلب کرکے بائیں سمت تھوک دینا چاہیے ایسی صورت میں اللہ انسان کو خواب کے شر سے بچا لیتا ہے۔