زندگی نشیب و فرازسے عبارت ہے۔خوشیوں کے ساتھ ساتھ غم بھی زندگی کا حصہ ہیں۔صحت کے ساتھ ساتھ بیماری بھی انسانوں پر حملہ آور ہوتی رہتی ہے ۔ منافع کے ساتھ ساتھ انسان کو نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ زندگی کے اس اتار چڑھا ؤ کے دوران مختلف انسان مختلف طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ بعض لوگ نقصانات اور حوادث کی صورت میں منفی ردعمل کا مظاہر ہ کرتے ہیں اور صبر کا دامن چھوڑ کر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔یہ لوگ نہ صرف یہ کہ اپنی ناکامی اور نقصانات پر دیگر لوگوں کوموردِالزام ٹھہراتے ہیں بلکہ نادانی میں خالق و مالک حقیقی سے گلے شکوے کرکے اسے بھی ناراض کر بیٹھتے ہیں۔اس کے بالمقابل وہ لوگ حقیقی معنوں میں کامیاب ہیں جو زندگی کے مدوجزر کا مقابلہ ہمت اور استقامت سے کرتے اور زندگی میں آنے والی مشکلات کو تقدیر کا حصہ سمجھ کر برداشت کرتے اوریوں اللہ کو راضی کرکے دنیا و آخرت سنوار لیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 157-155میں ارشاد فرمایا ''اورالبتہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصانات کے ذریعے اور خوشخبری دیجیے صبر کرنے والوں کو کہ جب انہیں مصیبت پہنچتی ہے تووہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے درود اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ان آیات کریمہ سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں سے بندوں کو آزماتے رہتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور فیصلوں پر راضی رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوجاتے ہیں ۔
اس کے مقابلے میں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی، خوشحالی میں عبادت کرتے ہیں اور بدحالی میں اس کی ذات سے بدگمان ہو جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن اپنی دنیا و آخرت کو ضرور تباہ کر بیٹھتے ہیں ۔
سورۃ الحج کی آیت نمبر 11میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور لوگوں میں سے وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی کنارے پر پوجا کرتاہے۔ اگر اس کو خیر پہنچے تو مطمئن ہے اور اگر تکلیف آئے تو اپنے چہرے کو پھیر لیتا ہے یہ دنیا اور آخرت کے گھاٹے میں ہے اور یہی واضح نقصان اُٹھانے والا ہے‘‘۔ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہونے والے لوگ دنیا اور آخرت میں ناکام ونامراد رہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآ ن مجید میں اپنے انبیا ؑکا ذکر فرمایا کہ انہوں نے خندہ پیشانی سے حالات کے اتار اورچڑھاؤ کا مقابلہ کیا اور زندگی میں آنے والی تمام تکلیفوں پر صابر و شاکر رہے ۔
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے انہیں 950 برس اذیتوں اور تکلیفوں کا نشانہ بنایا، ان کو دیوانہ اور مجنوں کہا گیا، ان کی ذات پر سنگ باری کی گئی ۔حضرت نوح علیہ السلام نے ان سارے معاملات کو حوصلے اور وقار سے برداشت کیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے برادری اور بستی والوں کی مخالفت کا سامنا کیا ۔حاکم وقت(نمرود) کی طرف سے آنے والی ابتلاؤںاو ر مخالفتوں کے باوجود اپنے مشن پر پوری طرح کاربند رہے ۔آپ ؑ کے لیے جلتی ہوئی چتا کوبھڑکایا گیا۔ آپ ؑ آگ میں گرائے جانے پر بھی صابر وشاکر رہے۔ اسی طر ح محبوب ترین خاندان سے جدائی پر بھی آپ ؑ نے صبر کیا ۔اللہ تعالیٰ نے جب آپ ؑ کو اپنے فرزند حضر ت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کا حکم دیا تو آپ ؑ نے بغیر کسی شکوے، شکایت کے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی رعونت ، ہامان کے عہدے ،شداد کی جاگیر اور قارون کے سرمایے کا مقابلہ کیا اور آل ِفرعون کی طرف سے دی جانے والی تکالیف اوران کے طعن و تشنیع کا مقابلہ پوری ہمت اور استقامت کے ساتھ فرمایا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی ان کی بستی کے لوگوں نے ابتلاؤں اور اذیتوں کا نشانہ بنایا اور اُنہیں شہید کرنے پر بھی آمادہ و تیار ہو گئے۔ آپ ؑ ان ساری مصیبتوں پر ثابت قدم رہے، بستی والوں نے تو آپ ؑ کو اپنی دانست میں سولی پر چڑھا دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان کی طرف اُٹھا کرانہیں بستی والوں کی مخالفتوں سے محفوظ ومامون فرمالیا ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام سے بے پناہ محبت تھی لیکن بچپن ہی میں آپؑ کو ان کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا ،جب حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے جب اُنہیں بتایا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے جزع فزع اوربے صبری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو فراخ دلی سے تسلیم کرلیا ۔ایک طویل عرصے کے بعد جب آپؑ کواپنے دوسرے عزیز بیٹے بنیامین ؑ کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا تو اس موقع پر بھی آپ ؑ نے صبر ہی کے راستے کو اختیار کیا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے صبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے مدت مدیدکے بعد بیٹے یوسف ؑ اور بنیامین ؑ سے اس انداز میں ملوادیا کہ یوسف علیہ السلام مصر کے حاکم اور اللہ کے رسول بن چکے تھے ۔اپنے بیٹے کے دینی اور دنیاوی عروج کو دیکھ کر ان کی جدائی کی ساری کلفتیں کافور ہو گئیں ۔
حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل عرصے تک بیماری اور غربت کا سامنا کرنا پڑا ۔حضرت ایوب علیہ السلام نے اس ساری تکلیف کو اللہ کا حکم سمجھ کر قبول کیا ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کے پریشانی اور اذیت پر صبر کرنے کی وجہ سے ان پر یوں کرم فرمایا کہ جان و مال میں ہونے والے سارے نقصانات کی تلافی فرما د ی اور جو کچھ لیا تھا اللہ تعالیٰ نے اتنا ہی اوربھی عطا فرما دیا ۔
حضرت رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی دعوتی اور نجی زندگی میںطرح طرح کی تکالیف کا پوری ہمت اور استقامت سے مقابلہ کیا ۔کفار نے آپ ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کیں ،آپ ﷺ کے مقدس وجود پر حالت نماز میں گندگی ڈالنے کی ناپاک جسارت کی گئی ،آپ ﷺ کے گلوئے اطہر میں چادر ڈال کر کھینچا گیا ،طائف کی وادی میں سنگ باری کر کے آپ ﷺ کو لہو رنگ بنا دیا گیا ۔ حضرت جبریل پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اگر آپ حکم کریں تو طائف کی وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے تو نبی مہرباں ﷺ نے فرمایا ''اے اللہ ! میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے، یہ مجھے پہچانتے نہیں ‘‘۔
حضرت رسول اللہ ﷺ کے بہت سے قریبی اعزہ و اقارب آپ ﷺ کی زندگی میں آپ ﷺ کودا غ مفا رقت دے گئے ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی غم خوار بیوی اور آپ ﷺ کے چھ بیٹے بیٹیاں آپ کی زندگی میں ہی دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔آپ ﷺ کے آخری فرزند سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے پیدا ہوئے ۔حضرت ابراہیم کی ولادت پر آپ ﷺ بہت مسرور تھے لیکن صرف 18ماہ دنیا میں رہنے کے بعد وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔جب حضرت ابراہیمؓ کی نعش مبارک کو نبی کریم ﷺ کے سامنے لایا گیا تو آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے ابراہیم تیری جدائی نے مجھ کو غمزدہ کر دیا ہے لیکن میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوں ۔
نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ اہلبیت اور تلامذہؒ نے بھی صبر و استقامت کے راستے کو اختیار کرکے اپنی دنیا و آخرت کو روشن فرمالیا ۔آج کے دور پر آشوب میں مسلمانوں کو اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ صبر ہی کامیابی اور فلاح کا راستہ ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ اور اُن سے محبت کرتے ہیں ۔دیگر نیکیوں کو تو تولا جائے گا لیکن سورت زمر کی آیت نمبر 10کے مطابق صبر کرنے والوں کو بلا حساب اجر دیا جائے گا۔