"AIZ" (space) message & send to 7575

حسرت ان غنچوں پہ ہے۔۔۔۔۔

16دسمبر 1971ء ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا، ہمارا مشرقی بازو ہم سے کٹ گیا اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ انڈین آرمی نے مکتی باہنی کا روپ دھارکر مسلمانوں کا جی بھرکے قتل عام کیا اور مسلمان، ہندوؤں کی مکاری کے سامنے بے بس ہو کر رہ گئے۔
ہر سال سانحہ سقوط ڈھاکہ کے اسباب پرغور و خوض کرنے کے لیے ملک کے طول و عرض میں کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں۔ اس بار بھی ایک پروگرام لاہورکے ایوان اقبال میں ہوا، میں بھی اس میں بطورمہمان مقرر مدعو تھا۔ تقریب کے بعد ایک روح فرسا خبر سننے کو ملی کہ پشاورکے آرمی پبلک سکو ل پر دہشت گر دوں نے حملہ کر دیا جس میں ایک سو پچاس کے لگ بھگ معصوم بچے شہید ہوگئے ہیں ۔
یہ خبر اعصاب پر بجلی بن کر گری، میرے ذہن میں تاریخ انسانیت کے وہ واقعات گردش کرنے لگے جن میں معصو م بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ فرعون کا وہ ظالمانہ عہد ذہن میں آنے لگا کہ اس نے اپنا اقتداربچانے کے لیے وسیع پیمانے پر بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر ان کی والدہ نہایت پریشان تھیں کہ ان کے معصوم بچے کا مستقبل کیا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی کی کہ آپ اپنے بچے کو دودھ پلائیں، جب خطرے کا اندیشہ ہو تو بچے کو جھولے میں ڈال کر پانی کے حوالے کردیں ، میں خود اس کو آپ کے پاس پلٹاؤں گا اور اس کو رسول بنا دوںگا۔ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کا جھولا تیرتے تیرتے فرعون کے محل کے ساتھ جا لگا۔ آپ کے جھولے کوآتا دیکھ کر فرعون نے آپ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا لیکن، حضرت آسیہ،جو فرعون کی زوجہ تھیں ،کی مداخلت پر وہ یہ کام نہ کر سکا۔ جس بچے کی پیدائش کے ڈر سے ہزاروں بچے ذبح کیے گئے تھے وہی بچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے فرعون کے گھر میں داخل ہو گیا اور بالآخر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اورآل فرعون کی تباہی کا سبب بن گئے۔
اسی طرح اصحاب الاخدودکو بھی بلا تفریق جنس و عمر نہایت بے دردی سے قتل کیا گیا۔ ان کے لیے آگ سے بھری ہوئی خندقیں کھودی گئیں اور اسلام اور ایمان کے جرم کی پاداش میں ان کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اصحاب الاخدود کے ایمان کا سبب بھی ایک بچے کی تبلیغ تھی۔ بچے کی تبلیغ کے سبب پوری بستی مسلمان ہوئی اور وقت کے ظالم بادشاہ کے ظلم اور بربریت کا نشانہ بنی۔
حضر ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے کائنات کے لوگوں کے لیے رحمت بن کر آئے اور آپ ﷺنے کمزور طبقات کے ساتھ شفقت اور رحمت برتنے کے احکامات جاری فرمائے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''جو ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ آپ ﷺنے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر عورتوں سے خصوصی شفقت کی تلقین فرمائی اور اپنے انتقالِ پُر ملال سے قبل نماز کی تلقین کے علاوہ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرماتے رہے۔
آپ ﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ سے اتنا پیارکیا کہ لوگ حضرت زید رضی اللہ عنہ کوآپ ﷺ ہی کا بیٹا تصور کرنے لگے ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے آپ کو اس قدر محبت اورپیار تھا کہ لوگ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺکے پاس سفارش کے لیے بھیجا کر تے تھے۔ آ پ ﷺنے اپنے انتقال سے قبل جس لشکرکو روانہ فرمایا اس کا سالا ربھی حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ عنہ کو بنایا۔
نبی کریم ﷺ کے کئی اکابر صحابہ نو عمر اور کم سن تھے لیکن آپ کی محبت اور شفقت نے ا ن صحابہ کوعلم و فضل اور جرأت و بہادری کے اعتبار سے دیگر اکابر صحابہ میں ممتازکر دیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت عبداللہ ابن زبیراور حضرت انس ابن مالک رضوان اللہ علیھم اجمعین ، صحابہ کرام میںکم عمری کے باوجود نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ بچوں کے ساتھ پیار والا معاملہ کیا اور ایک باپ کی حیثیت سے جس کردارکا مظاہرہ کیا وہ ہم سب کے لیے حجت ہے۔ آپ ﷺ کے آخری فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ بالکل چھوٹے سے خو ش نما پھول تھے، جب ان کا انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اے ابراہیم ! تیری جدائی نے ہمیں غمزدہ کر دیالیکن ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہیں‘‘۔ 
