دنیا میں اگر کوئی شخص کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کو جرم کی سنگینی کے لحاظ سے سزا کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ یہ سزا چند ماہ کی قید سے لے کر عمر قید اور سزائے موت تک بھی ہو سکتی ہے۔ دنیا میں بسا اوقات ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیںکہ صاحب ِ سرمایہ، صاحبِ اثر اور صاحبِ طاقت شخص قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور جرم کے ارتکاب کے باوجود زندگی کی سہولیات سے بہرہ ور ہوتا رہتا ہے ۔
جرائم کے برے نتائج کی طرح انسان کے گناہوں کے نتائج بھی انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔انسان کے گناہ اس کو جہنم کے گڑھے تک پہنچا دیتے ہیں۔بعض گناہ اپنے نتائج کے لحاظ سے اتنے مہلک ہوتے ہیں کہ ان کے ارتکاب سے انسان ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلتا رہے گا ۔گناہوں کے اخروی نتائج کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی گناہوں کے منفی نتائج نکلتے ہیں۔ سورہ شوریٰ کی آیت 30میں اللہ تعالیٰ نے گناہوں کے مادی اور دنیاوی نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ''اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ان اعمال کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائے ہیں‘‘۔
چنانچہ انسان کے گناہوں کی وجہ سے انسان کو مختلف طرح کی مصیبتوں اور غموں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ جب قومیں اجتماعی حیثیت سے گناہوںکا ارتکاب کرتی ہیںتو پھر بحر و بر میں ان کے گناہوں کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرماتے ہوئے سورت روم کی آیت نمبر 41میں ارشاد فرمایا ''خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے کیے بعض کاموں کامزہ چکھائے شایدکہ وہ پلٹ آئیں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل اور سورہ سبامیں قوم سبا کا ذکر کیا۔ قوم سباکو اللہ تعالیٰ نے امن اور رزق کی دو عظیم نعمتوں سے نوازا تھا ۔قوم سباکے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پانے کے بعد شکر گزاری کا رویہ اپنانے کی بجائے نافرمانی کا راستہ اختیار کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کے کفرانِ نعمت پر ان سے رزق اور امن کی نعمت کو چھین کر ان پر خوف اور بھوک کا عذاب مسلط کر دیا۔
جرائم کا ارتکاب کرنے والے بعض لوگ تو کئی مرتبہ مال، تعلقات اور اثرورسوخ کی بدولت قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طاقت اورکبریائی کے مقابلے میں نہ تو فرعون کی رعونت چل سکتی ہے ،نہ قارون کا مال کسی کام آسکتا ہے، نہ ہامان کا منصب اُسے انجام بد سے بچا سکتا ہے ، نہ شداد کی جاگیر اُسے اللہ کی پکڑ سے بچا سکتی ہے اور نہ ہی ابولہب کی خاندانی وجاہت اس کے کسی کام آسکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے اللہ کی بارگاہ میں آکر ندامت کے آنسوؤں کو گرانا پڑتاہے اور توبہ استغفار کے راستے ہی کو اختیار کرنا پڑتا ہے ۔
توبہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے کانام ہے اور استغفار اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے کا نام ہے ۔سچی توبہ کے حصول کے لیے انسان کو تین کام کرنے پڑتے ہیں ۔
1۔اپنے گناہوں پر دل کی گہرائیوں سے نادم ہونا ۔
2۔اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر گناہوں سے توبہ کرنا ۔
3۔آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔
اور گناہ کا تعلق اگر کسی انسان کی حق تلفی سے ہو تو حق دار کو حق پلٹانا بھی ضروری ہے ۔
جب انسان توبہ کی شرائط کو پوراکرتے ہوئے توبہ کا طلب گار بن جاتا ہے تو گناہ خواہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہوں پروردگارعالم معاف فرمادیتے ہیں۔
