"AIZ" (space) message & send to 7575

ناموس رسالتﷺ کا مسئلہ

نبی کریمﷺ کی عزت و ناموس کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمان خواہ کتنا ہی بے عمل کیوں نہ ہو حضرت رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس پر سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ حضرت رسول اللہﷺ کی حرمت و ناموس کے حوالے سے مغربی اقوام اور ان کے رہنما مسلمانوں کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور گاہے گاہے کوئی نہ کوئی‘ نبی کریمﷺ کی حرمت پر حملہ کرکے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ 
ماضی میں اس قسم کے اقدامات کو بعض افرادکی جہالت اور اسلام دشمنی سے تعبیر کیا جاتا رہا۔ کئی مسلمان رہنما مسلمانوں کو تاثر دیتے رہے کہ چند افراد کی غلطی پر پور ے معاشروں کو مطعون نہیں کیا جا سکتا۔ پادری ٹیری جونز نے جب امریکہ میں قرآن پاک کے مقدس صفحات کو جلانے کی ناپاک جسارت کی‘ اسی طرح ڈنمارک کے ایک اخبار نے نبی کریمﷺ کے گستاخانہ خاکے بنائے تو یہی تاثر دیا گیاکہ بعض متعصب افراد نفرت اور انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے مذہبی اور اخلاقی اقدار کو فراموش کرکے اس قسم کی ناپاک جسارت کر رہے ہیں ۔
ان واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیے دنیا بھر کے مسلمان گاہے گاہے جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کرتے رہے لیکن مسلمانوں کے احتجاج کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔ حریت فکر اور آزادیٔ اظہار کے نام پر نفرتوں کا اسیر طبقہ دلآزار حرکتوں کا ارتکاب کرتا رہا۔ مسلمان حکمران اور امت مسلمہ کے بہت سے رہنما یورپی ممالک کو ان معاملات کا ذمہ دار نہیں سمجھتے۔ ان کا گمان ہے کہ یورپ کے حکمران ان واقعات سے متفق نہیں لیکن آزادیٔ اظہار کے مروجہ اصولوں کی وجہ سے اس کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں لیکن چارلی ہیبڈو کی اسلام دشمن حرکت کا جس انداز میں دفاع کیا گیا اس نے مسلمانوں کے احساسات کو بری طرح مجروح کیا۔ یورپ کے رہنماؤں نے آزادیٔ اظہار کی آڑ میں جس طرح توہین مذہب کی حوصلہ افزائی کی ہے اس نے بعض نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔
اگر حریت فکر اور آزادیٔ اظہار کی کوئی حد نہیں تو یورپی سماج توہین عدالت اور ہتک عزت کے قوانین کو کیوں قبول کرتا ہے؟ کیا عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید نہیں کی جاسکتی؟ کیا انسانوں پر جھوٹے سچے الزامات نہیں دھرے جا سکتے؟حریت فکر اور آزادی ٔ اظہار کے نقیب معاشرے اس سوال کا جواب یوں دیں گے کہ اگر عدالتی فیصلوں پر سرعام تنقید شروع ہوگئی تو معاشروں میں انارکی پھیلے گی۔ مجرم اور بے گناہ میں تمیز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طرح اگر انسانوں پر بدعنوانی اور بد چلنی کے غلط الزامات کو قبول کر لیا گیا تو معاشروں میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں رہ سکے گی ۔ یورپی معاشروں میں ہتک عزت کے دعووں پر کئی مرتبہ الزام تراشی کرنے والے عناصر کو‘ متاثرہ فریق کو کروڑوں ڈالر ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ آئندہ کے لیے اس طرح کے اقدامات سے اجتناب کی یقین دہانی بھی کرانا پڑتی ہے۔ 
یورپ کے ارباب فکر و دانش کو ٹھنڈے دل سے اس مسئلے پر غوروخوض کرنا چاہیے کہ نبی آخرالزماںﷺ کی عزت وناموس کا مسئلہ امت مسلمہ کے لیے پوری انسانیت اور تمام حکومتوں اور انسانی اداروں کی حرمت سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ حریت فکر اور آزادیٔ اظہارکی آڑ میں کسی ایسی ہستی کی توہین جس سے ڈیڑھ ارب انسانوں کی دل آزاری ہوتی ہو کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں۔ توہین رسالت کا ارتکاب چونکہ بڑے تواتر اورتسلسل سے ہو رہا ہے اس لیے امت مسلمہ کو اس مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ عارضی نہیں بلکہ مستقلاً حل ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک کردار علما، رہنما اور عوام‘ دوسرا صرف اور صرف مسلم حکمران ہی ادا کرسکتے ہیں ۔
علما اور رہنمائوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حرمت رسولﷺ کے حوالے سے رائے عامہ بیدار کریں۔ جلسے، جلوسوں ، اجتماعات اور لٹریچر کی نشرواشاعت کے ذریعے امت کی توجہ اس اہم معاملے کی طرف مبذول کروائیں ۔ عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ حُب رسول اللہﷺ کی مناسبت سے ان تمام پروگراموں میں دیوانہ وار شرکت کریں۔ تقاریر اور خطبات سن کر، نیز کتابچے اور لٹریچر پڑھ کر اپنے دل کی دنیا کو روشن کریں اور اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کریں اس سلسلے کی اہم ترین کتاب جس کا مطالعہ اس وقت ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ''الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ ہے۔ امام ا بن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب میں قرآن مجید کی آیات ، احادیث مبارکہ ، سیرت النبیﷺ کے مستند واقعات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز عمل سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جس طرح حدود اللہ کو پامال کرنے والا مجرم‘ قانون کی گرفت میں آجانے کے بعد کسی بھی قسم کی رعائت کا مستحق نہیں‘ اسی طرح توہین رسالتﷺ کا ارتکاب کرنے والا بدبخت شخص بھی ثبوت مل جانے کے بعد کسی قسم کی رعائت کا حق دار نہیں۔ 
امام ابن تیمیہ رحـمہ اللہ نے اپنی مفصل کتاب میں محمد بن مسلمہؓ کے ہاتھوں کعب ابن اشرف، عبداللہ ابن عتیک ؓ کے ہاتھوں ابورافع یہودی کا قتل ، عمیر ابن عدیؓ کے ہاتھوں اسماء بنت مروان کا قتل اور ایک نابینا صحابی کے ہاتھوں اس کی لونڈی کے قتل کا واقعہ درج فرما کر اس حکم کو واضح کیا ہے کہ توہین رسالتﷺ کی ناپاک جسارت کرنے والے لوگ کسی بھی قسم کی نرمی کے مستحق نہیں۔ حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں جس کے نبی کی شان میں گستاخی کی جائے۔ اسی نسبت سے پاکستان سمیت بہت سے دیگر ممالک میں توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا قانون موجود ہے۔ توہین رسالت کے ساتھ ساتھ کسی بھی نبی کی توہین کو روکنے کے لیے بھی ملک میں قوانین موجود ہیں۔ علما، رہنمائوں اور عوام کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اہم ترین ذمہ داری مسلمان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ توہین رسالت کے واقعات کو روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کروائیںاور اہل مغرب کو اس بات پر مجبور کریں کہ جب بھی کہیں توہین کا ایسا واقعہ ہو تو اس کا محاسبہ کیا جائے تاکہ دنیا میں بقائے باہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ 
سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں جب برطانیہ اورفرانس میں توہین آمیز ڈرامے بنائے گئے تو خلیفہ عبدالحمید الثانی نے ان ممالک کی حکومتوں کو پیغام بھیجا کہ اگر توہین آمیز واقعات کو نہ روکا گیا تو سنگین نوعیت کا رد عمل سامنے آسکتا ہے۔ خلیفہ وقت کی سنجیدگی کی وجہ سے فرانس اور برطانیہ کے حکمران سمجھ گئے کہ انہیں ایسے واقعات کو روکنا ہوگا وگرنہ مسلمان کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ موجودہ مسلمان حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہر ہ کرنا چاہیے ۔ اگر حریت فکر اور آزادیٔ اظہارکے دفاع کے لیے چالیس مغربی ممالک کے حکمران جمع ہو سکتے ہیں توکیا اپنے پیغمبرﷺ کی حرمت اور ناموس کے تحفظ کے لیے مسلمان حکمران جامع منصوبہ بندی نہیں کر سکتے؟ کیا مسلمان حکمران جمع ہو کر فرانس کی مصنوعات کے بائیکاٹ یا توہین کے تسلسل پر فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غوروخوض نہیں کر سکتے؟ اگر مسلمان حکمران مصلحت اور مفادات کی وجہ سے خاموش تماشائی بنے رہے تو توہین آمیز واقعات کو نہیں روکا جا سکے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مسلمان حکمرانوں کو شعور اور ہمت دے کہ وہ اس اہم ترین مسئلے پر اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کر سکیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں