"AIZ" (space) message & send to 7575

معذورافراد کی بحالی

انسانی معاشرے میں بسنے والے تمام لوگ ایک ہی جیسی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کے حامل نہیں ہوتے بلکہ مختلف طرح کی طبعی اورفکری صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور انہی کے لحاظ سے دو مختلف طرح کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ معاشرے میں بسنے والے بعض لوگ کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار بھی ہوجاتے ہیں ۔
یہ لوگ بسا اوقات غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کے حامل ہو تے ہیں اور ان کا جسمانی نقص ا ن کی عملی استعدادکے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتا ؛ بلکہ بسا اوقات یہی نقص ان کی ذہنی صلاحیتوں کو دو چندکر دیتا ہے ۔ ایک صحت مند معاشرہ ایسے افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے اورانہیں عضو معطل بنانے کی بجائے معاشرے کا کارآمد رکن بناتا ہے۔ اس کے برعکس اخلاقی انحطاط اور روحانی تنزل کا شکار معاشرے میں ان کے ساتھ نامناسب سلوک کیا جاتاہے جس کی وجہ یہ لوگ جسمانی محرومیوں کے ساتھ ساتھ ذہنی محرومیوںکا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی معذور افرادکے ساتھ نامناسب سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کی عملی، فکری اور ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے انہیںکنارے پر لگایا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہ ذہنی اعتبار سے بھی کارآمد نہیں رہتے۔ پاکستان میں اگرچہ معذور افراد کے لیے ملازمتوںمیں دو فیصد کوٹہ رکھا گیا ہے لیکن فی الحقیقت اس کوٹے پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ چند روز قبل لاہور میں بے روزگاری اور غربت کے ستائے ہوئے بعض نابینا لوگ اپنے معاشی حقوق کی بحالی کے لیے وزیر اعلیٰ ہائوس جا رہے تھے کہ پولیس کے بعض غیر ذمہ دار عناصر نے انہیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا اور قوم کے سر شرم سے جھکا دیے۔ جیسے ماضی میں ہونے والی کئی محکمانہ اور حکومتی بے اعتدالیوں کے خلاف ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے اسی طرح یہ معاملہ بھی داخل دفتر ہوجائے گا۔ لیکن اس واقعے نے صاحب دل لوگوں کی توجہ ایک اہم معاشرتی المیے کی طرف مبذول کرودی ہے۔ 
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،ناتواں اور معذور لوگوں کے بارے میں بھی اس کی تعلیمات واضح ہیں۔ آغاز اسلام میں کسی جسمانی عیب کی وجہ سے کسی مسلمان کی قدر و منزلت میںکبھی کمی نہیںکی گئی۔ اسلام میں فضلیت کا اصل معیار ایمان ، علم اور تقویٰ ہے اور اگر کوئی معذور فرد ان اوصاف سے بہرہ ور ہو تو اس کو بھی اسی طرح عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے جس طرح ایک تندرست اور توانا انسان کی قدرکی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ صحابہ کرام میں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ سورۃ عبس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت رسول اللہ ﷺ کو بھی حضرت عبداللہ ابن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کے ساتھ شفقت اور الفت کا برتاؤ کرنے کی تلقین فرمائی ۔ یہیں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجیدکی تعلیمات معذور افراد کے بارے میں کتنی واضح ہیں ۔
اگر عصری معاشروں پر نظر دوڑائی جائے تو بھی اس حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے کہ بعض معذور افراد نے اپنے معاشروںکی اصلاح کے لیے نمایاںکردار ادا کیا۔ ہیلن کیلر اندھی اور بہری ادیبہ تھیں جنہوں نے انگریزی ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ اسی طرح ڈاکٹر طحہٰ حسین عربی کے ایک بڑے ادیب تھے جو نابنیا ہونے کے باوجود انتہائی خوبصورت نثر لکھتے رہے اور اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے مصرکے وزیر تعلیم بھی رہے۔ سعودی عرب کے نامور عالم دین اور سابق مفتی اعظم شیخ عبداللہ عبدالعزیز بن باز بھی نابینا تھے، اس کے باوجود فقہی بحوث پر مکمل عبور رکھتے اور دینی مسائل کا نہایت احسن انداز میں احاطہ کرتے تھے۔
گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد نے جہاں مولانا ظفر علی خان جیسے عظیم صحافی کو جنم دیا وہیں پنجاب کے بہت بڑے محدث حافظ عبدالمنان رحمۃ اللہ کاتعلق بھی وزیر آباد سے تھا۔ حافظ عبدالمنان وزیر آبادی نابنیا ہونے باوجود احادیث کے متون اوراسناد پرگہری نظر رکھتے تھے ، طویل عرصہ بخاری شریف کا درس دیتے رہے اور پنجاب کے کئی نامور علماء آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں۔
میں نے ایف ایس سی کے امتحانات کے بعد نتیجے تک ہونے والی تعطیلات میں قرآن مجید کے حفظ کا آغازکیا۔ اس مقصد کے لیے میں شیرانوالہ گیٹ لاہور میں اعظم مارکیٹ سے متصل جامع مسجد لسوڑیاں والی میں جایا کرتاتھا جہاں استاذ القراء قاری ادریس عاصم صاحب اورحافظ فیاض مرحوم تجوید اور حفظ کے شعبے کی نگرانی کیاکرتے تھے۔اس دوران دو نابینا طالب علم بھی مدرسے میں اپنی منزل دہرانے آیا کرتے تھے۔۔۔۔۔ حافظ ارشد یزدانی اور قاری محمد اکرم کی منزل انتہائی مضبوط تھی اور قرآن مجید کی منزل میں خال خال ہی مغالطے کا شکار ہوتے۔ ان کے حفظ کو دیکھ کر دیگر طالب علم رشک کیا کرتے اور مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ان طالب علموں نے مصحف کو دیکھے بغیر قرآن مجید یادکیا ہے۔ 
میں نے گزشتہ تین برسوں کے دوران برطانیہ کے متعدد سفرکیے جن کے دوران جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کا موقع ملتا رہا وہاں مشرقی لندن میں مقیم پراپرٹی کا بزنس کرنے والے ایک کامیاب تاجر عمر فاروق صاحب سے بھی متعدد ملاقاتیں ہوئیں جو پیدائشی نابینا نہیں ۔۔۔۔۔ ان کی ایک آنکھ سیاہ موتیا اور دوسری غم کی وجہ سے ضائع ہوگئی۔ دوسری آنکھ ضائع ہونے کے بعد انہوں نے مزید غم کرنے کے بجائے اس محرومی کو زندگی کا روگ نہیں بنایا بلکہ پوری ہمت سے زندگی کے نشیب و فرازکا مقابلہ کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور اس وقت اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ہمراہ مثالی زندگی گزار رہے ہیں۔گھر سے دفتر با قاعدگی سے جاتے ہیں ، بین الاقوامی سفر کرتے ہیں اور پاکستان سے جانے والے دوست احباب کی میزبانی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
میرے برادر نسبتی کا بڑا بیٹا پیدائشی بہرے پن کا شکار تھا۔ بھائی عبداللہ اور ان کی اہلیہ نے مایوس ہونے کے بجائے جدید طبی سہولیات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسے برقی سماعت کا آلہ لگوا دیا۔ ابتدائی طور پر تو بچے کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کمزور تھی لیکن اللہ کے فضل سے بتدریج اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ اب الحمد للہ اس میں سوچنے سمجھنے کی بہترین صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ اپنی جماعت کے دیگر طالب علموں کے مقابلے میں کسی بھی اعتبار سے پیچھے نہیں ہے۔
زندگی کا سفر رکتا نہیں بلکہ چلتا رہتا ہے اور اس سفر میں جہاں ہمارے ساتھ بہت سے تندرست لوگ شریک ہوتے ہیں وہیں بہت سے معذور بھی ہمارے ہمراہ ہوتے ہیں۔ ہم اپنی توجہ ، پیار اور شفقت سے ان لوگوں کو معاشرے کے کار آمد اور باوقار افراد بنا سکتے ہیں اور حقارت اورنفرت کا سلوک کرکے ان کی بیچارگی اور احساس محرومی میں بہت زیادہ اضافہ بھی کر سکتے ہیں ۔
انسانی معاشروں میں لوگوںکی غالب اکثریت میںکمزوریاں اورکوتاہیاں ہوتی ہیں، یہ الگ بات کہ کئی دفعہ وہ جسمانی کمزوری یا معذوری کی طرح ظاہر نہیں ہوتیں اور کئی مرتبہ ظاہر ہونے کے باوجود بھی ان کو نظر اندازکر دیا جاتا ہے۔ یہ بھی بہت بڑا المیہ ہے کہ بہت سے لوگ سود خور ، زانی ، شرابی ، ظالم ، دھوکے باز یا فریبی انسان سے اتنی کراہت نہیں کرتے جتنی ایک معذور انسان سے کرتے ہیں ؛ حالانکہ حقیقی عزت اور کرامت انسان کے جسم میں نہیں بلکہ اس کے کردار میں ہوتی ہے ۔ فرعون ، قارون ، ہامان ، شداد ، ابوجہل اور ابولہب جیسے سیکڑوں لوگ اپنے اقتدار اور مادی عروج کے باوجود خالق کائنات کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جبکہ عبداللہ ابن مکتوم ؓ جیسے نابینا صحابی کی عظمت کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃعبس کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں ۔کاش ہمارے اربابِ اختیاراور خود پسند سرمایہ داروں کو بھی معذور افراد کی حرمت اور اہمیت سے متعلق احکامات الٰہی اور تعلیمات نبوی کی سمجھ آجائے کہ جن کی تجوریوں کے منہ تعیشات کے حصول کے لیے تو ہر وقت کھلے رہتے ہیں لیکن وہ معذور افراد کی بحالی کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں