موبائل فون اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے فاصلے سمٹ چکے ہیں ۔ دیارِ غیرمیں بسنے والے لوگ اب قریبی عزیزوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ سمندر پار بسنے والے یہ لوگ کبھی کبھارجب وطن عزیز واپس پلٹتے ہیں تو بہت چاہت سے ملاقات کرتے ہیں۔ اتنے فاصلے سے آنے والے یہ پردیسی ہماری محبتوں اور شفقتوں کے طلب گار ہوتے ہیں اور ان کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کئی مرتبہ ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ ان دوستوں کے ساتھ ہونے والی نشستوں میں بہت سی سبق آموز باتیں سننے اور کرنے کا موقع بھی ملتا ہے ۔
انہی چاہت رکھنے والے دوستوں میں کینڈا کے شفاء اللہ سکھیرابھی شامل ہیں۔شفاء اللہ کامیاب تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی کارکن بھی ہیں۔ ٹورنٹو کی ایک جامع مسجد کے ڈائریکٹر ہیں ۔ پاکستان سے بے پناہ محبت اور اس کی تعمیر و ترقی کے جذبات اپنے دل میں سموئے ہوئے ہیں۔ آپ چند روز قبل پاکستان تشریف لائے اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔
شفاء اللہ سے کئی برس کے بعد میری یہ دوسری ملاقات تھی ۔ انہوں نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں میری رائے جاننا چاہی تو میں نے انہیں کہا کہ پاکستانی قوم کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تعلیم اور سرمائے کے اعتبارسے تو کمزو ر نہیں لیکن ایمان اور تربیت کے اعتبار سے زوال پذیر ہیں۔ ہم سیاسی تبدیلی یاکسی سیاسی جماعت کے برسرِ اقتدار آنے سے حالات کی تبدیلی کی توقع کرتے ہیں حالانکہ من حیث القوم ہماری تربیت میں کمی واقع ہو چکی ہے ۔ تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد پیسہ کمانا بن چکا ہے ۔ ڈاکٹرز ، انجینئرز، بزنس پروفیشنلز،میڈیا پرسنزاورماہرین تعلیم کی اکثریت کے علم حاصل کرنے کامقصد ایک اچھا انسان بننے سے کہیں زیادہ چند روز میں امیرترین انسان بننا ہے ۔ اس مقصد کے حصو ل کے لیے ہم پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بھی مدنظر نہیں رکھتے اورہر جائز و ناجائز طریقے سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں ۔اسی طرح ہماری سیاست کا دائرہ کار بھی چند تعمیراتی پروجیکٹ اور اچھے اداروں کا قیا م رہ چکا ہے۔اگرچہ اچھے تعمیراتی منصوبے او ر مستحکم ادارے بھی وقت کی اہم ضرورت ہیں لیکن فقط ان منصوبوں کی تکمیل سے تقسیم ہند کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے ۔
بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح ، مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال ، مولانا محمدجوہر علی اور مولانا ظفر علی خاں نے جس مقصد کے لیے تاریخی جدوجہد کی تھی ابھی ان مقاصد کے حصول سے ہم کوسوں دور ہیں ۔
تحریکِ پاکستان کے قائدین نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کاوعدہ کیاتھا ۔67برس گزر جانے کے بعد بھی پاکستان نہ تو صحیح معنوں میںاسلامی ریاست بن سکا ہے اور نہ ہی ایک فلاحی مملکت میں تبدیل ہو سکا ہے۔ اسلامی پاکستان بنانے کے لیے گو بہت سی تحریکیں میدان عمل میں موجود ہیں لیکن جب تک سود کی ریاستی سرپرستی ہوتی رہے گی ، بڑے ہوٹلوں میں شراب بکتی رہے گی ، جسم فروشی کے کاروبار کو قانونی تحفظ حاصل رہے گا ، زنا بالجبر کے کیس تھانوں میں رپورٹ ہوتے رہیں گے اورجرائم کی بیخ کنی کے لیے قرآن وسنت میں موجود سزاؤں کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا‘ اس وقت تک پاکستان کو ایک اسلامی حقیقی ریاست قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
علمائے کرام اوردین پسند سیاست دانوں نے پاکستان کے آئین کو اسلام کے تابع کرنی کی بھرپور جدوجہد کی اور قرار داد مقاصد اور 73ء کے آئین نے قرآن وسنت کی بالادستی کی ضمانت دی لیکن یہ حقیقت ہے کہ نظریاتی اعتبارسے اسلام کی بالادستی کو تسلیم کرنے باوجود ابھی تک ریاست عملی اعتبار سے اسلام سے بہت دور ہے ۔ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت کو اپنے تجارتی اور پیشہ ورانہ اغراض و مقاصد سے غرض ہے اور یہی ان کی سیاست کا حاصل ہے۔ اسی نسبت سے وہ دینی جماعتوں کے بالمقابل روایتی سیاسی جماعتوں کی زیادہ تائید کرتے ہیں حالانکہ ایمان کا تقاضایہ ہے کہ دین کو بھی ریاستی امور میں ترجیحی حیثیت دی جائے تاکہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو بحال رکھا جا سکے۔ جہاں تک فلاحی ریاست کا تعلق ہے تو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں تاجر اور مال دار طبقہ تو بنیادی ضروریات کے علاوہ تعّیشات سے بھی لطف اندوز ہو رہا ہے جب کہ غریب طبقہ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے ۔اگرچہ کئی سرکاری ہسپتال اور سکول اچھی طبی سہولیات اور معیاری تعلیم فراہم کررہے ہیں لیکن آبادی کے تناسب سے ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دیہی علاقوں میںبالعموم علاج اور تعلیم کی صورتحال غیر تسلی بخش ہے اور عرصہ گزر جانے کے باوجود دیہی علاقوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ۔
اسی نشست میں مشرق و مغرب کے حالات کے درمیان بھی تقابل کیاگیا۔ میرا مشاہد ہ ہے کہ مغرب میں رہنے والے برصغیر کے لوگوں کی اکثریت مغربی تہذیب اور نظام سے بہت متاثر ہے اور مغرب کے نظام حکومت اور مغربی معاشروں کی کھل کر تائید کرتی ہے یہ بات مجھے مغرب میں بسنے والے بعض با عمل مسلمانوںمیں بھی نظر آئی ہے ۔ شفاء اللہ نے بھی کینیڈین اور مغربی معاشرت کا بڑے احسن انداز میں ذکر کیا کہ وہاں پر بنیادی انسانی سہولیات موجود ہیں اور لوگ روز گار کے حوالے سے بہت مطمئن ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ اہل مغرب نے بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خلافت راشدہ اور خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طرز حکمرانی سے واضح رہنمائی حاصل کی اور دو وقت کے معیاری کھانے ، تعلیم اور طب کی سہولیات کی فراہمی کو ہر فرد کے لیے یقینی بنایا ۔ لیکن مغربی طرز زندگی نے انسان کو اس کے مقصد حیات سے دور کر دیا ہے ۔ ان معاشروں میں حلال وحرام کی تفریق نہیں ہے اور جرائم کو صرف جبر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ۔ رضامندی کے ساتھ سنگین اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والے بھی ان معاشروں میں قابل مواخذہ نہیں ہیں۔ یہ معاشرے سود اور شراب کی دلدل میںاترے ہوئے ہیں اور سود کے پھیلاؤ کا حال یہ ہے کہ شاید ہی کوئی اس کے اثرات بد سے محفوظ ہو۔ ان معاشروں کی سب سے بڑی قباحت بے مروتی ہے ۔ زندگی اتنی تیز رفتارہے کہ قریبی رشتوں کے لیے بھی یہاں وقت موجود نہیں ہے ۔ اس طرز زندگی میں سست روی یا اعتدال سے سفرکرنے والے لوگ مختلف ذہنی عارضوں بالخصوص احساس تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اگرمادی ترقی ہی سے انسان کے سارے مسائل حل ہو جاتے تو مغرب میں کوئی نفسیاتی مریض نظر نہ آتا لیکن اہل مغرب کے نفسیاتی مسائل نے روحانی ضروریات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے ۔
میں نے اس موقع پر شفاء اللہ کے سامنے اپنے موقف اور مشاہدے کو رکھا کہ گو پاکستان میں بہت سے معاشی مسائل ہیں لیکن آج بھی عائلی زندگی متوازن ہے اور لوگوں کی اکثریت کو رشتوں کا پاس ہے ۔لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میںشریک ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کینیڈا میں طلاق کی شرح بہت بڑھ چکی ہے اور معمولی تنازعات پر لوگ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں۔ خود پسندی اور انانیت کی وجہ سے کوئی کسی کی بات کوگوارا نہیں کرتا اور فی الفور زندگی کے راستے علیحدہ کرلیے جاتے ہیں ۔ اگر پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن جائے اور ہمارے قائدین اسلام اور عوام سے مخلص ہو جائیں تو آج بھی دنیا میں رہنے کے لیے اپنے وطن جیسی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے عوام کو اپنے ایمان اور نسل نوکی تربیت کا معیار بلند کرنا ہوگا۔ صرف سیاست اور چہروں کی تبدیلی سے یہ عمل مکمل نہیں ہو سکتا ۔