سورہ فرقان میں اللہ تعالیٰ نے شرک ،قتل اور زنا جیسے سنگین اور کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا۔ مذکورہ بالا تینوں گناہ اللہ تعالیٰ کے غضب کودعوت دینے والے اور انسان کی آخرت کو تباہ و برباد کرنے والے ہیں ۔جو شخص ان گناہوں کا ارتکاب کرتاہے رحمت باری سے دور ہو جاتاہے ۔اللہ تعالیٰ نے ان ہلاکت خیز گناہوں کے ارتکاب کے بعد بھی توبہ کی گنجائش رکھی ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا اُسے قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص یہ کام کرے گاوہ اپنے گناہ کی سزا پائے گا۔ قیامت کے دن اسے دگنا عذاب دیاجائے گااور اس میں ہمیشہ ذلیل ہو کر رہے گا مگر جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں کے ساتھ تبدیل فرما دے گا ‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے مغفرت کو طلب کرتے رہنا بھی توبہ کی طرح انتہائی مفید عمل ہے اوراللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ انسان کے گناہوںکو معاف فرما دیتے ہیں۔استغفارصرف اخروی بھلائیوں کو سمیٹنے کا باعث نہیںبنتابلکہ اس کے نتیجے میں دنیا میں بھی بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ سورت نوح میں استغفار کے نتائج میں باران رحمت کے نزول ،اولاد نرینہ کے حصول اورنہروں اور باغات کی فراہمی کا ذکرکیاگیا ہے۔ اسی طرح سورہ ہود میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایاہے کہ پروردگار عالم استغفار کے نتیجے میں قوموں کی طاقت میں اضافہ فرما دیتے ہیں ۔
نبی کریم ﷺ نے بہت سی سابق اقوام کے لوگوں کی توبہ کے قبول ہونے کا ذکر فرمایا۔ آپ ﷺ کے اپنے عہد مبارک میں ایک عورت بدکاری سے حاملہ ہونے کے بعد توبہ کی طلب گار ہوئی اور اس نے خود کو بارگاہ رسالت مآبﷺ میں حد کے لیے پیش کیا ۔آپ ﷺ نے بچے کی پیدائش تک حد کو موقوف فرمایا اور بعد ازاںآپ ﷺنے بچے کے ٹھوس غذا کھانے تک حد کو مؤخر کیا ۔جب اس عورت کابچہ ٹھوس غذا کھانے کے قابل ہوگیاتو اس عورت پر رجم کی حدکو قائم کیا گیا ۔ حد کے قائم کرنے دوران خون کے چھینٹے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر پڑے۔ ایسے عالم میں حضرت خالد بن ولید ؓ نے عورت کے بارے میں کچھ خفگی کا اظہار کیا تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شبیبہ ؓنے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر گناہ گاروں پر اس کی توبہ کو تقسیم کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ سب کی توبہ کو قبول فرما لے ۔ مسلم شریف کی حدیث میں مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ نے قبیلہ جہینہ کی بدکردار عورت پر اس کے مطالبے پر حد کو قائم کیا ۔جب حد قائم ہوگئی تو آپ ﷺ نے خود اس عورت کا جنازہ پڑھایا ۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ نے کہا آپ بدکاری کرنے والی عورت کا جنازہ پڑھاتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا عمرؓ تمہیں کیا معلوم ہے کہ اس عورت نے ایسی خالص توبہ کی ہے کہ اگر اس کو مدینہ کے ستر گناہ گاروں پر تقسیم کر دیاجائے تو ان کو کافی ہوجائے ۔کیا اس سے بھی افضل کوئی بات ہو سکتی ہے کہ اللہ عزوجل کی رضا کے لیے اس نے اپنی جان تک کو قربا ن کردیا۔ حدیث پاک میں یہ روایت بھی مذکور ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس طرح ہے‘ گویا اس نے گناہ کاارتکاب ہی نہیں کیا۔ سورہ بقرۃ کی آیت 222میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی کواختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ‘‘۔زندگی کا سفر بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔موت سے پہلے پہلے گناہ گاروں کے لیے توبہ کرنے کا بہترین موقع موجود ہے ۔ اگر ہم چاہیں تو صحت اور فراغت کی حالت میں توبہ استغفار کرکے اپنے پروردگار کو راضی کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ تو منادی کر رہے ہیں۔
''اے میرے بندو !جو اپنی جانوںپر ظلم کر چکے ہو۔میر ی رحمت سے ناامید نہیں ہونا۔ بے شک اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے‘‘۔ سورۃ الزمر: 53۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ و استغفار کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم اپنی پریشانیوں اور مشکلات سے نجات حاصل کر سکیں ۔(آمین)