"AIZ" (space) message & send to 7575

اہم قومی مسائل اور ان کا حل

ہمارے ملک کو آزاد ہوئے سڑسٹھ برس سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود ملک کے متعدد مسائل ایسے ہیں جو آج تک حل نہیں ہو سکے۔ ان میں سرفہرست بجلی کا بحران ہے۔ہر آنے والی حکومت وعدہ کرتی ہے کہ وہ بجلی کی ہمہ وقت فراہمی کو یقینی بنائے گی لیکن تاحال بجلی کی فراہمی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ ہمارے ملک میں پانی کی کوئی کمی نہیں۔ کئی برسوں سے برسات میں ہونے والی بارشوں کی وجہ سے ملک کے مختلف حصے سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں۔اس اضافی پانی کو ذخیرہ کرکے مختلف مقامات پر پانی کے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ اگر ملک میں چھوٹے بڑے مقامات پر ڈیم بن جائیں تو یہی سیلابی پانی ملک کو نقصان پہنچانے کی بجائے بجلی کی فراہمی کا سبب بن سکتا ہے۔
پانی کی وافر مقدار کے علاوہ ملک میں کوئلے اور گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں جو تھرمل بجلی بنانے کے کام آسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمندری اور تیز ہواؤں کے ذریعے کراچی کے ساحل، کلرکہار، کالام اور دیگر بہت سے مقامات پر ہوا سے بجلی بنانے والی چکیاں لگائی جاسکتی ہیں۔ مغربی ممالک میں ''ونڈ انرجی ‘‘ کے ذریعے بجلی بنانے کا اہتمام نہایت احسن طریقے سے کیا جاتا ہے اور ہر بلند مقام پر نہایت حساس چکیوں کو نصب کیا جاتا ہے جو معمولی ہوا کے چلنے سے بھی بجلی بنانا شروع کر دیتی ہیں۔ برطانیہ میں بالعموم بادل چھائے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود بڑی مقدار میں سولر پینلز کی تنصیب کے ذریعے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے ۔ہمارے ملک میں مطلع برطانیہ کے مقابلے میں بہت صاف ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کے بحران پر قابونہیں پایا جاتا۔ بہت عرصہ قبل جوہری توانائی کے حصول کے لیے ''پاکستان اٹامک انرجی کمیشن‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا جس کابڑا مقصد توانائی کے بحران پر قابو پانا تھا ۔ یہ مقام افسوس ہے کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک پاکستان میں جوہری توانائی کے ذریعے بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی جاسکی۔ ہمارے حکمرانوں کو ترجیحی بنیادوںپر اس بحران پر قابو پانے کی جستجو کرنی چاہیے۔ اگر حکمرانوں کی نیت نیک اور ارادہ پختہ ہو تو اس مسئلے پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
توانائی کے بحران کے علاوہ ملک میں گیس کا بحران بھی ہے ۔ ایک عرصہ قبل قدرتی گیس کے بارے میں یہ باتیں عام سننے کو ملتی تھیں کہ کئی عشروں تک پاکستان میں قدرتی گیس کا بحران پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک بھر میں بڑی تعداد میںسی این جی سٹیشن کھولے گئے۔ نجی اور پبلک ٹرانسپورٹرز کی اکثریت نے اپنی گاڑیوں میں سی این جی کٹ لگوا لی۔ کچھ عرصے کے بعد ملک میں گیس کا بحران پیدا ہو گیا۔ جس وجہ سے نجی صارفین کو بھی گیس کی مطلوبہ مقدار ملنا بند ہو گئی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ متعلقہ ادارے طلب اوررسدکے حوالے سے بروقت درست تجزیہ کیو ں نہ کرسکے۔ اگر تجزیہ درست ہوتا تو سی این جی سٹیشن لگانے کی نوبت ہی نہ آتی اور نجی اور گھریلو صارفین کو خواہ مخوا گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
ہمارے ملک کا ایک اور اہم مسئلہ ذہین افراد کی وسیع پیمانے پر بیرون ملک منتقلی ہے ۔ کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں انسانی اثاثے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہمارے ملک میں کاروباری حالات ابتر ہیں ۔ چھوٹی بڑی صنعتوں کی مختلف طریقوں سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ قابل انجینئرز کو نہایت کم تنخواہوں پر کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ مادر وطن کو خیر باد کہہ کے بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں۔اسی طرح قابل او ر باصلاحیت ڈاکٹرز کو بھی سرکاری ہسپتالوں میں مطلوبہ سہولیات میسر نہیں آتیں اوروہ بھی احساس محرومی کا شکار ہوکر کینیڈا ، امریکہ ، آسٹریلیا اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرلیتے ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں کے لیے یہ مقام فکر ہے کہ بے روز گار یا کم تنخواہوں پر کام کرنے والے ڈاکٹرزاور انجینئرز کیونکر مغربی سماج میں کامیابی سے جذب ہوجاتے ہیں۔ اپنے ملک کے ذہین افراد کی قابلیتوں اورصلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ملک میںمصنوعات کی درآمدات کی بجائے مقامی سطح پر صنعتوں کا قیام نہایت ضروری ہے ۔ اگر ملکی سطح پر صنعت کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے توجہاں ملک معاشی طورپر مستحکم ہوگا وہاں ہم ذہین افراد کی صلاحیتوں سے بھی استفادہ کرسکیں گے۔
معیشت ہی سے متعلق ہمارے ملک کا ایک اوراہم مسئلہ روپے کی گرتی ہوئی قدر ہے جس کا ملک کے مجموعی معاشی نظام سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ ڈالر ، پاؤنڈ اور ریال کی قدر روپے کے مقابلے میں مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ بھارت کے روپے اور بنگال کے ٹکے کی قدر عرصہ دراز سے پاکستانی روپے کے مقابلے میں کم ہوتی تھی۔ لیکن یہ دونوں کرنسیاں بھی بتدریج ہمارے روپے سے زیادہ مستحکم ہو چکی ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ملک میں برآمدات کے مقابلے میںدرآمدات کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ پاکستان میں معیاری مصنوعات کیوںنہیں بن پاتیں؟ اس کا بہت زیادہ تعلق ہمارے ملک میں موجود ٹیکس کے فرسودہ نظام سے ہے ۔
چند روز قبل جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب نے بجا طورپر کہا تھا کہ ملک میں زکوٰۃ اور عشر کے علاوہ تمام ٹیکس ختم ہو جانے چاہئیں۔ میں ان کی بات میں دو اضافے کرنا چاہتا ہوں۔ ایک یہ کہ زکوٰۃ اور عشر کو موجودہ ٹیکس کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صدقات اور زکوٰۃ کی حوصلہ افزائی کرنے کے سبب مرکزی بیت المال کو بہت زیادہ تقویت حاصل ہوسکتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ ہمیں اندرونِ ملک اور دیگرممالک سے تجارت کو سود سے پاک کرنا ہوگا۔ جب تک ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ جاری رکھیں گے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے شامل حال نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کے لیے ہمیں رزق حرام سے اجتناب کرکے حلال رزق کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔
ہمارے ملک کا ایک اور اہم مسئلہ طبقاتی نظام تعلیم بھی ہے۔ ملک میں اس وقت کم ازکم تین طرح کے تعلیمی نظام کام کر رہے ہیں: ایک اردو میڈیم ، دوسرا انگریزی میڈیم اور تیسرا مدارس کا نظام ۔ ان تین طرح کے تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ کے نظریات اور انداز فکر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ انگریزی تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طالب علم اردو میڈیم کو پسماندہ اور مدارس کے طلبہ کو تنگ نظر اور انتہا پسند تصور کرتے ہیں۔ اس کے بالمقابل مدارس کے طلبہ انگریزی تعلیمی یافتہ طبقے کو دین کا مخالف تصور کرتے ہیں، جبکہ اردو میڈیم کے طلبہ بھی انگریزی میڈیم کو مغرور اور خود پسند سمجھتے ہیں۔ میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیز میں بھی اکثر وبیشتر مختلف تعلیمی پس منظر کے حامل طلباکے درمیان ایک خلیج نظر آتی ہے۔ سماجی سطح پر ایک پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبا کے درمیان گرمجوشی ، جبکہ مختلف پس منظر کے حامل طلبا میں ایک فاصلہ نظر آتا ہے ۔ طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومتیں یہ کام نہیں کر پاتیں تو طبقاتی کشمکش کوبتدریج فروغ حاصل ہوگا ۔ یہ طبقاتی کشمکش جذبہ اخوت اوررواداری کے لیے زہر قاتل اور قومی وحدت کے لیے انتہائی خطرناک ہے ۔ حکومتوں کو قوم کو یکجا کرنے کے لیے ایک ہی جیسی سہولیات پر مبنی نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ ملک کی تمام درسگاہوں سے فارغ طلبا ایک ہی تسبیح کے دانوں کی طرح پروئے ہوئے نظر آئیں ۔
ایک اور اہم مسئلہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے کشیدہ تعلقات ہیں۔ بھارت سے ہمارے خراب تعلق کی بہت بڑی وجہ بھارت کی آبی جارحیت اور مسئلہ کشمیر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے افراد کی اکثریت مسلمان ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بنگال اور مغربی پاکستان کے مسلم اکثریت والے علاقے تو آزاد ہو گئے لیکن یہ مقام افسوس ہے کہ کشمیر کو جبراً بھارت کے زیر تسلط رکھا گیا۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کوتسلیم نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔اگر اقوام مغرب سکاٹ لینڈ اور مشرقی تیمور میں استصواب رائے کروا سکتی ہیں تو اہل کشمیر کو یہ سہولت کیوں فراہم نہیںکی جارہی ؟ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور اہل کشمیر سے ناروا سلوک کی وجہ سے خطے میںسیاسی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں کواس حوالے سے اپنا کرداراداکرنا ہوگا اوراہل کشمیر کے مطالبات پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنا ہوگا۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی ذمہ داری ریاست پاکستان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اہل کشمیر کو حق خودارادیت دلانے کے لیے سفارتی اور سیاسی سرگرمیاں استعمال کرے تاکہ اہل کشمیر پر ہونے والے مظالم کا ازالہ ہو سکے اور برصغیرکے دونوں ممالک کے درمیان موجود ایک کلیدی تنازع ختم ہو سکے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں