اُمت مسلمہ کی تاریخ میں تین المناک سانحے ایسے گزرے ہیں کہ جن کی کسک آج بھی اسلامیانِ عالم اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور جب بھی ان کی یاد آتی ہے ہر حساس مسلمان کا دل دکھ اور کرب کے احساسات سے لبریز ہو جاتا ہے ۔ پہلا المناک واقعہ سقوط ِبیت المقدس کا تھا ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کی چابیوں کے حصول کے لیے خود مسلمانوں کے دارالخلافہ کو خیرباد کہا تھا اور عہد فاروقی رضی اللہ عنہ کے بعد کئی صدیوں تک انبیاء علیھم السلام کی اس مسجد کے میناروں سے تواتر کے ساتھ حیَّی عَلَی الصَّلاۃ اور حیَّی عَلَی الفَلاح کی روح پرور صدائیں بلند ہوتی رہیں اور پھروہ وقت بھی آیا جب صلیبیوں نے یلغار کرتے ہوئے بیت المقدس کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے مسلمانان ِعالم کی بیداری کے لیے بے مثال جدوجہد کی اور صلیبی جنگوں میںصلیبیوں کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر القدس کو باز یاب کروالیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے عہد سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک مسلمان بیت المقدس کے علاقے کے حکمران رہے ۔ عرب مسلمانوں کی اوطان میں تقسیم اور قومی تعصبات کے نتیجے میں یہودی اس قابل ہوئے کہ انہوں نے 1967ء میں بیک وقت مصر ، اردن ، لبنان اور عراق کو شکست سے دوچار کر دیا اور قبلہ اوّل کو اپنی تحویل میں لے لیا ۔ گزشتہ 47برسوں کے دوران غزہ اور فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا لیکن قومیتوں میں تقسیم مسلمان اپنے ان بھائیوں کو یہود کے پنجہ ستم سے نجات دلانے کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھا سکے ۔
دوسرا المناک سانحہ سقوط بغداد کا تھا مسلمانوں کے قصرِخلافت پر کی جانے والی یلغار اس قدر شدید تھی کہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ۔ دجلہ فرات کے دریا جو مدت مدید تک مسلمانوں کے عروج کے شاہد رہے‘ ان دریاؤں کے پانی مسلمانوں کے کتب خانوں میں موجود کتابوں کے بہائے جانے کی وجہ سے سیاہی مائل ہو گئے اور انہی دریاؤں کا پانی مقتو ل مسلمانوں کے لہو سے سرخ بھی ہوا ۔ مسلمان اپنی نا اتفاقی اور کتاب وسنت کی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے جارحیت کا ارتکاب کرنے والے عناصرکے مقابلے میں ہر اعتبار سے بے بس اور بے کس ہو گئے ۔
تیسرا المنا ک سانحہ سقوط ڈھاکہ کا ہے ۔ مسلمانوں نے محمد بن قاسم کی برصغیر میں تشریف آوری سے بہادر شاہ ظفر کے محدود اقتدار تک‘ گیارہ صدیوں سے زائد عرصہ تک برصغیر پر حکومت کی تھی ۔ مسلمانوں نے برصغیر کی تعمیر وترقی ، تہذیبی اور سیاسی ارتقاء کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے برصغیر میں داخل ہونے والاانگریزرفتہ رفتہ مسلمانوں سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز فاتحین کا اصل ہدف اقتدار سے محروم ہونے والے مسلمان تھے ۔ مسلمانوں کو اقتدار پر براجمان ہونے کی وجہ سے براہ راست انتقام کا نشانہ بنایا گیا ۔ مسلمانوں نے سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم ہونے کی وجہ سے ہندوؤں کی ہمراہی میں انگریزوں سے آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا لیکن مسلمان رہنما بتدریج اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے، چنانچہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لئے بھرپور تحریک چلائی گئی ۔ تحریک کے قائدین حضرت محمد علی جناح ، حضرت علامہ محمد اقبال اور دیگر رہنماؤں نے ایک علیحدہ اسلامی رفاہی مملکت کے حصول کے لئے بھر پور جدوجہد کی۔ تمام تر لسانی‘ فرقہ وارانہ اور نسلی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر تمام طبقات زندگی نے قائدین تحریک پاکستان کی قیادت میںپر خلوص کوششیں کیں اور بالآخر دنیا کے نقشے پر پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت کی حیثیت سے ابھر آیا ۔
اس عظیم جدوجہد کے پس منظر میں مسلمانوں کی اپنے مذہب سے والہانہ محبت تھی ۔ برصغیر کے طول و ارض میں عوامی سطح پر ایک ہی نعرہ لگایا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نعرہ کثیر القومی ریاست کے اتحاد اور اس کی اندرونی قوت کی علامت تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان بدنصیبی سے ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل نہ ہو سکااور اس کے ساتھ ساتھ ملی وحدت کے بر خلاف مختلف قومیتوں کے درمیان اپنے اپنے حقوق کے حصول کے لیے تنازعات کا بھی آغاز ہو گیا ۔ پہلا تنازع اردو کے ساتھ بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے پر ہوا ۔ بنگالیوں کے اس قابل غور مطالبے کو سیاسی طریقے سے حل نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے بنگالیوں میں احساس محرومی پیداہوا ۔اس احساس محرومی میں اس وقت بہت زیادہ اضافہ ہوا جب بنگال میں بننے والی سیاسی جماعت عوامی لیگ نے 1970ء کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی، لیکن اس کے باوجود اس کو اقتدار سے محروم رکھا گیا ۔ یہ سیاسی تنازع بڑھتے بڑھتے پاکستان کی تقسیم پرمنتج ہوا ۔ بنگال میں موجود دین سے محبت کرنے والے رہنماؤں نے ملک کو یکجا رکھنے کے لئے پر خلوص جدوجہد کی لیکن انڈین فوج کی براہ راست مداخلت کی وجہ سے ان کی جد وجہد با رآور نہ ہو سکی۔ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہو گیا۔ بنگال میں پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت رکھنے والے اتنے معتوب ہوئے کہ تاحال ان سے انتقام لینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
سقوط ڈھاکہ کے سانحے میں ہر صاحب دل کے لیے عبرت کا بہت بڑا سامان تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے لیے حاصل کیے جانے والے وطن میں اللہ تعالیٰ کے نظام کو نافذ کرنا مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری تھی ۔ اسی طرح مختلف قومیتوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کو حل کرنا بھی قومی سیاستدانوں کافریضہ تھا تاکہ ملک کو یکجا اور متحد رکھا جا سکے۔ اسی طرح انتخابی نظام کو بھی صاف اور شفاف بنانا اداروں کی ذمہ داری تھی ۔ بد نصیبی سے 1971ء کے بعد بھی بہت سے اہم معاملات پرمناسب پیش رفت نہ ہو سکی ۔
1973ء کے آئین نے قرآن وسنت کی بالاد ستی کی ضمانت دی تھی اور ختم نبوت کا انکار کرنے والے افراد اور گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا تھا لیکن فکری طور پرقرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے باوجود عملی طور پر اسلام نافذ نہ ہو سکا ۔ قحبہ گری ، شراب فروشی ، سامراج کے غیر معمولی اثرورسوخ اور سودی نظام کے پھیلاؤ نے پاکستان کو اسلام کی حقیقی عملداری کے راستے پر تاحال گامزن نہیں ہونے دیا ۔
اسلامی تشخص اور نظریہ پاکستان سے دوری کی وجہ سے مختلف قومیتوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان تاحال موجود ہے ۔ بعض سیاسی حق تلفیوں کی وجہ سے بعض قوموں کے ذہنوں میںملک کے دیگر حصوں میں بسنے والی قومیتوں کے بارے میں تحفظات بھی پائے جاتے ہیں جن کے حل کے لیے تاحال مناسب اقدامات نہیں کیے جاسکے ۔ طاقت کے ذریعے مطالبات کودبانے کا سلسلہ جاری وساری ہے جس کی وجہ سے بعض علیحدگی پسند عناصر کو بھی اپنے منفی نظریات کی ترویج کا موقع ملتا رہتا ہے ۔
انتخابی دھاندلیوں اور سیاسی جماعتوں کو ان کے مینڈیٹ نہ ملنے کی وجہ سے 1977ء میں پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد میں رسہ کشی اپنے پورے عر وج پر پہنچی ، تحریک نظام مصطفی کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنے اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ اُن کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ۔
2013ء کے انتخابات کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) پر انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ، تحریک انصاف نے چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کے ساتھ دوبارہ ووٹوں کی گنتی کا مطالبہ کیا ۔ مطالبہ نظر انداز ہونے کی وجہ سے معاملات دھرنے اور احتجاجی تحریک تک جا پہنچے ۔ تحریک انصاف کا احتجاج اس وقت اپنے پورے عروج پر ہے اور مختلف شہروں کی بندش کے بعد پورے پاکستان کی بندش کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ایک اور سولہ دسمبر گزر چکا ہے لیکن نہ جانے کیوں ہمارے حکمران اور سیاسی رہنما ابھی تک سقوط ڈھاکہ کے اسبا ب اور نتائج سے سبق حاصل کرنے میںکامیاب نہیں ہو سکے۔