ہر سال 23محرم الحرام کو چوک بیگم کو ٹ لاہورمیں عظیم الشان فضائل صحابہ و اہلبیت رضوان اللہ علیھم اجمعین کانفرنس کا انعقاد ہوتاہے جس میں ملک بھر سے نمایاں خطیب اور علماء خطاب کرتے ہیں ۔کانفرنس کا بنیادی مقصد صحابہ کرام ؓاور اہلبیت عظام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت و کردار پر روشنی ڈالنا ہوتاہے۔ صحابہ کرامؓ اور اہلبیت ؓکی فضلیت کی سب سے بڑی وجہ ان کی اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے نسبت ہے،اس لیے کہ جس کی نسبت نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہو وہ چیز کمال کو پہنچ جاتی ہے۔نبی کریم ﷺ کے شہر جیسا دنیا میں کوئی شہر نہیں ،آپ کے جام کوثر جیسا کوئی جام نہیں،آپ کے براق جیسی کوئی سواری نہیں،آپ کی کملی مبارک جیسی کوئی چادر اورکپڑا نہیں،آپ کے عہد جیسا دنیا میں کوئی عہد نہیں،آپ کے رفقاء جیسے دنیا میں کوئی ساتھی نہیں اور آپ کے خانوادے جیسا دنیامیں کوئی خانوادہ نہیں ۔
نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سب کے سب جنتی تھے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ''آگ اُس چہرے کو نہیں چھو سکتی جس نے حالتِ ایمان میں میرے چہرے کی زیارت کی ہے اور اس کو بھی نہیں چھو سکتی جس نے ان چہروں کی زیارت کی ہے جنہوں نے مجھے دیکھا ہے ۔‘‘ یعنی جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نجات پائیں گے وہاں پر ان سے علم اور رہنمائی حاصل کرنے والے تابعین کو بھی اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺنے اخروی نجات کی ضمانت دی ہے ۔اسی طرح نبی پاک ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے ''بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں۔ ‘‘نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ کو یہ اعزاز جہاں‘ نبی کریم ﷺ کی زیارت اور نسبت کی وجہ سے حاصل ہوا وہیں پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے کردار وعمل سے بھی اس بات کو ثابت کیا کہ وہ واقعی رفاقت رسول اللہ ﷺ کے حق دار تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ کی آیت نمبر 24میںاپنی ذات اورنبی کریم ﷺ کی ذات اور اس کے رستے میں کیے جانیوالے جہاد اور کوشش کی محبت کو تما م محبتوں پر فوقیت دینے کاحکم دیا اور یوں اہل ایمان کے لیے محبت کے حقیقی مراکز کا تعین کر دیا۔ اہل ایمان کو پیغام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ کو ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دیجیے! اگرتمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہاری بیویاں ،تمہارے خاندان، تمہارے مال جو تم کماتے ہو، تمہاری تجارتیں جن کے گھاٹے سے تم گھبراتے ہو اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں‘ اللہ‘ اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد سے زیادہ پسند ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو نہیں لے آتا اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے مال‘ عزیز و اقارب اور اپنی جانوں کو جس انداز میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور رسول اللہ ﷺ کی محبت میں نچھاور کیا اس کی نظیر کائنات میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ جب نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے قربانی کاتقاضا کیا توصحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین مجسم ایثار بن گئے۔ انسان فطری طور پر اپنے مال سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن اگرا س کے دل میں کسی چیز کی مال سے زیادہ محبت پیدا ہو جائے تو وہ اس پر مال نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتا ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہمہ وقت اپنے مال کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے آمادہ وتیار رہا کرتے تھے ۔
تبوک کے معرکے میں نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے مجمع میں اعلان فرمایا کہ کون ہے جو سو انٹوں کو بمعہ سازوسامان اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کرے تو میں اس کو جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر سو اونٹوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں پیش کر دیا تو نبی کریم ﷺ نے آپؓ کو جنت کی بشارت دی ۔دوبارہ اعلان فرمایا تو پھر حضرت عثمانؓ کھڑے ہو ئے پھر جنت کی بشارت حاصل کی، یہاں تک کہ سات مرتبہ تواتر سے سو اونٹوں کو پیش کرتے رہے اور جنت کی بشارت حاصل کرتے رہے ،ساتویں مرتبہ نبی کریم ﷺ نے اعلان فرمایا ''اے عثمان! بس کرو ،بس کرو آج کے بعد تم اگر کوئی بھی عمل کرو تمہیں نقصان نہیں ہو سکتا ‘‘۔
اس معرکے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نصف مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں پیش کیا ،حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وفا اور محبت کی نئی تاریخ کو رقم فرماتے ہو ئے اپنا تما م سامان اللہ کے نبی ﷺ کی بارگاہ میں لا کر رکھ دیا ۔نبی کریمﷺ نے استفسار فرمایا کہ اپنے گھروالوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو چھوڑ کر آیا ہو ں ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو بھی اسلام کی سر بلندی کے لیے وقف کیے رکھا۔غزوہ بدر میں حضرت عفرا رضی اللہ عنہاکے 9 بیٹے شریک ہوئے،اسی خلافت فاروقی میں حضرت خنساءؓ نے اسلام کی سربلندی کے لیے اپنے بیٹوں کومیدان جنگ میں اتار دیا جب اطلاع ملی کہ چاروں بیٹے شہید ہو گئے ہیں تو آپ سجدہ ریز ہو گئیں اورعرض کیا اللہ تیرا شکر ہے کہ تونے مجھے چار شہیدوں کی ماں بنا دیا ہے ۔حضر ت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک پر کھڑے ہو کر گریہ زاری کرنے کی بجائے قربانی پر فخر اور اطمینان کا اظہار کیا ۔حضرت آمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کے والد ،بھائی شوہر اور فرزند بیک وقت احد کی جنگ میں شہید ہوئے۔اتنے بڑے صدمے کے بعد جب آپ نے نبی کریم ﷺ کو مدینہ کی طرف صحیح سلامت آتے ہوئے دیکھا تو الفاظ کہے کہ آپ کو دیکھ کریوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مصیبت آئی ہی نہیں۔ اپنے اعزاء و اقارب کی قربانیوں پر صبر و شکر کااظہار کرنے والے ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جب اسلام کو ضرورت پڑی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہ کیا ۔
حضر ت سمیہ رضی اللہ عنہا کے وجود کو اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ آپ ؓ کی ایک ٹانگ کو ایک اونٹ اور دوسری ٹانگ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھا گیا۔ دونوں اونٹوں کو متضاد سمتوںمیں ہانک دیا گیا۔سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کا وجود دو ٹکروں میں تقسیم ہو گیا لیکن سمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے عقیدے سے ذرہ برابر بھی انحراف نہیں کیا ۔
غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا ،سینے کو چاک کر کے آپ کے کلیجے کو چبایا گیا، اسی طرح حضرت جلبیب اور حضر ت عبداللہ جحش رضی اللہ عنھما کو بھی اسلام سے محبت کی وجہ سے بڑی سفاک اور بے دردی سے انتقام کا نشانہ بنایا گیا ۔اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی محبت میں سر شار یہ عظیم صحابہ کرامؓ خندہ پیشانی سے جام شہادت نوش فرما گئے لیکن اپنے عقائد اور نظریات پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا ۔
ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی قربانیوں کا ثمر تھا کہ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی اسلام جزیرۃ العرب اور یمن میں ایک نظام کی حیثیت سے غالب آگیا ۔
نبی کریم ﷺ کی رحلت کے تھوڑا عرصہ بعدہی مسلمان دنیا کی سب سے بڑی سیاسی اور عسکری طاقت بن چکے تھے جنہوں نے قیصر و کسریٰ کے غرور کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ مفادات اور لالچ سے پاک صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ان کی اپنے نظریات اور عقائدسے والہانہ وابستگی تھی۔
آج دنیا بھر میں کئی مقامات پر مسلمان مغلوب اور کئی مقامات پر مجروح ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ تو روشن ہے لیکن ہمارے اعمال اپنے اکابرین جیسے نہیں ہیں آج گفتار کے غازی تو بہت نظر آتے ہیں لیکن کردار کے غازی موجود نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 137میںصحابہ کرام کے ایمان کو ہمارے لیے معیار ایمان قرار دیا ہے ۔اگرہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے محبت کے حقیقی مراکز کا تعین کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو دنیا و آخرت کی سربلندی آج بھی ہمارا مقدر بن سکتی ہے ۔