جہاد اللہ تعالیٰ کے راستے میں جدوجہد کرنے کا نام ہے ۔ اس جدوجہد کے کئی مدارج ہیں ۔جہاد کا آغاز اپنے نفس کے ناجائز تقاضوں اورغلط خواہشات کے خلاف جدوجہد سے ہوتاہے ۔جو انسان اپنی ناجائز خواہشات کو اللہ تعالیٰ کے ڈر سے دبا لیتے ہیں اور منشائے الٰہی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ایسے لوگ جہاد کے پہلے تقاضے کو پو را کرلیتے ہیں ۔اپنی سرکش آرزوؤں اور تمناؤں کے خلاف جد وجہد کے بعد معاشرے میں موجود منکرات کے خلاف جد وجہد کرنے کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ اس جدوجہد کی بنیاد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ۔اُمت مسلمہ اور علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی زبان اور قلم کے ذریعے سماجی، سیاسی اورعوامی برائیوں کے خلاف آواز اُ ٹھاتے رہیں اور حکمرانوں اور افراد کی ا صلاح کا فریضہ انجام دیتے رہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی مکی زندگی میں دعوت و تبلیغ ہی کے راستے کو اختیار کیا ۔بت پرستی کی تر دید فرماتے رہے اور لوگوں کوعقیدہ توحید کی اہمیت سے آگاہ فرماتے رہے ۔آپ ﷺ نے نہایت محنت اور جانفشانی سے کفار مکہ کی مخالفت کے باوجود مشن جاری رکھا ۔مکہ کے مغرور اور متکبر سرداروں نے مکہ کی سر زمین مسلمانوں کے لیے تنگ کر دی ۔ مسلمانوں کو تاریخی ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن نبی کریم ﷺ اور آپ کے رفقاء نے سارے جبر کو انتہائی خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور پورے صبر و استقامت سے دین پر کاربند رہے ۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تشدد ،صرف سرزمین مکہ پر ہی روا نہیں رکھا گیا بلکہ جب سرزمین طائف میں آپ ﷺ دعوت دینے کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں پربھی آپ کو اذیتیں اور تکالیف دی گئیں ۔آپ ﷺ پر طائف کے گستاخوں نے سنگ باری کی جس سے نبی کریم ﷺ کا جسم اطہر لہو رنگ ہو گیا ۔اس موقع پر جبرائیل علیہ السلام کی ہمراہی میں پہاڑوں کا فرشتہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حبیب اللہ! اگر آپ حکم کریں تو طائف کی وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے تو نبی مہرباں حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا'' اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے دے یہ پہچانتے نہیں ہیں۔‘‘
مکہ مکرمہ کی سرزمین پر جدوجہد کے 13طویل سال گزارنے بعد نبی کریم ﷺ نے اللہ کے حکم سے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی ۔ سرزمین مدینہ میں آپ ﷺ کی تشریف آوری سے قبل ہی اسلام کی دعوت زور پکڑنا شروع ہو چکی تھی ۔ آپ ﷺ کے تشریف لانے کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ اسلام اور امن کا گہوارہ بن گیا اور پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس اسلامی ریاست کا قیام مکہ مکرمہ میں صبرو استقامت کے ساتھ طویل جدوجہد کرنے کے نتیجے میں ہوا تھا ۔ حج کے موقع پر مدینہ طیبہ سے مکہ مکرمہ آنے والے بعض نفوس قدسیہ نے جب دعوت دین کو شرح صدر سے قبول فرمالیاتو مدینہ طیبہ میں اسلام کی دعوت انتہائی تیز رفتاری سے پھیلتی چلی گئی ۔ یہاں تک کہ اہل مدینہ رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے استقبال کے لیے آمادہ وتیار ہو گئے ۔
نبی کریم ﷺ نے مدینہ طیبہ میں جب پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی تو آپ ﷺ کی سیرت کی سیاسی جہت دنیا والوں کے سامنے آئی ۔ آپ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں بسنے والے تما م شہریوں کے ساتھ عدل و انصاف والا معاملہ کیا ۔مدینہ طیبہ کے دفاع کے لیے صرف مسلمانوں کو آمادہ وتیار نہیں کیا بلکہ شہر میں بسنے والے یہودیوں کے ساتھ بھی دفاع مدینہ کے لیے معاہدہ کیا ۔ شہر پاک میں بسنے والے یہودیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ سختی والا معاملہ نہیں کیا اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک روا نہیں رکھا گیا ۔ یہود و نصاریٰ کو دین کی دعوت تو دی جاتی رہی لیکن ان کو جبر اًدائرہ اسلام میں داخل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ وہ اپنے عقائد اورمذہبی معاملات میں مکمل آزاد تھے ۔ کئی مرتبہ یہود و نصاریٰ کے علماء نبی کریم ﷺ سے دین کے امور پر گفتگو کرنے کے لیے مسجد نبوی شریف تک بھی پہنچ جایاکرتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ اسلام پر ان کے اعتراضات کا جواب بڑے صبر و تحمل کے ساتھ دیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ کج بحثی کی وجہ سے آپﷺ نے نجران کے مسیحی وفد کو مباہلے کا چیلنج بھی دیا لیکن آپ ﷺ نے مذہبی مخالفین کے ساتھ جبر والا رویہ اختیار نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں کے کمزور طبقات کے ساتھ ساتھ ذمیوں اورمواحد کے حقو ق کا بھی تعین فرمایا اور ان لوگوں کی حق تلفی کرنے والوں کی شدیدانداز میں مذمت فرمائی ۔
نبی کریم ﷺ کے زیر قیادت چلنے والی پہلی اسلامی ریاست کفار مکہ کو ایک آنکھ نہ بھائی ۔وہ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے کہ مکہ کو خیرباد کہنے والے چند مسلمان اللہ کی زمین پر پوری وجاہت کے ساتھ آبا د ہو جائیں گے ۔ ان ظالموں نے مسلمانوں کے خلاف جارحیت کی منصوبہ بندی کی اور یکے بعد دیگرے کئی جنگوں کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا ۔ بدر، احد اور خندق میں تواتر کے ساتھ مسلمانوں اور کافروں کے مابین جنگیں ہوئیں ۔ان جنگوں میں مسلمان مستقل مزاجی کے ساتھ حصہ لیتے رہے ،جبکہ ہر جنگ کے بعد کافروں کے جارحانہ عزائم اور ارادوں میں کمی واقع ہوتی چلی گئی ۔ غزوہ احزاب کے بعدکافر دوبارہ مسلمانوں کے خلاف اتنی بڑی جمعیت کو اکٹھا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔
فتح مکہ اسلامی تاریخ کی منفرد فتح ہے کہ جس میں نبی کریم ﷺ نے دفاعی جنگ لڑنے کی بجائے کفار مکہ کے جبر اور استحصال کے خاتمے کے لیے اپنے دس ہزارجانثاروں کے ساتھ پیش قدمی فرمائی ۔ اس پیش قدمی کا یہ اثر ہو ا کہ کفار مکہ مسلمانوں کے مقابلے میں بے بس ہو گئے اور منظم اور باقاعدہ جنگ لڑے بغیر ہی پسپائی اختیار کرگئے ۔ نبی کریم ﷺ نے اس عظیم فتح کے موقع پر اپنے دیرینہ دشمنوں سے انتقام لینے کی بجائے عفو و درگزر کا رویہ اپنایا ۔آپ ﷺ کے اس رویے کو دیکھ کر آپ ﷺ کے ہزاروں مخالفین بھی حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔
فتح مکہ کے بعد بھی حنین و تبوک کے محاذوں پر نبی کریم ﷺ نے اسلام اور اسلامی ریاست کے مخالفین کے خلاف پیش قدمی فرمائی اور اللہ کی تائید اور نصرت کے ساتھ فتح یاب ہوئے ۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت مطاہرہ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حقیقی اسلام کی ریاست کے قیام سے پہلے آپ نے تلوار نہیں اُٹھائی اور مدینہ کے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے پُر امن طریقے سے جدوجہد فرماتے رہے ۔ چنانچہ اس دور میں بھی مسلمانوں کو آپ ﷺ کی سیرت سے حاصل ہونے والی روشنی میں پرامن سیاسی اور دعوتی طریقے سے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد جاری رکھنی چاہیے ۔
اس وقت جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن صاحب کے قتال فی سبیل اللہ کے متعلق ایک بیان کے حوالے سے معاشرے میں بڑی گرم بحثیں جاری وساری ہیں ۔اس حوالے سے میرا یہ موقف ہے کہ سید صاحب کابیان 67سال گزر جانے کے باوجود قیام پاکستان کے مقاصد پورے نہ ہونے پر انتہائی درجے کا رد عمل ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے قرار دادِمقاصد اور آئین ِپاکستان کتاب و سنت کی بالادستی کی ضمانت دیتے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جسم فروشی کے اڈوں ، بڑے ہوٹلوں میں بکنے والی شراب،سودی تجارت کی ریاستی سرپرستی اور سامراج کے غیر معمولی اثر کی موجودگی میں اسے حقیقی اسلامی ریاست کا درجہ حاصل نہیں ہے ۔اسلا م کے نفاذکے لیے تاحال مؤثر اور پائیدار عملی اقدامات نہیں کیے جاسکے ۔اگر ملک میں حدود اللہ کو نافذ کر دیاجائے،انتخابی عمل میں دینی جماعتوں کو ان کے جائز حق سے محروم نہ کیا جائے تو متنازع بیانات سے بچاجا سکتا ہے ۔ بہر کیف تدبر اور حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے پر امن سیاسی اور دعوتی جدوجہد کی جائے۔