مغرب میں سماجی سطح پرمختلف ایام منانے کا رجحان عام ہے۔ وہ ماں، باپ، اولاد،بیوی اور محبوب سے اظہار یکجہتی کے دن مناتے اوراپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں۔ مغربی معاشروںمیں انسانی حقوق کے حوالے سے مباحث اور مذاکروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے،لیکن عملی طور پر لوگوں کی بڑی تعداداپنے حقوق کی ادائیگی سے غافل رہتی ہے ۔ تاہم ان معاشروں میں ریاست کا کردارکافی حد تک ذمہ دارانہ ہے۔ریاست انفرادی سطح پر ہونے والی بے اعتدالیوں کے تدارک کے لیے اپنے طور پر بندوبست کرتی رہتی ہے جس کی وجہ سے معاشرے کے مجبور طبقوںکے مسائل کے حل کی کوئی نہ کوئی صورت نکلتی رہتی ہے۔ بوڑھے والدین کی محرومیوں کے ازالے کے لیے اولڈ ہائوسزاور بے گھر عورتوں کے لیے شیلٹر ہومز قائم کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ مراکزگھریلو سطح پر ہونے والی محرومیوں کا ازالہ تو نہیں کر سکتے‘ لیکن پھر بھی اشک شوئی کا ایک ذریعہ ضروربن جاتے ہیں۔
مشرقی معاشروں میں ابھی تک خاندانی نظام مربوط ہے اور بہت حد تک خاندانوں کے افراد ایک دوسرے کے کام آتے ہیں‘ ایک دوسرے کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ بوڑھے افراد کا خاندانوں میں احترام برقرار ہے، بالخصوص ماں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ معاشرے میں کئی رشتوںکااستحصال ہوتا ہے لیکن پھر بھی انسانیت کا درد رکھنے والے افرادکی اکثریت اپنی ذمہ داری اورکردار ادا کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
مشرقی معاشروں کا بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومتوں کاکردارغیر ذمہ دارانہ ہے اور معاشرے میں محرومیوںکے ازالے کے لیے ریاست اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتی۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے مقامات پر بہت سے طبقات کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔ محروم طبقے معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کے ساتھ ساتھ سماجی ڈھانچے کی مخصوص ساخت کی وجہ سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو برادشت کرنے پر مجبور رہتے ہیں۔ان زیادتیوں کے تدارک کے لیے جہاں حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘ وہاں عام لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ دیانت داری ،احساس ذمہ داری ، خلوص ‘ ایثار‘ شعور اور آگاہی کے بغیر معاشرے میں ظلم اور بدعنوانیوں کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔
معاشرے کے مختلف طبقات میں احساس ذمہ داری اجاگر کرنے کے لیے اساتذہ ،علماء ، ماہرین تعلیم اور سیاسی رہنماؤںکو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور حقوق و فرائض کے مابین توازن برقرار رکھنے کی ضرورت اوراہمیت کو معاشرے میں اجاگر کرنا چاہیے۔
اگر معاشرے میں خودغرضی کی جگہ ایثاراور نفس پرستی کی جگہ خیر خواہی لے لے تو معاشرتی بگاڑ پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ خیرکے ان جذبات کی ترویج کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور عوام کو یہ احساس دلانا بھی ضروری ہے کہ بے غرض اور خیر خواہ افراد کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا بہت بڑا صلہ اخروی نجات اور خیر خواہی کی شکل میں حاصل ہونے والا ہے۔ شعور اور آگاہی کی سطح بلند کرنے کے لیے دنیا وی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہمارا معاشرہ دینی تعلیم سے آراستہ ہوجائے اورہر شخص قرآن وسنت کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں پہچان لے تو معاشرتی خرابیوں پر بآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ہمارے معاشرے میں جن طبقات کا استحصال کیا جاتا ہے ان میں عورت بھی شامل ہے۔ ماں کے علاوہ دیگر حیثیتوں میں بھی عورت کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ بیٹی اور بیٹے کی تعلیم ،لباس اورکھانے پینے میں کی جانے والی تفریق‘ ناجائز اور قابل مذمت ہے۔ شادی کے موقع پرعورت کی رائے کو اہمیت نہ دینا شرعی اعتبار سے ناقابل قبول ہے۔ شرعی نکاح کے لیے جہاں عورت کے ولی کی اجازت ناگزیر ہے وہاں اس کی اپنی رضامندی بھی ضروری ہے۔ بیٹی کو وراثت میں حصہ نہ دینا بھی خلاف دین و اخلاق ہے ، بلیک میلنگ اوردبائوکے ذریعے اس کا حق چھیننا بہت بڑا ظلم ہے۔
بیوی کی حیثیت سے عورت شفقت اور محبت کی مستحق ہے لیکن بہت سے دیہی اور قبائلی علاقوں میں عورت پر بہت زیادہ تشدد کیا جاتا ہے۔ گھریلوذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اس پر معاشی ذمہ داریوں اورکھیتی باڑی کا بوجھ بھی ڈال دیاجاتاہے۔ یہ پرمشقت سرگرمیاں عورت کی جسمانی ساخت سے مطابقت نہیں رکھتیں‘ ان کے اس پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بہو کو وہ مقام نہیں ملتا جس کی وہ مستحق ہے۔ اپنے گھرکوالوداع کہہ کر آنے والی سے سوتیلی اولاد والا سلوک کیا جاتا ہے، وہ اپنے شوہر کا تشدد اور پورے کنبے کی طعن و تشنیع سہنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا حصہ جاگیر دارانہ تسلط میں زندگی گزار رہا ہے۔کئی علاقوں میں بسنے والی عورتوں کی قرآن کے ساتھ شادی کرکے انہیں تجردکی غیر فطری زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عورت کو تنہائی کا زہر پلاکر سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبورکیا جاتا ہے۔ اس ظلم اور جبر سے نجات دلانے کے لیے ہمارا معاشرہ کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ عورت کو اپنے بھائی اور باپ کی بدکرداری کے عوض انتقاماًبدکرداری کا نشانہ بننے والی عورت کے بھائی یا باپ سے جبراً بیاہ کرنے پر مجبورکر دیا جاتا ہے جو بہت بڑا ظلم ہے۔
معاشرے میں اس ظلم کی روک تھام کے لیے ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو بدلنا ہوگا۔ بہت سے سماجی رویوں کی اصلاح کے لیے کسی آئینی اور عدالتی حکم کی ضرورت نہیں؛ بلکہ تمام معاملات میں تعلیم و تربیت سے واضح تبدیلی آسکتی ہے۔ اگر اساتذہ، علماء اور ماہرین تعلیم معاشرے میں شعوراورآگاہی کی شمع روشن کرنے کی جستجو کریں تو اخلاقی روایات خود بخود بحال ہو سکتی ہیں۔
مشرقی معاشروں میں عورت کو اس کے بنیادی حقوق ملنے چاہئیں اور مغربی معاشروں میں بھی عورت کو دین ،مذہب ،لباس اور وضع قطع کے حوالے سے آزادی ملنی چاہیے۔ مشرقی معاشروں پر تو قدامت پرستی اور شدت پسندی کا الزام لگتا رہتا ہے‘ لیکن مغربی معاشرے جو اپنے آپ کو حریت فکر اور آزادیٔ اظہارکا علمبردار سمجھتے ہیں‘ وہاں بھی اس وقت مسلمان عورت اپنے حجاب اور طرز زندگی کی جنگ لڑنے میںمشغول ہے۔ جرمنی میں چند برس قبل مصرکی ایک عورت مروۃ الشربینی کو حجاب پہننے کی پاداش میں الیکس نامی ایک لبرل فاشسٹ کی نفرت کا نشانہ بننا پڑا۔ مروۃ الشربینی نے عدالت سے رجوع کیا تو الیکس نے مقدمے کی سماعت کے دوران مروۃالشربینی کو شہید کر دیا۔فرانس جیسے آزاد تمدن کے علمبردار معاشرے کے صدر سرکوزی نے مسلمان عورت کے حجاب پرکئی برس پہلے پابندی عائدکر دی تھی۔ یہ اقدام انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی تھا جس پر ہر صاحب دل کرب واذیت میں ڈوب گیا تھا۔ انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں نے عورت سے تن ڈھانپنے کا حق چھیننے پراحتجاج کرنے کے بجائے مکمل خاموشی اختیارکر لی۔ مغرب ہی کے معاشرے میں ہماری بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی عرصے سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے لیکن اس کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر مغربی معاشروں کے زندہ دل افراد کو بھر پور طریقے سے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔
عورت کے بعض حقوق مشرق و مغرب میں یکساں طور پر چھینے جا رہے ہیں جن میں سے ایک بہت بڑا ظلم عورت کو جبراً جسم فروشی پر مجبور کرنا ہے۔ دنیا کے تمام معاشروں میں اس حوالے سے کوئی موثر قانون سازی نہیں کی جا سکی۔ عورتوں کی بڑی تعداد قحبہ گری اور جسم فروشی کا دھندہ کرنے والوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے مشرقی اور مغربی دانشوروں اورسیاستدانوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ حوا کی بیٹی کو انسانیت سوز دھندے پر مجبور کر کے اپنی تجوریاں بھرنے والے وحشی درندوں کا راستہ کیسا روکا جا سکتا ہے۔ میری قارئین سے استدعا ہے کہ جس حد تک ممکن ہو عورت کو اس کے بنیادی حقوق دلوانے کی جدوجہد کریں‘ کسی شاہی یا عدالتی فرمان کے منتظر نہ رہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو سماج کی اصلاح کے لیے اپنی ذمہ داریوںکو اپنی حد تک انجام دینے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ جب انفرادی اصلاح کا عمل شروع ہوگا تو اجتماعی اصلاح کے امکانات بھی روشن ہو نا شروع ہو جائیں گے۔