ہمارہ معاشرا ایک عرصے سے دہشت گردی اور قتل و غارت گری کی لپیٹ میں ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ زنابالجبر‘ چوری‘ ڈکیتی اور سٹریٹکرائمز کے واقعات بھی تواتر سے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان جرائم پر قابو پانے کے لیے حکومتیں مختلف طر ح کے اقدامات بھی کرتی رہتی ہیں لیکن ستاسٹھ برس گزر جانے کے باوجود بھی پاکستان امن و سکون کا گہوارہ نہیں بن سکا ۔
قرآن و سنت نے جرائم کی بیخ کنی کے لیے حدود و تعزیرات کا ایک منظم نظام اپنے ماننے والوں کو دیاہے‘ لیکن یہ مقام افسوس ہے کہ جرائم کے خاتمے کے لیے پیش کئے جانے والے اس نظام کو معاشرے میں تا حال نافذ نہیں کیا جا سکا ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ایک طبقہ ان قوانین کے نفاذ کے حوالے سے مختلف قسم کے تحفظات کا شکار ہے۔ یہ افراد سوچتے ہیں کہ ان قوانین کے نافذ ہو جانے سے شاید ہماری معاشی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی ترقی کے راستے مسدود ہو جائیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جرائم کے خاتمے کے لئے اسلامی قوانین کے نفاذ سے نہ تو ترقی کے دروازے بند ہوں گے اور نہ ہی فرقہ وارانہ اختلافات ان قوانین کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔حدودو تعزیرات کا بنیادی مقصد انسانی زندگی کو مشکل بنانا نہیں بلکہ کم ازکم پانچ بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے:
پہلا حق: معاشرے کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے کہ اس کی زندگی محفوظ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی بقا کو پوری انسانیت کی بقا سے تعبیرکیا ہے ۔ قانون قصاص کے ہمہ گیر نفاذ سے ہر انسان کی زندگی محفوظ ہو جاتی ہے ۔اس قانون کی رُوسے ہر شخص جانتا ہے کہ اگر اس نے کسی دوسرے انسان کی زندگی لی تو اس کو بدلے میں قتل کر دیا جائے گا۔ سزا کے خوف سے کوئی شخص کسی دوسرے کے ناحق قتل پر آمادہ نہیں ہوتا اور یوں معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنا رہتا ہے ۔ شرعی قوانین کے ہوتے ہوئے سزائے موت کے مستحق کسی بھی مجرم کو شخصی حیثیت میں قتل نہیںکیا جا سکتا بلکہ یہ اختیار صرف ریاست اور اس کی ماتحت عدالتوں کو حاصل ہوتا ہے کہ آزادانہ ٹرائل کے بعد کسی کی سزائے موت کا فیصلہ کرے ۔ سزائے موت کو رشوت یا سفارش کے ذریعے معطل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہمارے معاشرے میں آئے دن قتل اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور جرم و سزا کا موجودہ نظام جرائم کی روک تھام میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے ۔ ان حالات میں ''قتل کے بدلے قتل‘‘ کے ذریعے سے ہی زندگی کے تحفظ کی ضمانت مل سکتی ہے ۔
دوسر احق: کسی بھی معاشرے میں انسانوں کا بنیادی حق یہ ہے کہ ان کی عزت محفوظ ہو، کوئی شخص کسی کی بہن، بیوی اور بیٹی کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے ۔ حرام کاری کے سلسلے میں قرآن و سنت کی تعلیمات واضح ہیں۔ کنوارے زانی اور زانیہ کے لیے 100 کوڑوں اور شادی شدہ زانی کے لیے سنگسار کی سزا ہے ۔ ان کڑی سزاؤں کی موجودگی میں کسی شخص کو جسارت نہیں ہو گی کہ وہ کسی عورت کی عصمت پر حملہ کرنے کا تصور بھی کر سکے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میںماعز ابن مالک اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت شبیبہ غامدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رجم اقبال جرم کی وجہ سے ہوا تھا۔ اسلامی معاشرے میں اخلاقی اقدار اتنی اعلیٰ ہوتی ہیں کہ عام طور پر قانون حرکت میں نہیں آتا بلکہ خود انسان اپنے آپ کو احتساب کے لیے قانون کے حوالے کر دیتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں آئے دن زنا بالجبر کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایسے واقعات کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی اور 76واقعات ایسے تھے جن میں 5سال سے کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے دعوؤں کے باوجود ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اگر قرآن و سنت میں مذکور سزاؤں کو لاگو کر دیا جائے تو حالات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
تیسرا حق:کسی بھی معاشرے میں بسنے والے انسانوں کا یہ بھی حق ہے کہ ان کی ناموس محفوظ ہو اور کوئی بھی شخص بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے دوسرے کی کردار کشی نہ کر سکے ۔ اگر کوئی انسان چار گواہوں کے بغیر کسی پاک دامن عورت یا مرد کو بدکردار قرار دیتا ہے تو اس صورت میں الزام تراشی کرنے والے کو حد قذف کے طور پر 80کوڑے مارے جاتے ہیں اور مستقبل میں اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں تہمت لگانے والے پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ایسے لوگوں کی زبانیں اور اعضا و جوارح اس کے خلاف گواہی دیں گے ۔
چوتھا حق: کسی بھی معاشرے میں بسنے والے انسانوں کا چوتھا حق یہ ہے کہ ان کا مال محفوظ ہو۔ ہمارے ملک میں ڈکیتی اور چوری کی وارداتیں پورے عروج پر ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی توجہ کے باوجود صرف لاہور میں ایک دن میں درجن سے زائد چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ ان وارداتوں کی روک تھام کے لیے قرآن و سنت میں مؤثر قوانین موجود ہیں۔ اللہ نے سورہ مائدہ میں چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے ۔ اگر کسی ایک چور کا بھی ہاتھ کٹ جائے تو سینکڑوں بدنیت افراد کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ چھوٹے چور کو تو تھوڑی بہت سزا مل جاتی ہے لیکن بڑے چور کے احتساب کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوتا۔ بڑے مجرم کا جرم نظر انداز کرنے کی وجہ سے معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ اور مجرم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب بنو مخزوم کی فاطمہ نامی عورت نے چوری کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب صحابی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سفارش کے لیے روانہ کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلی قوموں کی تباہی کے ایک بڑے سبب کو واضح فرمایا کہ جب ان میں سے کو ئی کم حیثیت آدمی جرم کرتا تو اس کو سزا دی جاتی اور اگرکوئی بااثر آدمی جرم کرتا تو اس کو نظر انداز کر دیا جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگرکا نام لے کر فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو میں اس کے ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔
پانچواں حق:کسی بھی معاشرے کے انسانوں کا اہم حق یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی انسان کی بدحواسی کے دوران کی گئی بدمعاملگی سے محفوظ رہ سکیں۔ شراب انسان کی عقل کو ڈھانپ کر اسے بدحواس بنا دیتی ہے ، اس لیے حفاظت عقل کے لیے اسلام میں شراب اور دوسری نشہ آور اشیاء کے استعمال، ان کی تجارت اور نمائش پر پابندی ہے ۔ جس معاشرے میں شراب نوشی عام ہو گی، اس میں انسانی عقل فتور کا شکار رہے گی، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شرابی کے لیے بھی 40کوڑوں کی سزا مقرر ہے ۔
پاکستان اسلامی جمہوری ملک ہے‘ اس کے باوجود پاکستان میں شراب اور دوسری نشہ آور اشیاء کی درآمد اور تجارت جاری ہے۔ منشیات کی دستیابی کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اگر شراب سے متعلق اسلامی حد کو نافذ کر دیا جائے تو معاشرے سے منشیات کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور اس کے بہت سے ذہین افراد تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچ سکتے ہیں۔
حدود وتعزیرات کے نفاذ سے جہاں بہت سے دوسرے فوائد حاصل ہو سکتے ہیںوہاں عصری معاشروں کو کم از کم پانچ مذکورہ بالا فوائد حاصل ہوں گے اور ان پانچ فوائد سے صرف مسلمان مستفید نہیں ہوں گے بلکہ معاشرے میں بسنے والے غیر مسلموں کی جان، مال، عزت اور آبرو بھی محفوظ ہو جائے گی۔ ان پانچ جرائم پر دی جانے والی سزاؤں پر کسی مکتبہ فکر کے کسی عالم کو کوئی اختلاف نہیں۔ بعض این جی اوز اور دانش ور ان قوانین پر اعتراض کرتے رہتے ہیں ۔ انہیںبھی تنہائی میں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا وہ نہیں چاہتے کہ ایسا معاشرہ وجود میں آجائے جس میں ہر شخص کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ ہو۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ وہ خود بھی محفوظ رہیں اور ان کی نسلیں بھی محفوظ رہیں تو پھر ان کوان قوانین پر تنقید کرنے کی بجائے ان کے نفاذ کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کا آئین اور قرارداد مقاصد اسلام کی حاکمیت کی ضمانت دیتے ہیں لیکن آئینی ضمانت اسلام کے عملی نفاذ کے لیے کافی نہیں، ہمارے حکمرانوں کو یورپی یونین‘ این جی اوز اورلبرل طبقات کے دبائو سے بالاتر ہو کر پورے ملک میںجرائم کے خاتمے کے لئے ان قوانین کو ترجیحی بنیادوں پر نافذ کرنا چاہیے تاکہ ملک کو جرائم سے پاک کر کے امن و سکون کا گہوارہ بنایا جا سکے ۔اگر یہ قوانین نافذ ہوجائیں تو سانحہ پشاور جیسے واقعات کو رونما ہو نے سے روکا جا سکتا ہے۔