انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملک کی ایک اہم درسگاہ ہے جس میں ملک بھر سے تشنگان علم اپنے علمی ذوق کی تکمیل کے لیے آتے ہیں۔دینی تعلیم میں ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے خواہشمند طالب علم یہاں بڑے ذوق وشوق سے داخلہ لیتے ہیں ۔ یونیورسٹی کے فاضل اساتذہ سے مختلف علوم و فنون میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ جب مدارس دینیہ سے سند فراخت حاصل کرنے کے والے ذہین طالب علم‘ علم دین میںکمال حاصل کرنے کی غرض سے جامعۃ الازہرمصر، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ، جامعۃ الامام ریاض کا رخ کیا کرتے تھے ۔ ان اداروں میں داخلہ لینے کے خواہشمند طلبہ کی اکثریت کی یہ خواہش نامساعد حالات اور مالی مشکلات کی وجہ سے تشنہ رہ جایا کرتی تھی۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے قیام کے بعد طلبہ کی بڑی تعداد پر امید ہوئی کہ ان کے علمی ذوق کی تشنگی دور ہونے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔گو اسلامی یونیورسٹی تاحال جامع الازہر، جامعۃ اسلامیہ اور جامعۃ الامام کی سطح پرتو نہیں آسکتی مگر پھربھی قابل اساتذہ کی زیرنگرانی ذہین طلبہ دینی علوم کی منازل کو نہایت احسن انداز میں طے کر رہے ہیں اور بین الاقوامی معیار کی تعلیم اور سہولیات ان کو وطن عزیز ہی میں حاصل ہو رہی ہیں ۔
بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اہم معاشرتی عنوانات پر بھی قومی کانفرنسوں اور سیمینارز کا انعقاد کرتی رہتی ہے اور اس حوالے سے بعض اہم فور مز اور ادارے مستقل طور پر پروگراموں کی میزبانی کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں ۔
چند دن قبل یونیورسٹی میں قائم''اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ‘‘کے ایڈیٹر علی طاہر صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ملک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کی صورتحال انتہائی گمبھیر ہے اور گزشتہ تین عشروں کے دوران اس میںبتدریج اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات کئی صدیوں سے امت میں موجود رہے لیکن ماضی میں ان اختلافات پر جانی نقصانات نہیں ہوئے لہٰذا علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل اور تجزیے کے لیے اپنی تجاویز اورآراء علماء اور طلبہ کے سامنے رکھیں۔
انیس جنوری کی شام میں اپنے قریبی رفیق میاں عبدالمنعم کے ہمراہ بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کے فیصل مسجد کیمپس کے لیے لاہور سے نکلا۔ فیصل مسجد کے عقب میں واقع انتہائی خوبصورت گیسٹ ہاؤس میں ہماری رہائش کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ناشتے کے بعد اسلامک یونیورسٹی کی طرف سے مقرر کردہ ڈرائیور ہمیں فیصل مسجد سے متصل خوبصورت علامہ اقبال آڈیٹوریم میں لے گیا۔
معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر انیس صاحب بڑے خوبصورت انداز میںفرقہ واریت کے خاتمے اور تدارک کے لیے تجاویز پیش کر رہے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کا زیادہ زور اس نقطے پر تھا کہ ثقافتی اور سماجی تعلقات میں بہتری لانے سے فرقہ وارانہ اختلافات کے حل میں مدد مل سکتی ہے ۔
کانفرنس میں ملک بھر نمایاں اہل علم اورمذہبی رہنماء شریک تھے۔ تمام شرکاء انہماک سے مقررین کی تقاریر سن رہے تھے اور ہر شریک مجلس سنجیدگی سے فرقہ وارانہ تشدد پر قابو پانے کی امنگ رکھے مجلس میں شریک تھا۔
کانفرنس کے ابتدائی سیشن کے بعد شرکاء نے نماز ظہر ادا کی اور بعد ازاں پر تپاک ظہرانے کا اہتمام کیا گیا۔ ظہرانے کے دوران بھی شرکاء اجلاس فرقہ وارانہ برداشت کے موضوع پر اپنی اپنی آراء کو ایک دوسرے کے سامنے رکھتے رہے۔ ظہرانے کے بعد کانفرنس کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا ، جس سے مولانا زاہد الراشدی، مولانا عین الیقین، مولانا ارشدالحق ، مولانا محمد احمد، ڈاکٹر عبدالا علیٰ اچکزئی، ڈاکٹر سید عزیر الرحمن اور ڈاکٹر محسن نقوی صاحب نے خطاب کیا۔ تمام شرکاء نے صورتحال کا اپنے اپنے انداز میں تجزیہ کیا اور مفید تجاویز کو حاضرین کے سامنے رکھا۔ سیشن سے فارغ ہو کر تمام حاضرین نے نماز عصر کو ادا کیا اور ہم بھی گیسٹ ہاؤس میں واپس آگئے ۔ گیسٹ ہاؤس میں آکے تھوڑی دیر سستانے کے بعد میں نے کانفرنس کے تفصیلی پروگرام پر مشتمل چند اوراق کا مطالعہ کرنا شروع کردیا ۔
اگلے دن سیشن ساڑھے نو بجے سے شروع ہو کرساڑھے گیارے بجے تک جاری رہنا تھا۔ اس سیشن میں ڈاکٹر ساجد الرحمن، علی طارق صاحب ، مولانا راغب نعیمی، مولانا انوار الحق حقانی اور راقم الحروف نے خطاب کیا ۔ یونیورسٹی میںممتاز اہل علم کے سامنے اس اہم موضوع پر اظہار خیال کرنا جہاں بہت بڑے اعزاز کی بات تھی وہیں پر بہت بڑی ذمہ داری کا کام بھی تھا۔ وقت کی نزاکت کے پیش نظر میں نے جن آراء کوممتاز اہل علم اور پختہ علمی ذوق رکھنے والے طلبہ کے سامنے رکھا ان کا خلاصہ درج ذیل ہے :
نبی کریم ﷺ کی زندگی ہی میں اللہ تعالیٰ نے دین کو ان کی ذات پر مکمل اور تمام کر دیا تھا ۔نبی کریم ﷺپر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا نزول فرمایا اور آپؐ نے اپنی حیات مبارکہ میں اپنے قول و عمل سے اللہ کی کتاب کی تشریح فرمائی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت مطاہرہ کی روشنی میں اپنی زندگی کو گزارتے رہے ۔ صحابہ کرامؓ کا نبی مکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی بعض اہم مسائل پر اختلاف ہوا۔ چونکہ رسالت مآب ﷺ صحابہ کرام ؓ کے درمیان موجود تھے ۔ اس لیے آپ اس اختلاف کے بارے میں قرآن مجید اور اپنی رائے کو پیش فرماء کر اس اختلاف کا ازالہ فرما دیتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد بھی صحابہ کرامؓ کے درمیان مختلف مسائل پر اختلاف ہوتا رہا ۔ چونکہ صحابہ کرام ؓ اخلاص اور دیانت کے پیکر تھے اس لیے ان کے پیش نظر نبی آخرالزماںﷺ کا فرمان مبارک ہمیشہ رہا کرتا تھا''میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جار ہا ہوں جب تک تم ان کو تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے‘ ایک اللہ کی کتاب‘ دوسری میری سنت ہے۔‘‘
صحابہ کرام ؓ کے باہمی اختلافات کے دوران جب بھی ان کے سامنے قرآن مجید کی آیت یا نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک آجاتا وہ فوراً اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی ﷺ کے فرمان کے تابع کر لیتے۔ ان کے نزدیک غیرمشروط اطاعت صرف اللہ یا اس کے رسول ﷺ ہی کی تھی۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کے سامنے ان کی ذاتی آراء یا انانیت کی ان نظروں میں کوئی حیثیت نہیں تھی ۔
صحابہ کرام ؓ کے بعد امت مختلف طرح کے گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوئی اور بعد ازاں یہی گروہ اور جماعتیں فرقوں اور مسلکوں کی شکل اختیار کر گئے ۔ مسالک اور فرقوں کا اختلاف ابتدائی طور پر علمی اور فکری تھا جو کہ بتدریج تعصبات کی وجہ سے ایک نیا رنگ اختیار کرتا گیا۔ فرقہ وارانہ عصبیت نے ایک ایسی شکل اختیار کرلی کہ کوئی بھی فرقہ کسی دینی مسئلے میںاپنی فرقہ وارانہ تعبیرکے مقابلے میں کسی دوسرے فرقے کی قرآن وسنت سے ثابت شدہ رائے کو بھی تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوتا۔ مناظرانہ بحوث، کتابچے اوررسائل میں فرقہ وارانہ اختلافات کو خوب اجاگر کیا جاتا۔ بعض کتابوں میں دلائل اورمتانت کے ساتھ فرقہ وارانہ اختلافات کو طے کر نے کی بات کی جاتی جبکہ بعض دیگر کتب میں انداز کافی سخت اور جارحانہ ہوتا اور دلائل کی بجائے دوسرے مسلک کو نیچا دکھانے پر غور کیا جاتا۔
ٹیکنالوجی کے فروغ اور طباعت کی ترقی کی وجہ سے فرقہ وارانہ بحوث علاقائی سطح سے نکل کر قومی اوربین الاقوامی سطح پر پہنچ گئیں۔ علمی انداز سے مسائل حل کرنے کے ذوق کی بجائے جذباتی انداز سے مخالف کی آواز کو دبانے کی جستجونے فرقہ وارانہ قتل و غارت کی بنیاد ڈالی اور رفتہ رفتہ مختلف مسالک کے کئی نمایاں علماء فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بنتے چلے گئے ۔
فرقہ وارانہ اختلاف کو اعتدال کے ساتھ مہذب رائے میں بھی حل کیا جا سکتا ہے اور قرآن وسنت کی طرف پلٹنے کی دعوت دے کر دلائل کی روشنی میں حق اور سچ کی پڑتال بھی کی جا سکتی ہے، لیکن اس رویے کی نشر واشاعت کے لیے صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین ؒ کے خلوص اوردیانت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنے فرقے کے ہر مسئلے کو سچ ثابت کرنے کی جدوجہد کرنے کی بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی آراء پیش کرنا شروع کردیں توکافی سارے معاملات میں بہتری آسکتی ہے ۔ مدارس کے اساتذہ ، شیوخ الحدیث اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے مدارس کے طلبہ کو فرقہ وارانہ عصبیتوں سے بالا تر ہو کر صرف اور صرف قرآن وسنت کی روشنی میں مسائل کو سمجھنے اور اور بیان کرنے کا خو گر بنائیں، جذباتیت کی بجائے علمیت کو اپنی درسگاہوں کی شناخت بنائیں، تعصب اور خود پسندی کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے تحقیق اور رواداری کی فضا ء کر قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ مقدسات کی تکریم کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے سماجی روابط میں بھی وسعت پیدا کریں تو ملک سے ہمیشہ کے لیے فرقہ واریت کے ناسور کا خاتمہ ہو سکتا ہے یا کم ازکم فرقہ وارانہ تشدد میں خاطر خواہ کمی ضرور واقع ہو سکتی ہے ۔