ماہ رواں کے پہلے عشرے کے دوران مجھے دو اہم تقریبات میں شمولیت کا موقع میسر آیا ۔ پہلی تقریب اسلام آباد میں ایک اہم تھنک ٹینک کا اجلاس تھا جس کا افتتاح گزشتہ سال کے وسط میں اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوا تھا ۔
تھنک ٹینک کی مشاورتی کونسل میں لیفٹیننٹ ریٹائرڈ جنرل حمید گل ، مفتی منیب الرحمن ، مفتی عبدالرحیم ، مفتی عدنان کاکا خیل ، ایاز وزیر ، مولانا زاہد الراشدی ، محسن نقوی اور راقم الحروف شامل ہیں۔ تھنک ٹینک کے اجلاس میں ملک میں دہشت گردی کے مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی گئی ۔
تمام شرکاء نے با لاتفاق دہشت گردی اور قتل و غارت گری کی کھل کر مذمت کی اور اس کو ملک و ملت کے لیے زہر قاتل قرار دیا ۔ تمام شرکاء نے اپنے اپنے انداز میں اس مسئلے کا تجزیہ کیا اور اس پر قابو پانے کے لیے اپنی اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔ سب کا اس بات پر اتفاق تھاکہ دینی جماعتیں اور ادارے بالعموم اس رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے اس کے باوجود ریاست کے اہم ذمہ داران اور اہم سیاسی جماعتوں کے نمایاں لوگ اس سلسلے میں مذہبی جماعتوں اور اداروں سے بدگمان ہیں۔
میرا مؤقف یہ تھا کہ اس رجحان پر قابو پانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے نمایاں علماء ماضی میں کئی مرتبہ کسی ایک انسان کے قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دے چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکا ۔ حقیقت یہ ہے کہ قتل و غارت گری پر قابو پانے کے لیے جرم و سزا کے جس منظم نظام کی ضرورت ہے وہ ہمارے معاشرے میں تاحال مفقود ہے ۔ مجرم کاتعلق خواہ کسی بھی مسلک ، مکتبۂ فکر ، ادارے یا جماعت کے ساتھ ہو ،اس کو مجرم سمجھنا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی بھی سفارش اور اثر و رسوخ کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے ۔قتل وغارت گری کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور روک تھام کے لیے اس سلسلے کو صرف مذہبی جماعتوں اور اداروں تک محدود کرنے سے ماحول میں تناؤ پیدا ہو گا اور یہ تاثر ابھرے گا کہ صرف مذہب کے نام لیواؤـں کو انتقام یا جبر کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
دہشت گردی کی کوئی بھی صورت قابل مذمت اور قابل گرفت ہے اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا خواہ کسی بھی نقطۂ نظر یا فکر کا حامل کیوں نہ ہو، اس کا احتساب ہو چاہیے ۔ تھنک ٹینک کے تمام ارکان کی رائے اور صوابدید سے قتل و غارت گری کی روم تھام کے لیے ایک ڈرافٹ بھی تحریر کیا گیاجسے صدر پاکستان ، وزیر اعظم اور بعض اہم شخصیات کو بھی روانہ کیا گیا ۔
تھنک ٹینک کی تقریب کے چند روز بعد ہی اکیسویں ترمیم کا ڈرافٹ منظر عام پر آگیا ۔ اس ڈرافٹ میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جس عز م کا اظہار کیا گیا تھا، معروضی حالات کے پیش نظر اس سے تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا لیکن ڈرافٹ میں دہشت گردی اور قتل وغارت گری کے خلاف عمومی ایکشن پلان مرتب کرنے کی بجائے صرف مذہب یا فرقے کے عنوان سے کی جانے والی دہشت گردی کا ذکر کیا گیا ۔ ڈرافٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد مذہبی جماعتوں نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا بالخصوص جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے اس پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔
معروضی اورغیر معمولی حالات میں کی جانے والی قانون سازی اور ترامیم اس امر کی متقاضی ہوتی ہیں کہ کسی مخصوص طبقے کے ساتھ جانبدارانہ طرز عمل کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔ ملک کے بہت سے حصوں میں کی جانے والی ٹارگٹ کلنگ کا مذہب کے ساتھ کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی بالعموم مذمت اور روک تھام ہونی چاہیے تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جاسکے کہ مخصوص قوانین کے اطلاق میں جانبدارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا جائے گا ۔
دوسری اہم تقریب قاضی حسین احمد مرحوم کی یاد میں ہونے والا سیمینار تھا ۔ قومی سیمینار کا انعقاد 7جنوری کوایوان اقبال لاہور میں ہوا ۔ قاضی حسین احمد ملک کے نمایاں سیاسی اور مذہبی رہنما تھے ۔ آپ کے سماجی تعلقات ملک کے تمام طبقات کے ساتھ تھے ۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر جب جمعیت اہل حدیث کے سیکرٹری جنرل ہوا کرتے تھے اس وقت قاضی صاحب جماعت اسلامی کے سیکر ٹری جنرل تھے۔ دونوں رہنماؤں کے تعلقات مثالی تھے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیش کیے جانے والے شریعت بل پر دونوں رہنماؤں کی آراء یکسر فرق تھیں ۔ والد گرامی اس شریعت بل کے ناقد اور قاضی صاحب زبر دست حامی تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ پائے جانے والے نظریاتی اختلاف کے باوجود دونوں رہنماؤں کے تعلقات اور ملاقات میں کبھی تعطل نہیں آیا اور والد گرامی کے انتقال پر قاضی صاحب نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ۔
والد صاحب کی رحلت ہم سب اہل خانہ کے لیے شدید صدمے کا باعث تھی ۔ والدصاحب کی جدائی کے چند برس بعد ہی والدہ مرحومہ بھی داغ مفارقت دی گئیں۔ والدہ کے انتقال کے بعد جن نمایاں شخصیات نے دلاسے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا ان میں قاضی حسین احمد بھی شامل تھے ۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جب میںمنبر و محراب سے وابستہ ہوا تو کبھی کبھار قاضی صاحب سے ملنے کا موقع بھی میسر آجاتا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکالے جانے پر دینی جماعتوں کو زبردست تشویش تھی ۔ ملک کے نمایاں مذہبی رہنما اور جماعتیں اس قدم کو ختم نبوت کے خلاف سازش سے تعبیر کر رہی تھیںـ ۔ ملک کی اہم جماعتوں کا ایک نمائندہ اجلاس اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں قاضی حسین احمد بھی شریک تھے۔ اجلاس میں میں نے بھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ اجلاس کے بعد قاضی صاحب نے میرے کاندھے تھپک کر میری حوصلہ افزائی کی ۔ اس تحریک کے زیر اہتمام ہونے والے تمام پروگراموں میں میں قاضی صاحب کی ہمراہی میں شریک ہوااور ہماری قربت میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ۔ قاضی صاحب علامہ شہید کی خطابت اور شخصیت کے معترف تھے اور بڑے پیار سے ان ذکر کیا کرتے تھے ۔ قاضی صاحب کی فراخ دلی کی وجہ سے آپ کی شخصیت بھی بہت زیادہ قابل عزت و قابل احترام تھی ۔ قاضی صاحب کے ساتھ کچھ نشستوںمیں،میں نے بعض علمی مسائل پران سے اختلاف بھی کیا جس کو قاضی صاحب نے بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ ایک مرتبہ اسی قسم کی ایک نشست کے بعد میر ا یہ گمان تھا کہ شاید آپ کے رویے میں وہ سابقہ گرمجوشی برقرار نہ رہے ۔لیکن وقت نے ثابت کیا کہ آپ علمی اختلاف کوذاتی اختلاف میںبدلے والی شخصیت نہیں تھے ۔
آپ کو اسلامی انقلاب سے گہری دلچسپی تھی اور اس سلسلے میں آپ تمام دینی تحریکوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم تشکیل دیا ۔ اس کونسل کے قیام کے وقت ہی اس امر پر اتفاق کر لیا گیا کہ صحابہ کرام ، خلفاء راشدین ، اہلبیت عظام اور امہات المومنین رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان میں کی جانے والی گستاخی کو کسی بھی صورت میںگوارا نہیں کیا جائے گا اور حد ود اللہ کے نفاذ کے لیے پر امن سیاسی اور دعوتی جدو جہد کی جائے گی ۔
قاضی صاحب نے اس پلیٹ فارم میں مجھے بھی شامل ہونے کی دعوت دی ۔میں فوراً اس کام میں شمولیت کے لیے آمادہ ہو گیا ۔ جب تک قاضی صاحب حیات رہے،میں کونسل کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتا رہا ۔ آپ کے انتقال کے بعد اس ادارے کے پروگراموں میں سابقہ کشش بر قرار نہ رہ سکی ۔
قاضی صاحب کے نام پر ہونے والے قومی سیمینار میں ملک کے مختلف شعبو ں سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد نے شرکت کی۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور قاضی صاحب کے چاہنے والوں کے سامنے اس نظریے کورکھا کہ ہمیں حالات کے جبر کی پروا کیے بغیر پرامن دعوتی اور سیاسی طریقے سے نفاذ اسلام کی جد وجہد جاری رکھنی چاہیے تاکہ قیام پاکستان کی بنیاد بننے والے نظریے سے اپنی وابستگی کا صحیح طریقے سے اظہار کیا جا سکے ۔ قاضی صاحب کی رحلت کے بعد بھی آپ کے وابستگان میں اسلامی انقلاب کی خواہش اور تمنا دیکھ کر میں مطمئن ہوا کہ حالات کے مدوجزر اور گردش دوراں کے باوجودمختلف دینی جماعتوں اورمذہبی تحریکوں سے وابستہ ایمان اور جذبہ رکھنے والے پاکستانی مسلمان نفاذ اسلام کی پرامن جد وجہد سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے ۔