اللہ تبارک وتعالیٰ خالق کائنات ہیں۔ وسیع وعریض کائنات میں ہزاروں طرح کی مخلوقات ہیںجو مختلف درجات کی حامل ہیں۔کسی کا درجہ اتنا پست ہے کہ اس سے اللہ کی پناہ حاصل کرنا ضروری ہے‘ جب کہ ایسی بھی مخلوقات ہیں کہ جن کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرب ملائکہ بھی دعائے مغفرت کرتے ہیں۔
قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا مشکل نہیںہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ تین کی آیت 4 میں اعلان فرمادیا: ''تحقیق ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا‘‘۔ یہ آیت بتلاتی ہے کہ انسان کی فضیلت کا بڑا سبب وہبی ہے۔ انسان کی دیگر مخلوقات پر فضیلت کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب علم بھی ہے جس کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات پر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اشیاء کے ناموں سے آگاہ فرمایا اور بعد ازاں ان کی بابت فرشتوں سے استفسار کیا تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنے کے بعد لاعلمی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر جب حضرت آدم علیہ السلام نے ان اشیاء کے ناموں سے فرشتوں کو آگاہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کوان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔
علم کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے مختلف درجے اور طبقات ہیں۔ سورہ یوسف کی آیت 76 ہمیں بتلاتی ہے کہ ہر عالم سے بڑا عالم دنیا میں موجود ہے۔ علم کے اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کا مقام دیگرتمام انسانوںسے بلند ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے وحی الٰہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم حاصل کیا۔ علم الٰہی سے براہ راست استفادہ کرنے والے انبیاء نے کائنات سے جہالت کے اندھیروں کو دور فرمایا۔ جہالت کے علمبرداروں نے انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کرکے اپنا نام بدبختوں کی فہرست میں درج کروا لیا۔ سورہ آل عمران کی آیت 33 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ، حضرت نوح، آل ابراہیم اور آل عمران علیہم السلام کی فضیلت کا ذکر کیا ۔ قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کو متعدد وجوہ کی بنیاد پر دیگر تمام انبیاء اور رسل پر فضیلت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جمیع مخلوقات میں سے کوئی بھی ہستی حضرت رسول اللہﷺ کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
علم کی متعدد اقسام ہیں۔ کچھ علوم کا تعلق دین کے ساتھ ہے اور کچھ علوم عصری نوعیت کے ہیں جنہیں دینی اور طبعی علوم کے مقابلے میں فنون بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ علوم و فنون حاصل کرنے والے لوگ انسانوں کی فلاح و بہبود میں نمایاں کر دار ادا کرتے ہیں۔ اشیاء کی حقیقت پر غور وخوض کرنے والے اور ان سے لاعلم لوگ درجات میں برابر نہیں ہوسکتے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عصری علوم میں مہارت رکھنے والے بہت سے لوگ ایمانیات کے باب میں بالکل لا علم ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے قابل ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدان غیر مسلم ہیں۔ گو ان لوگوں نے دنیا کی تعمیر اور ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن اخروی نجات کامدار ایمان اور عمل صالح پر ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صحیح راستے پر گامزن ہونے کی وجہ سے اہل ایمان کو دیگر مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مجادلہ کی آیت نمبر 11 میں اہل ایمان اور اہل علم کے درجات کی بلندی کا ذکر فرمایا۔ اسی طرح سورہ منافقون کی آیت 8 میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''عزت اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے لیکن منافق نہیں جانتے۔‘‘
قرآن مجید کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ مختلف ادوار میں ایمان کی دولت سے بہرہ ور کمزور، غریب اور ناتواں لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے صاحب اقتدار، صاحب سرمایہ اور صاحب اثر لوگوں کے مقابلے پر فضیلت عطا فرمائی۔ فرعون کا اقتدار، ہامان کا منصب، قارون کا سرمایہ ، شداد کی جاگیر اور ابولہب کی خاندانی وجاہت ان کے کسی کام نہیں آئی۔ جبکہ حضرت آسیہؓ، حضرت بلالؓ، حضرت سمیہؓ ، اصحاب الاخدود اور فرعون کے ظلم کا نشانہ بننے والے جادوگروں کا تذکرہ رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔
اگرچہ علم کی اہمیت مسلم ہے لیکن ایمان کے بغیر علم بے کار ہے اس لیے کہ علم کا بڑا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قربت حاصل کرنا ہے۔ اگر ایمان نہ ہو تو یہی علم انسان کی تباہی اوربربادی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ابلیس اور ابو جہل کی تباہی کا مقصد علم کی کمی نہیں بلکہ ایمان کا نہ ہونا تھا۔ا یمان کے بغیر علم ذہنی مشقت اور بحث ومباحثہ کا سبب اور ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن فلاح دارین کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
اہل ایمان میں سے بھی تمام لوگ درجات کے اعتبار سے ہم پلہ نہیں، بلکہ صلحاء کے مقابلے میں شہداء اور شہداء کے مقابلے میں صدیقین کا درجہ بلند ہے۔ اسی طرح عہد رسالت مآبﷺ میں زندگی گزارنے والے اہل ایمان کا درجہ بعد میں آنے والے اہل ایمان کے مقابلے میں بلند ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میںـ بھی درجہ بندیاں ہیں۔ سورہ حدید کے مطابق فتح مکہ سے قبل ایمان لانے والوں کا درجہ ، فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں کے مقابلے میں بلند ہے۔ اسی طرح حدیبیہ کے مقام پر نبی کریمﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے صحابہ کا درجہ باقی صحابہ سے بلند ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کل جماعت میں سب سے بلند درجہ بدر کے تین سو تیرہ مجاہدین کا اور ان میں سے بھی عشرہ مبشرہ فضیلت والے ہیںاور ان میں سے بھی درجات کے اعتبار سے خلفائے راشدینؓ بلند ہیں۔ اسی طرح امہات المومنینؓ کا مقام دیگر مومنہ عورتوں کے مقابلے میں بلند ہے۔
فضیلت کا ایک اور سبب تقویٰ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ حجرات کی آیت 13 میں ارشاد فرمایا: ''بے شک تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا ڈر انسانوں کو گناہوں سے بچاتا اور عمل صالح کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ اپنے نفس کی خواہشات کو دبانے والے متقی اور پرہیز گار لوگوں کا مقام خواہ دیگر انسانوں کی نظروں میں کچھ بھی ہو اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بہت زیادہ ہے۔ انسان حسن اور سرمایے کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انسانوں کے دل اور اعمال کو دیکھتا ہے۔
اہل تقویٰ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل اقتدار کو باقی لوگوں پر فضیلت دی ہے بشرطیکہ وہ ایمان والے ہوں۔ چنانچہ سورہ نساء کی آیت 59 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کے بعد صاحب امر لوگوں کی بات ماننے کی بھی تلقین کی ہے۔ تاہم تنازع کی صورت میں اپنے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی طرف پلٹنے کا حکم دیا ہے۔ دنیا میں صاحب اختیار لوگوں میں سے کئی اللہ تعالیٰ کے باغی اور بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان بھی گزرے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے حکمران منصب خلافت پر فائز ہوئے اور دنیاوی وجاہت کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی بھی ان کا مقدر بن گئی۔
اللہ تعالیٰ نے جناب طالوت اور جناب ذوالقرنین کو حکومت عطا فرمائی ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد، حضرت سلیمان اور حضرت یوسف علیہم السلام بھی زمین پر حاکم رہے۔حضرت ابوبکر، حضر ت عمر، حضرت عثمان اورحضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اللہ تعالیٰ نے اختیار عطا فرمایا۔ ان خلفاء نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا اور اللہ تعالیٰ کی بندگی احسن طریقے سے بجا لانے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی فلاح و بہبود کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کیا اور یوں اپنی فضیلت کو اپنے کردار اور عمل سے ثابت اور واضح فر ما دیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا ذکر کیا‘ اس لیے وہ عورتوں کے نگران اور نان نفقے کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ہیں۔ مردوں کو عورتوں کی کفالت کی وجہ سے ہی فضیلت حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس کا بڑا سبب وہبی بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے جس کو چاہتے ہیں دیگر مخلوقات کے مقابلے میں فضیلت عطا فرما دیتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نہ ماننے کی وجہ سے ابلیس راندۂ درگاہ ہو گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے برادران یوسف حسد اور کینہ کا شکار ہوگئے۔ رسول اللہﷺ کی فضیلت کونہ مان کر ابوجہل اور ابو لہب تباہی کے گڑھے میں گر گئے۔ ہمیں فضیلت کے اسباب کو سمجھنا چاہیے اور ان کو اپنانے کی جستجو بھی کرنی چاہیے لیکن جن لوگوں کو علم، تقویٰ اور ایمان میں سبقت لے جانے کی وجہ سے ہم پر فضیلت حاصل ہو چکی ہے ان سے حسد کرنے کی بجائے ان کی فضیلت کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت کرنی چاہیے کہ سورہ حشر میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے مرحوم مومن بھائیوں کے لیے دعائے مغفرت کرنے اور اہل ایمان سے کینہ نہ رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کی اس عظیم نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)