"AIZ" (space) message & send to 7575

شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس

جنوری کے آخر میں کراچی کے متحرک دوست مولانا عامر نجیب اور مولانا اشرف قریشی نے مجھے22فروری کو کراچی میں ہونے والی شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس میں آنے کی دعوت دی۔22 فروری کو میں علی الصبح کراچی پہنچا ۔ کانفرنس کا آغاز مغرب کے بعد ہونا تھااس لیے کچھ وقت دوستوں اور رفقاء سے ملاقات میں گزر گیا اوربعد ازاں میں کانفرنس میں شرکت کے لیے ناظم آباد کی عید گاہ گرائونڈ جا پہنچا۔ کانفر نس میں عوام کی کثیر تعد اد نے شرکت کی۔ علماء کی بڑی تعداد نے نہایت خوبصورت انداز میں عوام کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کی۔ میں کانفرنس کا آخری مقرر تھا۔ میں نے تقریباً ایک گھنٹے تک اس موضوع پر اپنے خیالات کو سامعین کے سامنے رکھاجن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی انسان کو باقی مخلوقات پر فضیلت بخش دی اورفرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دے کران کی فضیلت واضح فرمادی۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد سورت ذاریات کی آیت 56میں واضح فرما دیا: ''اور میں نے نہیں بنایا جنات اورانسان کو مگر اپنی عبادت کے لیے‘‘۔ یہ مقصد تخلیق پوراکرنے والے انسان یقینادنیاوآخرت میں سرخرو ہوں گے،انحراف کرنے والے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورت اعراف کی آیت 179میں ارشاد فرمایا: ''اور تحقیق ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے اکثرکو دوزخ کے لیے پیدا کیا ہے،ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ، یہی لوگ غافل ہیں‘‘۔اسی حقیقت کو ایک اور اندازسے اللہ تعالیٰ نے سورہ والتین کی آیت 4،5،6میں یوں بیان کیا: ''ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر ہم نے اس کو سب نیچوں سے زیادہ نچلی طرف پلٹا دیا، مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی بندگی کی عظیم شاہراہ پرچلنے والے تمام گروہ مقام اورمرتبے کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں،صلحا کی جماعت اپنے عظیم رتبے کے باوجود شہداء کی جماعت کی ہم مرتبہ نہیں ہے۔ اسی طرح صدیقین کا مقام شہداء سے بلند اور انبیاء علیھم السلام کا مقام صدیقین کی باوقار جماعت سے بھی بلندتر ہے ۔انبیاء علیھم السلام کی جماعت کی یہ شان ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ان عظیم نفوس میں سے بعض ہستیاں وہ تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نئی شریعت اور نئے احکامات کے ساتھ اہل کائنات کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔یہ صاحب شریعت انبیاء مقام رسالت پرفائز ہوئے۔اللہ کے ایسے انبیاء ورسل علیھم السلام کی تعداد 313کے قریب ہے اور یہ تمام رسول بھی ہم مرتبہ نہیں ہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 253میںارشاد فرمایا: ''یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ان میں سے بعض سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور بعض کے درجات کو بلند فرما دیا ‘‘۔ان تمام عظیم رسولوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم رسولوں کو سب سے زیادہ بلند مقام عطا فرمادیا جواللہ کی توحید کی دعوت کے لیے مسلسل جدوجہد فرمانے والے تھے ۔ انہوں نے صبح کے دھندلکوں،چلچلاتی دوپہروں، اندھیری راتوں، اعداء کی مخالفتوں اورکفارکی چیرا دستیوںکوخاطر میں نہ لاتے ہوئے اللہ کے دین کی ترویج کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ان تمام ہستیوں میں سے بھی اگر نمایاںترین مقام کسی کو حاصل ہواتو آقائے نامدار ، فخرموجودات،سید وُلد آدم اورامام الانبیاء حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کے متعدد دلائل میں سے چندنظرِقارئین ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مبعوث ہونے والے تمام رسول مخصوص علاقے اور محدود وقت کے لیے مبعوث ہوئے؛ چنانچہ قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم ، جنا ب ہودؑ قوم عاد،جناب صالحؑ قوم ثمود جناب شعیبؑ قوم مدین اورحضرت موسیٰ،حضرت ہارون ، حضرت داؤد،حضرت سلیمان، حضرت زکریا ،حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیھم السلام جیسے نامور رُسُل سمیت نبیوں کی ایک بڑی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمیع انسانیت اورقیامت کی دیواروں تک آنے والے ہر زمانے کی رہنمائی کے لیے تشریف لائے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے بھی انبیاء آئے ان میں سے ہر نبی کے بعد اللہ کے دین کی دعوت کو آگے بڑھانے کے لیے نئے نبی مبعوث ہوئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر نبوت اوررسالت کو تمام فرمادیا۔