فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو کی طرف سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور اس کے بعدرسالے کے دفتر پر ہونے والے ایک مشکوک حملے کے بعد جس طرح مغربی حکام اور سیاسی رہنماؤں نے حریت فکرکے نعرے کی آڑ میںتوہین آمیز خاکے بنانے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اس نے دنیائے اسلام کو گہرے اضطراب اور تشویش سے دوچار کر دیا ہے۔ اس سے قبل بھی گوانتانا موبے میں توہین قرآن مجید کے واقعات ہوئے، امریکی پادری ٹیری جونز کی طرف سے قرآن پاک کو نذرِ آتش کرنے کی ناقابل برداشت حرکت ہوئی، ڈنمارک، اور ہالینڈ سمیت مختلف ممالک میںتوہین آمیز خاکوں کی پوری ڈھٹائی کے ساتھ مسلسل اشاعت کو آزادی ٔ اظہار کا نام دے کر نظر انداز کیا جاتا رہا‘ جب کہ اسی مغرب میں فرد، آئین، پرچم اور یہودی افسانے ہولوکاسٹ کی توہین سمیت بے شمار معاملات کو آزادیٔ اظہار سے باہر رکھ کے قابلِ تعزیر بنایا گیا۔ حریت فکر کے نعرے کے باوجود اہل مغرب کبھی نقاب پر پابندی عائد کردیتے ہیں تو کبھی مسجدوں کے میناروں کو مغربی تہذیب کے لیے خطرہ قرار دے کر تعمیر کرنے سے روک دیتے ہیں۔ حریت فکر اور آزادیٔ اظہارکے پر کشش نعرے کی آڑ میں آئے دن مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے اور اس سلسلے کا سب سے زیادہ مکروہ عمل اللہ کی کتاب اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی شان اقدس میں تواتر کے ساتھ گستاخی ہے۔
چارلی ہیبڈو کی گستاخی کے بعدپاکستان میں متعدد بڑے اجتماعات اور ریلیوں کا انعقاد کیا گیاجن میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔بدقسمتی سے ان ریلیوں میں ملک کے نمایاں سیاسی قائدین شریک نہ ہوئے اور ناموس رسالت کا مسئلہ شعوری یا غیرشعوری طور پر مذہبی جماعتوں کے سپرد کر دیا گیا۔
اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے تحریک حرمت رسول نے موثر کردار ادا کیااورچند روز قبل لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں تمام مکاتب فکر کے جیدعلماء کے نمائندہ اجتماع کا اہتمام کیاگیا۔ اس اجتماع میںمذہبی قائدین نے فکر انگیز اور جذبات کو گرمانے والی تقاریر کیں۔ اسی حوالے سے 17فروری کو منصورہ میںبھی جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب نے ایک کل جماعتی قومی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ملک کی نمایاں مذہبی جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ (نون)‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے نمائندگان بھی شریک ہوئے۔
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب، مولانا سمیع الحق صاحب، پروفیسر حافظ محمد سعید صاحب سمیت مختلف قائدین اورعلمائے کرام نے مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ مجھے بھی کانفرنس میں خطاب کا موقع میسر آیا۔ میں نے جو گزارشات قومی قائدین کے سامنے رکھیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ناموس رسالت ﷺکے مسئلے پر معاشرے کے تمام طبقات کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔علماء کو عوام الناس کو اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے اور ان کو سمجھانا چاہیے کہ عصری معاشروں میں کسی بھی قسم کی بدامنی ، فساد اور انتشار کو روکنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کوروکنا ازحد ضروری ہے۔ اگر معاشروں میں توہین عدالت اور ہتک عزت کے قوانین کو قبول کیا جاتا ہے تو توہین رسالت سے متعلقہ قوانین کو بھی قبول کیا جانا چاہیے۔ علماء کے ساتھ ساتھ حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا ثبوت دیںاور اگر کسی کو آپﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے پائیں تو اسے قانونی طریقے سے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ حکمرانوں پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سفارتی اور سیاسی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کریںاور اس حوالے سے انہیں متنبہ کریں کہ توہین آمیز واقعات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا اشتعال عالمی امن کے لیے خطرناک ہو سکتاہے۔ اس سلسلے میں ہمارے حکمران مغربی حکمرانوں کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کریں اور توہین کی روک تھام کے لیے بین الاقوامی سطح پر قانون سازی کروانے کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے خطابات کی روشنی میں قومی کانفرنس میں ایک ڈرافٹ تیار کیا گیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما جناب فرید احمد پراچہ نے اس ڈرافٹ کو قائدین کے سامنے رکھا۔ قائدین کی توثیق کے بعدجن مشترکہ نکات، تجاویز اور مطالبات پر اتفاق کیا گیا وہ درج ذیل ہیں:
1۔پاکستان مسلم ممالک کی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کرے تاکہ ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے مشترکہ لائحۂ عمل تشکیل دیا جاسکے۔
2۔ تمام مسلم ممالک آزادیٔ اظہار کے نام پر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دل آزاری کی مستقل روک تھام کے لیے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے آرٹیکل نمبر 2 اور 5 کے مطابق عالمی سطح پر خاتم النبیین حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کی شان میں گستاخی کی سزا موت اور تمام آسمانی مذاہب کی توہین کو فوجداری جرم قرار دینے کے قوانین منظور کروائیں۔
3۔تمام مسلمان ممالک گستاخانہ کارروائیوں کے مرتکب فرانس و دیگر یورپی ممالک کے ساتھ سرکاری سطح پر باضابطہ احتجاج کریںاور اگر وہ باز نہ آئیں اور گستاخانہ حرکتوں کے مرتکب مجرموں کو قرار واقعی سزا نہ دیں تو ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ اور ان سے سفارتی ، تجارتی و ثقافتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا جائے۔
4۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین اوراللہ کے آخری پیغمبر اور محسن انسانیت ہیں ۔ قرآن پاک آخری الہامی کتاب اور سیرت طیبہ شرق وغرب اور عرب و عجم کے لیے وہ پیغام رحمت ہے جو تمام مذاہب کے پیروکار وںکے لیے امت مسلمہ کے پاس امانت ہے۔ اس لیے یہ قومی کانفرنس دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں اوراسلامی تحریکوں اور تنظیموں سے اپیل کرتی ہے کہ دنیا بھر اوربالخصوص مغربی ممالک میں ''سیرت طیبہ دنیا بھر کے انسانوں کے لیے پیغام امن و سلا متی ‘‘کے موضوع پر عظیم الشان کانفرنسوں اور سیمینارز کا اہتمام کریں۔ نیز تمام بڑی زبانوں میں پیغام سیرت پر مشتمل مختصر موثر اور جامع کتابیں دنیا بھر میـںپھیلائی اور پہنچائی جائیں۔اس مقصد کے لیے پاکستان اور تمام مسلمان ممالک مستقل بجٹ مختص کریں ۔
5۔کانفرنس میں شامل تمام دینی وسیاسی جماعتیں ، سیاسی و سماجی رہنمااور تمام علمائے کرام، وکلاء ، طلباء ، مزدوراور کسان رہنما اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ سیرت طیبہ کے پیغام کو عام کرنے اورتحفظ ناموس رسالت کے مقاصد کے لیے ملک بھر کی مساجد ، اداروں ، بارایسوسی ایشنوںو دیگر مقامات پر سیرت کانفرنسوں اور سیمینارزکا مسلسل اہتمام کریں گے۔
6۔روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نام پر حدود اللہ اور ناموس رسالتﷺ پر مبنی قوانین ، کتب اور اسلامی شعائر کے خلاف مذموم مہم ختم کی جائے اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 31 کے مطابق حکومت پاکستان ملحدانہ تہذیب کے خاتمے اور اسلامی تہذیب کے فروغ اور نفاذ کو یقینی بنانے کا اعلان کرے۔
7۔قومی کانفرنس کے نمائندہ وفود اسلام آباد میں مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ تمام مغربی ممالک کے سفیروں اوردیگر اہم عالمی نمائندگان سے ملاقات کریں گے۔
8۔قومی کانفرنس تمام امت مسلمہ بالخصوص نوجوانوں کو یاد دلاتی ہے کہ دنیا میں امت کے عروج اور آخرت میں کامیابی کا انحصار قرآن و سنت کی تعلیمات پر عملدرآمد ، اسوۂ حسنہ کی پیروی اور محبت و اطاعت رسول ﷺ میں مضمر ہے۔
قومی کانفرنس میں اس بات کا بھی اعلان کیا گیا کہ تحفظ ناموس رسالت ﷺ اور پیغام رسالتﷺ کو عام کرنے کی یہ تحریک تب تک جاری رہے گی ، جب تک اس تحریک کے مقاصد پورے نہیں ہوجاتے۔ میں نے اس روح پرور قومی کانفرنس میں شرکت کرنے والے تمام مذہبی اور سیاسی قائدین کو حب رسولﷺ کے جذبات سے لبریز دیکھا ، کئی مقرر تقریر کرنے کے دوران آبدیدہ ہو گئے اور کئی مقررین کی تقاریر سن کر قائدین پر رقت طاری ہوگئی۔ کانفرنس سے واپسی پر میں سوچ رہا تھا اگرامت مسلمہ حقیقت میں رسول کریمﷺ کے پیغام اور مشن کو سمجھ کر ان کی محبت کے جذبات سے سرشار ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