انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل کی عظیم نعمت سے سرفراز کیا جسے استعمال کرکے انسان مختلف علوم و فنون کی باریکیوں کو سمجھتا رہتا ہے ۔ علوم کے بند دروازوں کو کھولنے کے لیے علم کے ساتھ ساتھ مشاہدات اور تجربات بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیوٹن نے سیب کو گرتادیکھ کر کشش ثقل کی حقیقت پر غورکیا اور رائٹ برادران نے بھاپ اور ہواکی قوت کو دیکھ کر اپنے ذہنوں میں اْڑنے والے جہازوں کا تصور تراشا تھا ۔
علاج معالجہ اور طب کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے ۔ حکماء اور معالجین عرصہ دراز سے انسانی بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج میں مصروف ہیں ۔ حکماء اورا طباء میں سے بعض نے اپنے علم اور لیاقت کی وجہ سے غیر معمولی شہرت بھی حاصل کی ہے ۔ ان حکماء میں سے بعض جڑی بوٹیوں کے خصائص پر غور وخوض کرنے کے بعد انسانوں کے لیے انتہائی موثر ادویات بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ بعض قدیم ادویات میں آج بھی غیر معمولی اثر ہے اور طب کی ترقی کے باوجودجدید اطباء بھی ان کے اثرات کا انکار نہیں کرتے ۔ طب کی ترقی میں فن جراحت نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے اور جراحی کی ترقی کی وجہ سے معاملات انسانوں کے بیکار اور متاثرہ ا عضاء کی کانٹ چھانٹ اور ان کی پیوندکاری تک پہنچے ۔ فی زمانہ سرجری بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے اور دل، گردہ، جگر سے لے کر آنکھ اور دماغ کی باریک رگوں تک کے کامیاب آپریشن کیے جاتے ہیں اور یوں کئی موذی اور مہلک بیماریوں سے نجات حاصل کی جاتی ہے ۔ جدید طب کے لیے کینسر ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ کینسر کا مریض ابتدائی مراحل میں تو کیموتھراپی کی وجہ سے شفایاب ہو جاتا ہے لیکن آخری مراحل میں پہنچ جانے والا مریض عموما ًاس مرض سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔
اسی طرح ایڈز کی مہلک اور اذیت ناک بیماری بھی ناقابل علاج بیماریوں میں شمار ہوتی ہے ۔ انسان کے مدافعتی نظام کو تباہ کر دینے والا یہ موذی مرض انتقال خون کے ساتھ ساتھ ناجائز جنسی تعلقات کی وجہ سے بھی ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقل ہوتا ہے ۔ ایڈ ز کا شکار انسان دیکھتے ہی دیکھتے موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے ۔ اطباء اور معالجین اس تکلیف دہ بیماری کے علاج کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں لیکن تاحال اس کے لئے کوئی موثر علاج تجویز نہیں کیا جا سکا۔
ایک دور تھا جب تپ دق کو انتہائی مہلک اور ناقابل علاج مرض سمجھا جاتا تھا لیکن معالجین کی تحقیق اور محنت کی وجہ سے اب یہ مرض قابل علاج ہے ۔ طویل عرصہ تک اس مرض کی وجہ سے لوگ موت کے گھاٹ اتر تے رہے لیکن آج الحمدللہ ایسی ادویات تیار کی جا چکی ہیں جن کے استعما ل کی وجہ سے تپ دق کا مریض بالعموم ایک برس کے اندر اندر اس کے منفی اثرات سے نجات حاصل کرلیتا ہے ۔
ماضی میں ہونے والی طبی ترقی کو دیکھ کر اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب کینسر اور ایڈز جیسے مہلک امراض کا علاج بھی دریافت کرلیا جائے گا۔ فی زمانہ طریقہ علاج تین مختلف اقسام میں تقسیم ہو چکا ہے۔
(1) حکمت (2)ایلو پیتھی (3)ہومیو پیتھی
ان طریقہ ہائے علاج سے وابستہ معالجین اپنے اپنے انداز میں انسانی بیماریوںکی تشخیص اور علاج میں مصروف ہیں ۔ ایلو پیتھک طریقہ علاج نے ان تمام اقسام میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے جس کی وجہ اس علاج کی بین الاقوامی شناخت اور سرکاری سرپرستی ہے ۔ اگرچہ آج بھی ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے حکیم اورہومیوپیتھک ڈاکٹر موجود ہیں لیکن ان شعبوں میں جعلی اور غیر سند یافتہ لوگو ں کی بڑی تعداد بھی کام کر رہی ہے ۔ ان جعلی حکماء کی وجہ سے کئی مرتبہ حکمت کے شعبے پر انگلی اٹھائی جاتی ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد کسی غلط تجربے کی وجہ سے اس طریقے سے بد گمان ہو جاتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ جدید ایلو پیتھک طریقہ علاج کا بھی کسی نہ کسی اعتبار سے حکمت کے ساتھ تعلق ہے اور بہت سی بیماریوں کے علاج اور تشخیص میں حکمت نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بھارت میں آج بھی طبیہ کالجز بڑے با وقار انداز میں کام کر رہے ہیں۔ دہلی میں قائم طبیہ کالج میں حکیم اجمل خاں جیسے غیرمعمولی حکیم بھی استاد رہے ۔ نانا مرحوم حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ بھی طبیہ کالج کے فارغ تھے اور پھلبہری ،دمہ اور بانجھ پن جیسی بیماریوں کا انتہائی موثر علاج کیا کرتے تھے ۔ حکیم محمد سعید بھی ایک مستند اور ماہر حکیم تھے اور ان کے قائم کردہ ہمدرد دواخانے نے حکمت کے وقار کو قائم رکھا اور بہت سی فائدہ مند ادویات تیار کیں۔ کوالٹی کنٹرول کی وجہ سے تاحال عوام کی بڑی تعداد ان ادویات سے استفادہ کر رہی ہے ۔
