اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کسی بھی چیز کو بلا سبب نہیں بنایا۔ہرچیز کسی نہ کسی مقصد کے تحت تخلیق کی گئی ہے۔اجرام سماویہ کی تخلیق کے بھی بہت سے مقاصد ہیںجن کا ذکر قرآن و سنت میں بڑی وضاحت سے کیا گیا ہے۔قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج روشنی کا ایک دِیا ہے جس کے گھٹنے اور بڑھنے سے وقت کا اندازہ بھی لگایا جاتا ہے اور نمازوں کی ادائیگی کے اوقات کا تعین بھی کیا جاتا ہے ۔ سورج کی حرارت اور روشنی سے فصلیں پکتی ہیں اور انسان دن کے وقت اپنے کاروبار اورمعاشی سرگرمیوں کی تکمیل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورت نبا میں رات کو لباس اور دن کو معیشت کے چلانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
اسی طرح چاند کی تخلیق کے مقاصد بھی واضح ہیں۔ چاند ایک قدرتی کیلنڈر ہے اور اس کے گھٹنے اور بڑھنے سے مہینوں اور سالوں کی آمدورفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کی اہم عبادات کا تعین بھی قمری کیلنڈر سے کیا جاتا ہے۔ رمضان کے فرض روزوں اور حج کے مہینے کاتعین بھی اسی کے گھٹنے اور بڑھنے سے ہوتا ہے۔
اسی طرح دیگر ستاروں کا حال ہے۔ بحری جہاز اور جنگلات میں سفر کرنے والے مسافر ستاروں کے ذریعے اپنی سمتوں اور جہتوں کا تعین کرتے ہیںاور راستہ بھول جانے کی صورت میں مشرقی، مغربی ،شمالی اور جنوبی ستاروں کے ذریعے دوبارہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام کی آیت 98 میں ارشاد فرمایا''اور اسی نے تمہارے لیے ستاروں کو بنایا تاکہ ان کے ذریعے تم خشکیوںاور سمندروں کے اندھیروں میں راستے معلوم کرو۔‘‘گویا کہ ستارے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنائے ہوئے سائن بورڈ ہیں جو مسافروں کی رہنمائی کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ حجر کی آیت 17,16 اور 18 میں ستاروں کی تخلیق کے مزید دو مقاصدذکرکیے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''اور ہم نے آسمان میںبروج بنائے اور ان کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کر دیا اور ہم نے ان کی حفاظت کی ہر شیطان مردود سے، مگر جو کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو شہاب ثاقب اس کا تعاقب کرتا ہے۔‘‘آیات مذکورہ میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانِ دنیا کی خوبصورتی کے لیے خوش نما ستارے بنائے ہیں۔ کھلے موسم میں اگر کوئی شخص رات کے وقت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی قندیلوںکے حسن پر غور کرے تو اللہ تعالیٰ کی بے مثال تخلیق اور اس کے حسن وخوبی کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ بعض چور شیاطین جب آسمان کی خبروں کو زمین پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو شہاب ثاقب کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے آگ کے یہ گولے جاسوسی کرنے والے شیاطین کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔
انسان کی رہنمائی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو حواس خمسہ کی نعمت سے بہرہ ور کیا ہے لیکن حواس خمسہ کئی مرتبہ حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سراب کی ہے کہ انسان صحرا یاچمکتی ہوئی دوپہر میں کچھ فاصلے پر پانی کھڑا ہوا محسوس کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ نظر کا دھوکا ہوتا ہے۔ عقل انسانی اس کی رہنمائی کرتی ہے کہ آنکھ حقیقت کو نہیں دیکھ پا رہی۔ اسی طرح بخار کی حالت میںجب میٹھی چیزبھی انسان کو کڑوی محسوس ہوتی ہے تو انسان کی عقل اس کی رہنمائی کرتی ہے کہ اشیاء حقیقت میں کڑوی نہیں ہیں بلکہ بخار کی وجہ سے کڑوی محسوس ہورہی ہیں۔
حواس خمسہ کو لگنے والے ٹھوکر کی صورت میں انسان کی رہنمائی اس کی عقل کرتی ہے۔ اسی طرح اگر انسانی عقل حیرانگی ،تشویش، وہم اور شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے تو وحی الٰہی انسان کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ وحی کی رہنمائی کے بغیر انسان عقائد اور ایمانیات کے باب میں کئی مرتبہ حیرانگی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ دنیا کے معاملات میں اچھی خاصی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ بھی کئی مرتبہ پتھروں، مورتیوں اوربتوں کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں۔کچھ یہی معاملہ اجرام سماویہ کے ساتھ بھی رہا ہے ۔ مختلف ادوار کا انسان ستاروں کے بارے میں مافوق الفطرت تصورات کا حامل رہا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کے لوگ بت پرستی کے ساتھ ساتھ ستارہ پرستی کا بھی شکار تھے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یکے بعد دیگرے چاند ،ستارے اورسورج کی حقیقت پر غور کیا اور جب ہر ایک کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو بستی کی بداعتقادی سے لاتعلقی کا اظہار فرما کر آسمان و زمین کے خالق کی طرف اپنے چہرے کا رخ پھیر لیا۔ قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ اہل ایمان کو سورج اور چاند کی پوجا سے روکا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ حم السجدہ کی آیت 37 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اسی کی نشانیوں میں سے رات، دن، سورج اورچاند ہیں ۔تم سجدہ نہ کر و سورج اور چاند کو اورسجدہ کرو اس کو جس نے سورج اورچاند کو بنایا ہے اگر تم اسی ہی کی پوجا کرتے ہو۔‘‘
قرآن وسنت کی تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں نے سورج ، چانداور ستاروں کی پوجا سے لاتعلقی کو اختیار کر لیا ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور نشانی کے طور پر قبول کر لیا لیکن بدقسمتی سے تاحال مسلمانوں میں ستاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کے حوالے سے مختلف قسم کے اعتقادات اور تصورات پائے جاتے ہیں۔
بہت سے مسلمان ابھی بھی بارہ بروج پر یقین رکھتے ہیںاور ستاروں کی روشنی میں اپنے ماہ وسال اور آئندہ آنے والے ہفتوں اور ایاّم کا جائزہ لیتے ہیں۔ بہت سے لوگ کاروبار اور سفر کے حوالے سے ستاروں کے اثرات پر غوروخوض کرتے ہیں اوراس حوالے سے بہت سے رسائل، جرائد اور اخبارات میں مستقل مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح ستارہ پرستی کی نفی کی ہے اسی طرح ان کے انسانی زندگی اورقدرتی معاملات پربھی اثرات کو قبول نہیں کیا ۔ اسی حوالے سے صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث خصوصی اہمیت کی حامل ہے:
سیّدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کی نماز حدیبیہ میں پڑھائی اوررات کو بارش ہوئی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے توآپ نے لوگوں کو متوجہ ہو کر فرمایا :کیا تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپٖٖ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''میرے بندوں میں سے بعضوں کی صبح تو ایمان پر ہوئی اور بعضوں کی کفر پہ۔تو جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ ستاروںکے بارش برسانے کا منکر ہوا اور مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ بارش ستاروں کی گردش کی وجہ سے ہوئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔ ‘‘
حدیث مذکور اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ صرف ایک بارش کی نسبت اللہ کی ذات کو چھوڑ کر ستاروں سے کی جائے تو انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کا منکر ہوجاتا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے آنے والے ماہ وسال اور آئندہ کے سفر، کاروبار، شادی بیاہ اور دیگر معاملات کو ستاروں کی روشنی میں دیکھتا ہے اس کی کیفیت کیا ہو گی؟ اسلام لانے کے بعد ہم سب کے لیے اجرام سماویہ کی پوجا کو چھوڑنا اور ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور نشانی سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ستارہ پرستی سے ہٹاکر اپنی ذات پر یقین اور بھروسہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)