اللہ نے سورہ احزاب کی آیت40 میںواضح فرمادیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح کسی مرد کے حقیقی باپ نہیں ہو سکتے اسی طرح آپ کے بعد کوئی رسول اور نبی بھی نہیںہو سکتا ۔نبی کریمﷺ نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں اپنے بعد آنے والے نبوت کے30 جھوٹے دعویداروںکا ذکر فرما کر اپنی اُمت کی رہنمائی فرما دی کہ انہیںآپ کے بعد نبوت کے ہر دعویدار سے برأت کا اظہار کرکے آپ کی ختم نبوت سے کا مل اور والہانہ وابستگی کا اظہار کرنا چاہیے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے اللہ کے رسولوں نے سوائے اپنے قریبی رشتہ دار انبیاء کے دوسرے انبیاء کی زیارت نہیں کی تھی؛چنانچہ حضرت آدم ؑنے حضرت نوحؑ، حضرت ہود ؑنے حضرت صالحؑ ،حضر ت ابراہیمؑ نے حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت داؤد ؑنے حضرت عیسیٰ ؑ سے ملاقات نہیں کی تھی جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے شب معراج صحن بیت اللہ سے بلند فرما کرصحن بیت المقدس پہنچادیاتوآپ کی امامت میں سابق تمام انبیاء علیھم السلام کو جمع فرما کر پوری کائنات کو سمجھا دیا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آنے والوں کے صرف امام بن کر نہیں آئے بلکہ جانے والوں کے بھی امام ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاایک بڑا شرف یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سابق انبیاء کو بھی کتب اورصحائف عطا فرمائے لیکن ان انبیاء علیھم السلام کے انتقال کے بعد ان کی کتابیں تبدیل ہوگئیں جبکہ آپؐ کے قلب اطہر پر نازل ہونے والی کتاب صدیاں بیت جانے کے باوجود محفوظ ومامون ہے،صرف تحریری شکل میںنہیں بلکہ اللہ نے اسے دنیا کے اطراف میں پھیلے ہوئے لاکھوں حفاظِ قرآن کے دھڑکتے دلوں میں بھی سمو دیا ہے۔ آپ کے شرف کا ایک اورپہلوآپ کے ذکرکی بلندی ہے ۔بلادِ اسلامیہ سے لے کر بلادِ کفر تک دن میں پانچ مرتبہ اذان دی جاتی ہے تواللہ تعالیٰ کی الوہیت کے ساتھ آپؐ کی رسالت کا بھی اقرارکیا جاتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت صرف عالم موجودات میں نہیں؛بلکہ عالم ارواح میں بھی ہے! اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیھم السلام کی ارواح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایمان اور آپ کی نصرت کرنے کا وعدہ لیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے یہ روح پرورمنظر سورہ آل عمران کی آیت 81 میں یوں بیان فرمایا: ''جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں نے تمہیںجو کتاب اور حکمت میں سے عطا کیا ہے،پھر تمہارے پاس اگر ایک رسول آجائیں جو تصدیق کریں اس چیز کی جوتمہارے پاس ہے تو تم ضروران پر ایمان لاؤ گے اور تم ضرور ان کی مدد کرو گے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا :کیا تم اقرار کرتے ہواوراس عہدکی ذمہ داری لیتے ہو توانہوں نے کہا ہم نے اقرارکیا۔فرمایا:پھر تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں‘‘ ۔
اس طرح عالم حشر میں بھی جب اللہ تعالیٰ کا غضب اپنے پورے عروج پر ہوگا تو لوگ بے چینی اور بے قراری کے عالم میں انبیاء علیھم السلام کی طرف مائل ہوںگے کہ وہ ان کے لیے دعا کریں تو ہر نبی ایسے عالم میں کسی نہ کسی سبب سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونے سے احتراز کرے گا۔ایسے عالم میں سیدالانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کی بارگاہ میں ایسی حمد و ثناکریں گے جواس سے پہلے کسی نے نہ کی ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حمد و ثنا کے بعد بارگاہ رب العالمین میں دعا کریں گے،اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرما کر حساب و کتا ب شروع فرمائیں گے جس کے بعد اہل خیر کے لیے جنت اور اہل شرکے لیے جہنم میں جانے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ قیامت کے دن جب گرمی اپنے پورے عروج پر ہوگی تو صرف ساقیء کوثر ﷺہی کا حوض ہو گا جس سے پانی پینے والوں کو پچاس ہزار سال کی گرمی کا احساس بھی نہیں ہوگا ۔
رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شان اور مقام کا انسانیت بالخصوص مسلمانوں کو صحیح طریقے سے ادراک ہو جائے تو زندگی کے کسی شعبے میں بھی کسی غیر سے رہنمائی حاصل کرنا تو دور کی بات ہے اس کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنے کی توفیق دے،آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں