اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کی زندگی کے تمام شعبوں میںکامل رہنمائی کرتا ہے۔ ا للہ کی کتاب اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انسان دنیاوی اور اخروی زندگی کی تمام منازل کو کامیابی سے طے کر سکتا ہے۔
چند روزقبل ایک تعلیمی ادارے نے ایک ہوٹل میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کے تجارتی پہلو پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ نبی کریمﷺ کا ایک معمولی امتی اور آپﷺ کے دین کا ایک ادنیٰ خدمت گار ہونے کے ناتے سیرت النبیﷺ کے اس پروگرام میں شمولیت یقینا میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ چنانچہ میں نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد کانفرنس میں جا پہنچا۔ استقبالیہ پر احباب نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیااور میں کانفرنس کے منتظمین کے ہمراہ کانفرنس ہال میں داخل ہو گیا۔صوبائی وزیر قانون رانا مشہود اور چیمبر آف کامرس لاہورکے صدر بھی کانفرنس ہال میں موجودتھے۔
ملک کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں رانا مشہود صاحب کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے دوران ایمپلی فائر کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ میں نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو رانا صاحب نے دیگر اسلامی ممالک کا حوالہ دیا۔ میں نے رانا صاحب کے سامنے یہ موقف رکھا کہ سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک میں خطبہ جمعہ پر کوئی پابندی نہیں اورخواتین کی بڑی تعداد اپنے گھروں میں بیٹھ کر خطبہ جمعہ سے آگاہی حاصل کرتی ہے۔ اسی طرح اذان کی آواز کو عوام تک پہنچانے کے لیے چاروں اطراف کے لاؤڈ سپیکروں کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے۔ رانا مشہود صاحب بغیر کسی تلخی کے میرا موقف سنتے اور جواب میں اپنا موقف بھی بیان کرتے رہے۔
اسی اثناء میں منتظمین کانفرنس نے شرکاء کوسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ تمام مقررین نے نبی ﷺ کی سیرت کے تجارتی پہلو کے حوالے سے قیمتی معلومات حاضرین تک منتقل کیں۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنے جذبات اور خیالات کا اظہا رکیا اور سیرت النبی ﷺ کے تجارتی پہلواورقرآن وسنت میں مذکور تجارتی اصولوں کو لوگوں کے سامنے رکھنے کی کوشش کی۔اس موقع پر میں نے جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
نبی کریم ﷺ سید البشر ہیں اور فخر موجودات ہیں۔ بنی نوع انسان میں سے کوئی بھی ہستی آپﷺ کے مقام اور منصب کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ آپ ﷺکی سیرت کائنات کے تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کی ذات اقدس کے تجارتی پہلو سے اگر صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو عصری معاشروں کی تمام معاشی الجھنیں دور ہو سکتی ہیں۔
نبی کریمﷺ اپنی بعثت سے قبل بھی تجارت کرتے تھے۔ آپ ﷺ کی کاروباری امانت اور دیانت کو دیکھ کر حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓنے آپ ﷺ کو پیغام نکاح بھجوایا تھا۔ آپﷺ کے بدترین مخالف بھی آپﷺ کو صادق اور امین سمجھتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو انسانیت کی ہدایت اوررہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا تو آپ ﷺ نے جہاں بھٹکتے ہوئے انسانوں کے عقائد ، عبادات اور معاملات کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا وہیں پر آپﷺنے کاروباری اعتبار سے بھی اپنی امت کے لیے انتہائی زریں اور سنہری اصول تجویز فرمائے۔
نبی کریمﷺ کے تجارتی اصولوں میں سے چند اہم اصول درج ذیل ہیں:
محسن انسانیتﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اگر تاجر نبی کریمﷺ کے اس اہم ارشاد کی تعمیل کریں تو اشیائے صرف و خورونوش ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک ہو سکتی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں دودھ سے لے کر پٹرول تک ہر چیز میں ملاوٹ کی جاتی ہے۔ اس ملاوٹ کا بنیادی مقصد زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے، لیکن زیادہ منافع کی حرص کی وجہ سے عوام کو جو نقصان سہنا پڑتا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ناقص تیل کے استعمال سے مشینری کی زندگی کم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ناخالص غذا استعمال کرنے کی وجہ سے لوگ مختلف طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آپﷺ کی حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہونے سے انسانوں کو پہنچنے والے نقصانوں کا ازالہ بھی ہوسکتا ہے اورتاجروں کی ساکھ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ بہت سے تاجر اس حقیقت سے غافل ہیں کہ لوگوں کی بڑی تعداد معیاری اشیاء مہنگے داموں خریدنے پر بھی آمادہ رہتی ہے، اس لیے ملاوٹ سے بچنے کی صورت میں کاروباری نقصان کی بجائے منافع کی شرح میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔
نبی کریمﷺ نے ذخیرہ اندوزی اور جھوٹی قسم اٹھا کر مال بیچنے کی بھی مذمت فرمائی۔اسی طرح آپﷺ نے پورا تولنے اور ماپنے کا بھی حکم دیا ہے اور اپنی امت کو حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی بدعملی سے آگاہ فرمایا کہ وہ ماپ تول میں کمی کرکے مال کمایا کرتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو پورا ماپنے اور تولنے کا حکم دیا تو وہ حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر تیار ہوگئے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل مدین کی بد عملی کا متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ قوم شعیب کے لوگ حضرت شعیب علیہ السلام کو کہا کرتے تھے کہ '' کیا آپ کی نماز آپ کو حکم کرتی ہے کہ ہم اپنے آبائو اجدادکے معبودوں کو چھوڑدیں یا اپنے کاروبار میں اپنی مرضی کرنا چھوڑ دیں۔ ‘‘
وہ ایک دوسرے کو مخاطب ہو کر کہا کرتے تھے کہ اگر تم نے شعیب علیہ السلام کی بات کو تسلیم کر لیا تو یقینا گھاٹا تمہارا مقدر بن جائے گا۔ وہ اس حقیقت سے غافل تھے کہ دنیااورآخرت کی ذلت و رسوائی ان کے تعاقب میں ہے۔ جب قوم مدین کسی بھی طور پر حضرت شعیب علیہ السلام کی عمدہ اور کھری نصیحتوں پر عمل کرنے پر آمادہ نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر قوم ثمود کی طرح ایک چنگھاڑ مسلط کر دی جس کے نتیجے میں قوم مدین تباہی اور ہلاکت کے گڑھے میں جا گری۔
نبی کریم ﷺ نے انسانیت کو حلال وحرام کے فرق سے آگاہ فرمایا اور ان کو حرام سے اجتناب کرتے ہوئے حلال کمائی کرنے کی رغبت دلائی۔ نبی کریمﷺ نے سود کو بھی حرام قرار دیا اور مقروض انسان کے استحصال کے تمام ممکنہ دروازوں کو بند فرما دیا۔ قرضہ عام طور پر ضرورت مند شخص ہی لیتا ہے اور ضرورت مند شخص کی ضرورت پوری کرنے کی بجائے اس پر اضافی رقم کا بوجھ ڈال دینا ہر اعتبار سے قابل مذمت تھا ۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے سود دینے، سود لینے، سود کی کتابت کرنے والے اور سود پر گواہی دینے والے کو ملعون قرار دیا ۔ اللہ کی کتاب میں سود ی تجارت کرنے والوں کو وعید سنائی گئی کہ اگر وہ اس غلط کام سے باز نہ آئے تو اللہ اور اس کے رسول کا ان کے خلاف اعلان جنگ ہوگا۔
نبی کریمﷺ نے حرام کھانے اورکمانے والوں کی دعاؤں کی عدم قبولیت کا بھی ذکر فرمایا۔ چنانچہ مسلم شریف کی ایک حدیث پاک میں نبی کریمﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا ہے جو لمبا سفر کرکے آیا ہے اور پراگندہ حالت میں ہاتھوں کو پھیلا کر رب رب کہہ کر دعا مانگتا ہے ۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ اس کا کھانا، پینا اور پہننا حرام ہے ،اس کی پکار کیسے قبول ہو؟
اگرمسلمان صحیح طریقے سے نبی کریمﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا میں کامیاب تجارت کرنے کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابیوں کو بھی سمیٹ سکتے ہیں۔ امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی سیرت کو بیان تو کرتے ہیں لیکن اس پر عمل پیرا ہو نے کے لیے آمادہ نہیں ہیں ۔ اگر آج بھی مسلمان سیرت النبیﷺ کی روشنی میںاپنی زندگیوں کو سنوارنا شروع کر دیں تو ذلت ورسوائی کی پستیوں سے نکل کر عہدرفتہ کا عروج پھر سے حاصل کر سکتے ہیں۔