جعلی حکماء کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ حکمت اور ہومیو پیتھک شعبوںکی سرکاری سرپرستی کرے تاکہ ایلو پیتھک طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ علاج کے ان طریقوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ قرآن وسنت کی تعلیمات کا بنیادی مقصد تو انسانوں کو گمراہیوں کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنیوں کی طرف لانا تھا لیکن قرآن وحدیث کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بھی بہت سی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا انتہائی موثر علاج تجویز کیا ہے ۔ جدید طبی سہولیات سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اگر قرآن وسنت میں موجود رہنمائی سے بھی فائدہ حاصل کرلیا جائے تو یقینا انسان صحت مند اور خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں ۔
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ اس نے قرآن مجید کومومنوں کے لیے شفاء اور رحمت بنایا ہے۔ سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کوسینے کی بیماریوں اور روگ کے لیے شفاء قرار دیا ہے ۔ قرآن مجید کی تلاوت سے انسان کو فکری یکسوئی اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے ۔دل میں تلاوت قرآن مجید کے سبب پیدا ہونے والے ٹھہراؤکی وجہ سے انسان کے دل کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور فکری انتشار کے دور ہونے کی وجہ سے انسان کو مسرت اور خوشی کابھی احساس بھی ہوتا ہے ۔
قرآن مجید کی سورہ فاتحہ، سورہ بقرہ، سورہ فلق اور سورہ الناس میں بہت سی روحانی بیماریوں کا علاج ہے ۔ ان سورتوں کی بکثرت تلاوت کے اثر سے انسان جادو ، ٹونے اور شیطانی اثرات سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے ۔ جدید طب جادو ٹونے اور شیطانی اثرات کے علاج کے بارے میں رہنمائی نہیں کرتی اور نہ ہی یہ اس کا دائرہ کار ہے ۔بہت سے مستند معالج اور ڈاکٹر سرے ہی سے ان اثرات کا انکار کر دیتے ہیں اور ان کو وہم اور ذہنی انتشار سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اگرچہ بہت سے مریض حقیقت میں وہم اور ذہنی امراض کا شکار بھی ہوتے ہیں لیکن جادو اور شیطانی اثرات بھی ایک قطعی حقیقت ہیں ۔ علم اور مشاہدہ ان امراض کی حقیقت پر شاہد ہے ۔ ان موذی امراض سے نجات حاصل کرنے کے لیے تلاوت قرآن سے موثر کوئی اور تدبیر نہیں ۔ احادیث مبارکہ میں بھی حادثات اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے بہت سی دعائیں بتلائی گئی ہیں جن کا ورد بیماریوں سے بچاؤ اور ان کے علاج کیلئے انتہائی مفیداور موثر ہے ۔
قرآن وسنت میں مذکور دعاؤں اور اذکارکے ساتھ ساتھ قرآن حدیث میں ایسی اشیاء کا ذکربھی موجود ہے کہ جن کے استعمال سے انسانی بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ سورۃ نحل میں اللہ تعالیٰ نے شہد کو انسانی بیماریوں کے لئے شفاء قرار دیا ہے ۔ اسی طرح نبی کریم ﷺنے کلونجی کو جملہ بیماریوں کے لیے شفاء قرار دیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ اس میں موت کے علاوہ ہر مرض کی شفاء ہے۔اسی طرح نبی کریمﷺنے آب زم زم کوہر اس کام کے لئے فائدہ مند قرار دیا ہے کہ جس کی نیت سے اسے پیا جائے ۔ مدینہ منورہ نخلستان ہے جس میں قسم ہا قسم کی خوش ذائقہ کھجوریں پیدا ہوتی ہیں ۔ ان میں سے ایک خاص قسم عجوہ بھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عجوہ کھجور کو جادو کاعلاج اورکاٹ قرار دیا ہے ۔ آپ ﷺ نے بیرونی استعما ل کے لیے زیتون کے تیل کو تجویز فرمایا ہے اور زیتون کو با برکت درخت قرار دیا ہے ۔
نبی کریم ﷺجہاں مذہبی ،سیاسی اور سماجی رہبر تھے وہیں پرآپ روحانی اور جسمانی طبیب بھی تھے۔ ہمیں جدید طب اورعلاج معالجہ کی سہولیات سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺکی تعلیمات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے اور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیروتشکیل کے لیے آپ ﷺکے ارشادات اور تعلیمات سے بھرپور رہنمائی لینی چاہیے ۔