حضرت رسول اللہ ﷺ مسلمان بچوں اور اپنے صحابہ کرام کی اولادوں کے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے اور مسلمان بچوں کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے دیگر مذاہب کے بچوں کے ساتھ بھی شفقت اور محبت والا معاملہ رکھا۔ ایک یہودی لڑکے کو آپ ﷺ کے ساتھ لگاؤ تھا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس بات کی اطلاع ملی کہ وہ بچہ بیمار ہے توآپ ﷺ خود اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور بستر علالت پرموجود بچے کوکلمہ طیبہ کی تلقین فرمائی۔ اس نے بے چینی سے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ بچے کی نظروںکو بھانپ گیااور اس نے اپنے بچے کوکلمہ طیبہ پڑھانے کی اجازت دے دی ۔ یوں یہ لڑکا انتقال سے قبل آپ ﷺ کا امتی بن کر دنیا سے رخصت ہوا۔
نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور ظلم کے خاتمے کے لیے متواترجہاد کیا لیکن اس جہاد میں بھی اس بات کا بہت التزام فرمایا کہ کافروں کی عورتیں اور بچے مسلمانوںکی تلواروں سے محفوظ رہیں۔ نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پوری شدومد سے عمل پیرا ہوئے اور پوری دنیا میں اسلام کے پرچم کو بلند فرما دیا۔
گو پاکستان بھی ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس کے قیام کا مقصد قرآن پاک کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہونا تھا لیکن بدقسمتی سے اس ملک میں ایک عرصے سے قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے اورکسی بھی واقعے کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاتا۔ والدگرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر ، حکیم محمد سعید ، صلاح الدین ، محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت سیکڑوں اہم شخصیات دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ہر واقعے کی وقتی طور پر بھر پور مذمت کی جاتی ہے لیکن بعد ازاں اسے فراموش کر دیاجاتا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ عرصہ دراز سے ظلم اور زیادتیاں کی جارہی ہیں۔ چند ماہ قبل ایک پانچ سالہ معصوم بچی کے ساتھ جبری زیادتی کا ارتکاب کیاگیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے مجرموںکو اڑتالیس گھنٹوں میںکیفر کردار تک پہچانے کی یقین دہانی کروائی لیکن بدقسمتی سے عملی طور پرکچھ بھی نہ ہو سکا۔ 
کچھ برس قبل سو بچوںکے قاتل کوگرفتارکیا گیا جو بچوں کو ذبح کرکے ان کی ہڈیاں تک نکال لیاکرتا تھا لیکن اس قاتل کو بھی عوامی سطح پرکیفرکردار تک نہ پہنچایا جا سکا۔ موجودہ حادثہ بھی اس اعتبارسے انتہائی المناک ہے کہ اس میں درجنوں ماؤںکی گودیں اجڑگئیں اور بیسیوں باپوںکے کلیجے کٹ گئے۔ پوری قوم اس سانحے پر اشکبار ہے۔ ہر جماعت نے اس سانحے پر رنج و غم کا اظہارکیا اور قاتلوںکوکیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ میں نے بھی باغ جناح میں شہدائے پشاورکی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور حکمرانوں سے قانون قصاص کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ جب میں جنازہ پڑھانے آرہا تھا،میرے ذہن میں کسی شاعرکا یہ دردناک شعرآ رہا تھا: 
پھول تو دو دن بہار جانفزا دکھلا گئے 
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے 
میں نے یہ شعر پڑھا تو جنازے میں شریک تمام لوگوںکی آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے اور سب نے ملت کے ان شہید بیٹوں کی درجات کی بلندی کے لیے کھل کر دعاکی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہداء کے لواحقین کوصبر جمیل عطا فرمائے اور دھرتی کو دہشت گردوں کے نا پاک وجود سے پاک و صاف فرمائے۔ آمین! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں