گزشتہ ایک ماہ کے دوران مجھے بہت سے دینی اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا ۔جن میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں احباب نے ایک بڑی نفاذاسلام کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے ۔ اسی طرح واپڈا گراؤنڈ سیالکوٹ میں بھی ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا جس میں ضلع بھر سے دین سے محبت کرنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ شیخوپورہ کے قریبی قصبہ فیروز وٹواں میں بھی ایک بڑا جلسہ ہوا ۔ اسی طرح لاہور کے کاروباری مرکز اعظم مارکیٹ میں واقع یو کے سنٹر کی انتہائی خوبصورت مسجد میں بھی تاجر طبقے کا ایک نمائندہ اجتماع ہوا ۔
ان اجتماعات کے ساتھ ساتھ ملک کی دو بڑی دینی تحریکوں جماعت اسلامی اور جماعۃ الدعوۃ نے بھی تھوڑے تھوڑے وقفوں سے مینار پاکستا ن کے وسیع پنڈال میں اپنے اجتماعات کا انعقاد کیا ۔ ان دونوں اجتماعات میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی ۔
جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ صاحب سے میرے تعلقات جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم کے دورِ امارت سے ہیں ۔قاضی حسین احمد مرحوم انتہائی پر شفقت اور محبت کرنے والے انسان تھے ۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے مجھ سے بھی بہت پیار والا برتاؤ رکھا ۔ وہ جب تک زندہ رہے ،ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے مجھے بھی کونسل کے پروگراموں میں مدعو کرتے رہے ۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی برادرم لیاقت بلوچ ، فرید احمد پراچہ اور امیر العظیم کے ساتھ بھی بہت اچھے مراسم چلے آ رہے ہیں ۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب کی طرف سے موصول ہونے والی دعوت پر میں جماعت اسلامی کے بین الاقوامی سیشن میں شریک ہوا ۔ اس سیشن میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض عبدالغفارعزیزنے سر انجام دیے۔ عبدالغفار صاحب عربی زبان کے ماہر اور بہت ہی جچی تلی گفتگو کرنے والے انسان ہیں ۔ آپ نے بین الاقوامی تحریکوں کے قائدین کی نہایت احسن انداز میں نمائندگی اور ترجمانی کی ۔ ان تحریکوں کے قائدین نے اجتماعات کے شرکاء کو اپنے اپنے ممالک میں چلنے والی تحریکوں کی کارکردگی سے آگاہ کیا اوربتلایا کہ یہ تحریکیں کس طرح مختلف نشیب و فراز سے گزرتی رہیں۔ داخلی اور خارجی دباؤ کے باوجود بھی ان تحریکوں نے جدوجہد کو جاری رکھا اور دنیاکے مختلف معاشروں میںگہرے سیاسی اور سماجی اثرات مرتب کیے ۔ کئی تحریکوں کے قائدین برس ہا برس تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے لیکن ہر طرح کی مشکلات اور نا مساعد حالات کے باوجود بھی ان جماعتوں نے اپنا تنظیمی اور تحریکی سفر جاری رکھا ۔ ان قائدین کی گفتگو سے سٹیج پر بیٹھے ہوئے رہنماؤں اور مجمع میں شریک عوام کو نیا حوصلہ اور توانائی حاصل ہوئی ۔
بعد ازاں بین الاقوامی تحریکوں کے قائدین کے اعزازمیں دنیا نیوز نے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک پر وقار ضیافت کا بھی اہتمام کیا ۔جس میں ملک کی نمایاں سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی ۔ میری میز پر جماعت اسلامی ہندوستان کے امیر بھی موجود تھے ۔ان سے حالات حاضرہ پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی ۔ اس تقریب میں برادرم عبدالغفار عزیز نے بین الاقوامی تحریکوں کے قائدین کا تعارف بھی کروایا اور اپنے اپنے ممالک میں ان کے اثرات اور کارکردگی سے آگاہ بھی کیا ۔
جماعت اسلامی کے اجتماع کے فوراً بعد جماعۃ الدعوۃ نے مینار پاکستان میں ہونے والے اجتماع کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ اس اجتماع کے لیے مینار پاکستان کو ایک بار پھر خیمہ بستیوں سے آباد کر دیا گیا ۔ اجتماع کے شروع ہونے سے قبل ہی شہر کی فضاؤں اورذرائع ابلاغ پر اجتماع کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ۔ جماعۃ الدعوۃ نے بھی مجھے خطاب کی دعوت دی ۔ جمعرات کی دوپہر میں اپنے قریبی رفقاء کے ہمراہ اجتماع گاہ میں پہنچا ۔ استقبال کے لیے جماعت کے متحرک رہنما برادر امیر حمزہ اور قاری یعقوب شیخ صاحب موجود تھے ۔ یہ دونوں رہنما امیر جماعت الدعوۃحافظ محمد سعید کے دو بازوں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ عرصہ درازسے ہونے والی ملاقاتوں کی وجہ سے دونوں سے گہری مانوسیت ہے ۔ ان کی ہمراہی میں قومی رہنماؤں کے لیے بنائے گئے خیمے میں پہنچا ۔ جہاں پر ملک کی اکثر دینی جماعتوں کی مرکزی قیادت موجود تھی ۔ قائدین کے خیمے کے ساتھ متصل خیمے میں ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔ کھانے اور نماز عصر سے فارغ ہو کر کانفرنس کی قومی نشست کا باقاعدہ آغازتلاوت قرآن مجید سے ہوا ۔ قاری عبدالودود عاصم صاحب کی روح پرور تلاوت سے مجمع پر ایک روحانی کیفیت طاری ہو گئی ۔ تلاوت کے بعد ایک ترانہ پڑھا گیا جس کے بعد امیر جماعت الدعوۃ حافظ محمد سعید صاحب نے اپنا افتتاحی خطاب کیا اور ''نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستا ن ہے ‘‘ کے عنوان سے حاضرین کے سامنے مختصر اندا ز میں اپنا بیان رکھا اور ملک کی مذہبی اور دینی جماعتوں کے قائدین کو بھی اسی موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی ۔ تمام قائدین نظریہ پاکستان اور پاکستان کے معروضی حالات کے حوالے سے پرُمذہب گفتگو کرتے رہے ۔ مجھے بھی اس حوالے سے خطاب کی دعوت دی گئی اس موقع پر میں نے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں جو گفتگو کی اس کو نظر قارئین کرنا چاہتاہوں۔
تقسیم ہند کی وجہ جہاں مسلمانوں کی سیاسی حق تلفی تھی،وہیں پر علیحدہ وطن کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ مسلمان ایک ایسی ریاست کا حصول چاہتے تھے جہاں پر وہ دین کے اعلیٰ اصولوں پر عمل پیراہو کر زندگی گزار سکیں ۔ حضرت محمد علی جناح ، حضرت علامہ اقبال ، حضرت مولانا محمد علی جوہر ، حضرت مولانا ظفر علی خان اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کی جدوجہد کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ مسلمانان ِ ہند کے لئے ایک اسلامی فلاحی ریاست کو قائم کیا جائے ۔
نظریہ پاکستان کی بنیاد پر بڑی تعداد میں مسلمانوں نے ہجرتیں کیں ، عورتوں کی عزتیں پامال ہوئیں ، نوجوانوں اور بچوں کو شہید کیا گیا ، بوڑھوں کی داڑھیاں لہو میں رنگین ہوئیں اور بالآخر مسلمانوںکو ان کے خوابوں کی تعبیر حاصل ہوئی ۔ ایک کثیر القومی ریاست میں بسنے والے تمام مسلمان مذہب کی بنیاد پر باہم متحدہوئے لیکن قوم پرستی کے ناسور کی وجہ سے 1971ء میں پاکستان دو لخت ہوگیا ۔ اندرا گاندھی نے اس موقع پر طعنہ دیا کہ میں نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے ۔ مشرقی پاکستان کا سقوط پاکستانیوں کے لیے ایک بہت بڑی تنبیہ تھی ۔ لیکن بدقسمتی سے قومی ، لسانی ،مذہبی اور سیاسی تقسیم پر قابو نہ پایا جا سکا اسی طرح ملک میں قحبہ گری، شراب فروشی اور سود خوری کا خاتمہ بھی نہ کیا جاسکا جس کی وجہ سے پاکستان ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست نہ بن سکا ۔
پاکستان آئینی اورفکری طور پر یہ ایک فلاحی ریاست ہے لیکن عملی طورپر بہت کچھ ہونا باقی ہے ۔ پاکستان میں موجود سیاسی ، لسانی ،مذہبی اورقومی انتشار کا حقیقی تدارک آج بھی نظریہ پاکستان میں پنہاں ہے ۔ پاکستان کے تمام طبقات کے درمیان مشترک قدر آج بھی ہمارا مذہب ہے ۔ قرآن مجید کو پڑھنے والے ،رسول ﷺ کی رسالت کو ماننے والے اور کعبے کی طرف چہرہ کرکے نمازوں کو اداکرنے والے لوگ خواہ کسی بھی قوم سے تعلق رکھتے ہوں، ان کومذہب کی بنیاد پر متحد رکھا جا سکتا ہے ۔ ریاستی امور سے مذہب کی لا تعلقی کی وجہ سے ہمیں سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے کو سہنا پڑا ۔ اب ہم مزید کسی سانحے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہمیں اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے ۔ نقطہ اتحاد صرف اور صرف قرآن وسنت ہے ۔اگر آ ج ہم لاالہ الا اللہ کے نعرے پر اکٹھے ہوجائیں تو پاکستان کی تخلیق کا سبب بننے والا یہ نعرہ ہماری بقاء اور ترقی کا ضامن بن سکتا ہے ۔ دینی جماعتوں کے ان اجتماعات میں عوام اور حکمرانوں کے سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے بشرطیکہ وہ سننے ،سوچنے اور سمجھنے کے لیے تیار ہوجائیں ۔